قربانی سے قبل بال نہ کٹوانا

محمد حفص فاروقی

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
1۔مفتی صاحب میرا سوال ہے کہ جو قربانی کرنے والے لیے بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم ہے یہ عمل سنت ہے یا مستحب اس پر زرا روشنی ڈال دیں۔
2۔مختلف گروپس میں یہ بتایا جارہاہے کہ شریعت مطہرہ میں بدھ کے دن بال کاٹنا ممنوع ہے اور جو بدھ کے دن بال یا ناخن کاٹے گا اسے کوڑھ کی بیماری لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کی وضاحت فرمادیں
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب:۔

جواب نمبر۱
۔ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘ ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔
اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ
جس شخص کا قربانی کا ارادہ ہواس کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال اور ناخن نہ کٹوائے ،حدیث میں ممانعت آئی ہے،احناف کے نزدیک یہ ممانعت مکروہ تنزیہی پر محمول ہے۔اور اگر کوئی شخص نہیں بھی کاٹتا تو اس کی قربانی بلاکراہت جائز ہوگی۔(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)
سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً (صحيح مسلم (3/ 1565)
عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي(سنن النسائي (7/ 211)

جواب نمبر ۲۔یہ بلکل من گھڑت بات ہے اس کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں۔آپ بدھ کے دن بال و ناخن بلا کراہت کاٹ سکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
 
Top