اسلامی تصور حکومت

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسلامی نظریہٴ حکومت عام نظریہٴ حکمرانی سے مختلف ہے، عام تصور یہ ہے کہ یہ ایک اعزاز ہے، جو خوش نصیب لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، اسی لیے قرون قدیمہ میں اس کے لیے کچھ لوگ یا خاندان مخصوص ہوتے تھے، اور اس خصوصیت کو آسمانی باور کرایاجاتا تھا، اسی لیے عام خاندانوں کے لوگ کبھی یہ خیال بھی نہیں کرسکتے تھے کہ وہ بھی کبھی مسند اقتدار پر بیٹھ سکتے ہیں، اسلام کے آنے کے بعد جب انسانی رجحانات میں تبدیلی آئی اور اسلامی فتوحات نے عالمی تصورات میں انقلاب برپا کیا، تو وہ دنیا جو اسلامی تعلیمات کی نورانیت سے محروم ہے، وہاں یہ تو نہ ہوا کہ اسلامی نظریہٴ حکمرانی کو پذیرائی ملتی؛ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اس آسمانی امتیاز کا طِلِسم پارہ پارہ ہوگیا، اور ہر طبقہ کے لوگ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، ہر ایک نے اس کو اپنے استحقاق کا مسئلہ بنالیا، عورتیں بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں، اس لیے کہ حق کے معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے، دنیا کی پوری تاریخ حکمرانی انہی حقائق کے گرد گھوم رہی ہے، غیراسلامی دنیا میں ایسے حکمراں شاید انگلیوں پر گنے جاسکیں، جنھوں نے ان سفلی جذبات سے بلندہوکر حکمرانی کے حقوق ادا کیے ہوں۔

اس کے بالمقابل اسلامی نظریہٴ حکومت یہ ہے کہ یہ کوئی پیدائشی اعزاز نہیں؛ بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، یہ مقام عزت نہیں، موقع خدمت ہے، یہ قدرت کامحض عطیہ نہیں؛ بلکہ فریضہ بھی ہے، یہ کامیابی نہیں آزمائش ہے، اس کی نہیں بلکہ اس سے بچنے کی آرزو کرنی چاہیے، قرآن وحدیث کی متعدد نصوص میں اس تصور کی ترجمانی کی گئی ہے، قرآن پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:

ان اللہ یأمرکم أن توٴدوا الأمانات الیٰ أھلھا واذا حکمتم بین الناس أن تحکموا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ ان اللہ کان سمیعاً بصیراً (النسا:۵۸)
ترجمہ: اللہ پاک تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم امانتیں اہل امانت کے حوالے کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلے کی نوبت آئے تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ پاک تمہیں اچھی نصیحت کرتے ہیں اور اللہ پاک سننے اور دیکھنے والے ہیں۔

ارشاد نبوی ہے:

ألا کلکم راع وکلکم مسوٴل عن رعیتہ فالامام الأعظم الذی علی الناس راع وھو مسوٴل عن رعیتہ (بخاری شریف، کتاب الاحکام، مسلم شریف کتاب الامارة)
ترجمہ: سنو! تم میں سے ہر شخص جواب دہ ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھ ہوگی پس حکمرانِ اعلیٰ بھی اپنی رعایا کے حق میں جواب دہ ہے۔

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:

من ولی لنا عملاً ولم تکن لہ زوجة فلیتخذ زوجة ومن لم یکن لہ خادم فلیتخذ خادماً اولیس لہ مسکن فلیتخذ مسکناً اولیس لہ دابة فلیتخذ دابة فمن أصاب سویٰ ذٰلک فھو غال أو سارق (کنزل العمال ج۶ ص۳۴۶)
ترجمہ: جس شخص کو حکومت کا کوئی منصب حوالے کیا جائے، اور اس کے پاس بیوی نہ ہوتو بیوی حاصل کرلے، خادم نہ ہوتو خادم بنالے، جس کے پاس گھر نہ ہو گھر بنالے، سواری نہ ہو تو سواری کا انتظام کرلے اس سے زیادہ جو حاصل کرتا ہے وہ خائن ہے یا چور۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری کو مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا:

یا أبا ذر! انک ضعیف وانھا أمانة وانھا یوم القیامة خزی وندامة الا من أخذ بحقھا وأدی الذی علیہ فیھا (کنز العمال ج۶ ح۱۲۲۶۸)
ترجمہ: اے ابوذر! تم ایک کمزور شخص ہو اور منصبِ حکومت ایک امانت ہے اور روز قیامت باعث ذلت وندامت، سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے اس کے حق کا لحاظ رکھا اور ذمہ داریاں پوری کیں۔

امیر میں کیسی احساس ذمہ داری ہونی چاہیے اس کی ترجمانی حضرت عمر بن خطاب کے اس قول سے ہوتی ہے:

لوھلک حمل من ولد الضان ضیاعاً بشاطیٴ الفرات خشیت أن یسألنی اللہ (کنزالعمال ج۵ ح ۲۵۱۲)
ترجمہ: دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی اگر ہلاک ہوجائے تو مجھے ڈرلگتا ہے کہ اللہ پاک مجھ سے باز برس نہ کرے۔
 
Top