اسلامی طریقہء انتخاب

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ کام ریاست کے اربابِ حل وعقد کا ہے، کہ وہ پوری دیانت وامانت کے ساتھ اہل شخص کا انتخاب کریں جس میں اجتماعی اور انتظامی امور کی صلاحیت ہو اور دینی واخلاقی طور پر قوم کے نزدیک قابل اعتماد ہو، فقہاء نے اس ضمن میں بعض شرائط کا ذکر کیا ہے جن میں کچھ اتفاقی ہیں اور کچھ اختلافی:

شرائط اہلیتِ امامت:

(۱) مسلمان ہو، اس لیے کہ جواز شہادت کے لیے اسلام شرط ہے، مسلمانوں کے خلاف کافروں کی شہادت درست نہیں؛ جب کہ ولایت کا درجہ شہادت سے بلند ہے، اس شرط کا ماخذ یہ آیت کریمہ ہے: ولن یجعل اللہ للکافرین علی الموٴمنین سبیلاً (النساء:۱۴۱)

ترجمہ: اور اللہ پاک کافروں کو اہل ایمان پر ہرگز کوئی سبیل نہیں دے گا۔

ظاہر ہے کہ حکومت سے بڑھ کر سبیل کیا ہوسکتی ہے؟

(۲) عاقل وبالغ ہو، کسی بچے یا پاگل کی امامت درست نہیں؛ اس لیے کہ وہ خود اپنے معاملات میں دوسروں کے محتاج ہیں تو پوری ریاست اور قوم کے معاملات ومسائل کا بوجھ وہ کیا اٹھاسکتے ہیں؟ یہ تو بہت بنیادی بات ہے؛ بلکہ کم از کم اتنا صاحب فہم ہونا چاہیے کہ ریاست کے معاملات ومسائل کو سمجھے اور قومی وملکی امور میں دشمن کے فریب سے خود کو بچا سکے، ایک اثر صحابی سے اس پر روشنی پڑتی ہے:

تعوذوا باللہ من رأس السبعین․․․ وامارة الصبیان (أخرجہ أحمد ۲/۳۲۶ ط السلفیة واسنادہ ضعیف، المیزان للذھبی ۳/۴۰۲ ط الحلبی)

ترجمہ: ستر (۷۰) کے آغاز․․․ اور بچوں کی حکومت سے پناہ چاہو۔

(۳) مرد ہو، اسلام میں عورتوں کو خلافت کا بار دینے کی اجازت نہیں،اور نہ اس کی فطری ساخت اس جیسی بڑی ذمہ داریاں اٹھانے کی متحمل ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لن یفلح قوم وَلّوأمرَھم امرأة (رواہ البخاری وأحمد والنسائی والترمذی فتح الباری ۸/۱۲۶ ط السلفیة)

ترجمہ: وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جو اپنے معاملات کی ذمہ داری کسی عورت کے حوالے کردے۔

(۴) آزاد ہو، غلام نہ ہو۔

(۵) اعضاء وحواس صحیح سالم ہوں،اور امور خلافت کی انجام دہی پر خود قدرت رکھتا ہو۔

بعض مختلف فیہ شرطیں:

