دو دونی چار، چار دونی آٹھ

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
’’ ریاضی ‘‘ کو عمومی طور پر خشک مضمون سمجھا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی پسندیدگی کی شرح کم ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس میں بڑی تعداد ان طلباء کی ہے جو ریاضی کو سمجھنے کے باوجود ، پرچہ حل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ سوال حل نہ ہونے کا خوف ریاضی میں عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ ہے۔
علم ریاضی، اُم الاسائنس کہلاتا ہے، گویا ریاضی کے بغیر نہ تو سائنس کا وجود ممکن ہے ، نہ ہی بنیادی سائنس کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ ریاضی کے قوانین طبیعات ، حیاتیات ، کیمیا جیسے جدید اور عصری علوم میں مستعمل ہیں۔ آئنسٹائن ہو یا نیوٹن جیسے سائنسدانوں کو بھی اپنے اصولوں کو پیش کرنے کے لئے ریاضی کے قوانین کا سہارا لینا پڑا تھا۔ دنیا میں ہر شعبہ ہی ریاضی کا محتاج نظر آتا ہے۔
زراعت ، انجینئرنگ گویا ہر ادارہے میں کسی نہ کسی طرح ریاضی کا عمل دخل ہو تاہے۔ دنیا بھر میں اس کی ضرورت و اہميت کے پیش نظر علم ریاضی کو خاص مقام حاصل ہے ، اس کی نصاب سازی اور ماہرین تعلیم کی تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں علم ریاضی کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔
نظام،نصاب اور معلم زبوں حالی کا شکار ہيں۔ خوش قسمتی سے ریاضی کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق اگر کوئی پڑھانے والا ميسر ہو جائے تو نہ نصاب اس سے ميل کھاتا ہے، نہ نظام اسے کہیں ٹکنے دیتا ہے۔ حساب پڑھانے کے لیے بیش تر اداروں میں تناؤ کا ماحول ہوتاہے ، نتیجتاً مضمون کو سمجھنے کے بجائے محض سوالات حل کرنے کا کلچر عام ہوگيا اور طلباء ’’مکھی پہ مکھی مارنا‘‘ مانند علم کے حصول کو ہی تعلیم سمجھ رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اچھا استاد ہی شعور کے زينے پھلانگنے میں مدد گار ہوتا ہے ہے- عموماً ریاضی کے بنیادی اصول سمجھانے کے بجائے خود اپنے طریقے سے 'پڑھانے’ پر انحصار کرتے ہیں اور محض مشقيں کروا کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ مُعلم کے لیے تعلیم دینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ خود اس کی ضرورت ، اہمیت اور منطق کو نہ سمجھے۔ وہ مضمون کو جس طرح پڑھاتے ہیں، اُسی اعتبار سے طلباء میں بھی مضمون کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی ہے۔
سوالات کو رٹے رٹائے انداز سے کروانا طلباء سوال کو حل کرنے اور کھوجنے کی صلاحیت سے محروم ہو رہے ہیں ، نتیجتاً اُنہیں حساب غير دلچسپ اور مشکل مضمون لگنے لگتا ہے اور ریاضی کا خوف خون میں سرایت کرجاتا ہے۔ ایسے طلباء نکمے کا ٹيگ لگائے مایوسی کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ کتاب کھولتے ہی ڈپريشن طاری ہوجاتا۔ آئندہ رياضی نہ پڑھنے کا پختہ ارادہ باندھ لیتے ہیں۔ اگر خوش قسمتی اچھے استاد مل جائےتو تمام گتھياں سلجھتی جاتی ہیں ، ہندسے اور علامتیں باتیں کرتی محسوس ہونے لگتی ہیں، پھررفتہ رفتہ طلباء کی ریا ضی میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ خود اعتمادی کا گراف اونچا ہوجاتا ہے ۔
ریاضی کا مضمون دیگر نصابی کتب کے مقابلے میں طلباء کی ذہنی قوت و استعداد میں انتہائی مثبت تیز کام کرتا ہے،ايسے طلباء زندگی میں پيش آنے والے چيلنجز کا سامنا اور مسائل کا بہتر تدارک کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ علم ریاضی کو بطور 'گنجلک ' پیش کرنا بھی ہے۔ والدین پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرین تعلیم کے مطابق نصاب کی جديد ضروريات کے تحت تشکیل اور اساتذہ کی وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت ضروری ہے تاکہ وہ طلباء کو ریاضی بنیادی اصولوں کے مطابق سمجھا سکیں۔ ہندسوں ، علامتوں کی سمجھ بوجھ ، بنیادی اصولوں کا مقصد، کلیے قانون کے استعمال جیسے رموز سے آشنا ہوں گے تو طلباء ریاضی کو روزمرہ زندگی سے جوڑنے کے قابل ہوسکيں گے۔
 
Top