(۶) عدالت واجتہاد؛ فقہاء مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک امیرکے لیے عادل ہونا شرط ہے (یعنی ایسا شخص جو امانت ودیانت اور اخلاقِ فاضلہ کا حامل ہو، صادق القول ہو، گناہوں سے بچتا ہو، اعتماد اور وقار رکھتاہو، رضا اور غضب ہرحال میں قابلِ بھروسہ ہو، اس کی دینی اور اخلاقی حالت لوگوں میں معروف اورمسلم ہو) اور صاحبِ اجتہاد (یعنی اتنا علم وفہم کی مختلف مسائل وواقعات میں کسی نتیجے تک پہنچنے کی اس میں صلاحیت ہو) اسی لیے ان کے نزدیک صاحب عدل و اجتہاد شخصیت کے رہتے ہوئے کسی فاسق یا غیرمجتہد کو امیر بنانا درست نہیں ہے، حنفیہ کی رائے میں امیر میں یہ صفات بطور شرطِ صحت نہیں؛ بلکہ بطور اولویت مطلوب ہیں، یعنی اگر عادل ومجتہد شخصیت کی موجودگی میں کسی ایسے شخص کو یہ ذمہ داری دے دی جائے، جو ان صفات سے محروم ہوتو یہ انتخاب کا غیر مناسب طریقہ تو ہوگا، مگر منتخب شدہ امیر کی امارت باطل نہیں ہوگی۔ (حاشیہ ابن عابدین ۱/۳۸، ۴/۳۰۵، الأحکام السلطانیہ للماوردی ص۶، جواہر الاکلیل ۲/۲۲۱، شرح الروض ۴/۱۰۸، مغنی المحتاج ۴/۱۳۰، الانصاف ۱۰/۱۱۰)

(۷) سماعت وبصارت اور ہاتھ اور پاؤں سلامت ہوں، جمہور فقہاء کے نزدیک اس کے بغیر امامت منعقد ہی نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کے نزدیک اندھے، بہرے، ہاتھ اور کان کٹے کو امام بنانا درست نہیں، اور اگر شروع میں صحیح سلامت تھا بعد میں یہ نقائص پیدا ہوگئے تو اس کی امامت باطل ہوجائے گی۔

(۸) بہتر نسب کا حامل ہو، جمہور فقہاء کے نزدیک امام کے لیے قریشی النسل ہونا ضروری ہے، بعض علماء اس کو ضروری قرار نہیں دیتے، جمہور کا مأخذ حدیث پاک ہے:

الائمة من قریش (أخرجہ الطیالسی ص۱۲۵ ط دائرة المعارف النظامیہ، واصلہ فی البخاری مع الفتح ۱۳/۱۱۴ ط السلفیة) بلفظ ان ھذا الأمر من قریش․․․

ترجمہ: ائمہ قریش سے ہوں گے۔

(۹) بعض علماء نے سیاسی بصیرت اور صاحب رائے ہونے کی بھی قید لگائی ہے، یعنی اسے سیاسی مسائل، ملکی اور قومی مصالح اور اجتماعی ضروریات اور تقاضوں کی خبر ہو، ماوردی کے الفاظ ہیں:

الرایٴ المفضي الیٰ سیاسة الرعیة وتدبیر المصالح (الأحکام السلطانیة ص۴)

اسی سے ملتی جلتی بات بعض دوسرے علماء نے بھی لکھی ہے، دیکھیے (اصول الدین للبغدادی ۲۷۷، مقدمہ ابن خلدون ۱۶۱، فصل ۲۶ ط المہدی)

(۱۰) بعض اصحاب علم نے مضبوط قوتِ ارادی، عزم وہمت، صلابت وجرأت، چیلنجوں کامقابلہ کرنے کی صلاحیت، ملک وملت کی حفاظت، مظلوموں کی داد رسی، شرعی قوانین اور نظامِ عدل ومساوات کے اجراء کی صلاحیت اور جذبہ کی بھی قید لگائی ہے۔ (حوالہ جات بالا، عقائد نسفیہ ۱۴۵)

خلیفہ کے انتخاب کا یہی اصل طریقہ ہے کہ قوم کے ارباب حل وعقد کے مشورے سے یہ عمل میں آئے، اور جس شخصیت کا انتخاب ہو پہلے یہ حضرات اس کے ہاتھ پر بیعت کریں، یہی اصل اسوہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، آپ دنیا سے تشریف لے گئے اور امیر کے مسئلے کوامت کے حوالہ فرمادیا، یہ راستہ خطرات اوراندیشوں سے پاک ہے، یہ ہر زمانے میں سکہٴ رائج الوقت کی طرح چل سکتا ہے۔
 
Top