ایک پنجابی شعر کی تشریح

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
مصرع :
بالو بتیاں وے ماہی ساکوں مارو سنگلاں نال

تشریح:
شاعر قمیص اتار کر چھت پر سویا ہوا تھا اور تارے گن رہا تھا ۔ اسے گرمی کے ساتھ ساتھ محبوبہ کی یاد ستانے لگی ۔اس نے ایک فیصلہ کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ قمیص پہنی اور محبوبہ کے گھر کی طرف چل دیا ۔ وہ آج بہت پرجوش تھا کہ بجلی گئی ہوئی ہے اور ہر طرف اندھیرے کا راج ہے لہذا محبوبہ سے ملنے اور ڈھیروں باتیں کرنے کا خوب صورت موقع ہے۔ انھی سوچوں میں گم وہ محبوبہ کے گھر تک پہنچ گیا۔ دیوار کے ساتھ لگے جامن کے درخت پر چڑھا اور اندر کود گیا۔ وہ خوش تھا کہ ابھی تک بجلی نہیں آئی تھی ۔لیکن اس نے حفظ ماتقدم کے تحت مین سوئچ آف کر دیا ۔
ابھی اس نے سوئچ آف کر کے قدم محبوبہ کے کمرے کی طرف بڑھائے ہی تھے کہ کئی ہاتھوں نے اسے دبوچ لیا اور چلانے لگے اوئے کون ہے ؟ کون ہے ؟ کسی نے آواز لگائی! کوئی چور ہے۔۔۔۔ بس پھر کیا تھا ، اس پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش ہو گئی ۔ آٹھ دس مکے تھپڑ کھانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ یہ تو میں بہت غلط کر بیٹھا ہوں اور وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگا اور سوچنے لگا کہ مجھے اس غلطی کی سزا ملی چاہیے ۔ اتنے میں بجلی آ گئی کیونکہ باہر دوسرے گھروں کی بتیاں جلنے لگی تھیں لیکن یہاں ہنوز اندھیرا تھا اس لیے کہ مین سوئچ آف تھا۔ اس پر ابھی تک تھپڑ مکوں کی بارش جاری تھی لیکن وہ چاہتا تھا کہ مجھے اس سے زیادہ سزا ملے کیونکہ میرا جرم بڑا ہے لہذا وہ زور سے چلایا۔۔۔ !
" بالو بتیاں وے ماہی ساکوں مارو سنگلاں نال "
انھوں نے بتیاں جلائیں اور سنگل اٹھا لیے۔ دو چار سنگل مارے اور پوچھا یہاں کیوں آئے ہو؟۔ اب وہ سچ بول کر محبوبہ کو بدنام تو نہیں کر سکتا تھا اس لیے کہنے لگا میرا ڈھول یہاں رہ گیا تھا وہ لینے آیا ہوں فوری طور پر اس کے ذہن میں یہی بہانہ آیا تھا ۔ محبوبہ کے بھائیوں نے تین چار سنگل اور مارے اور پوچھا بتا وہ ڈھول کہاں ہے ؟ اتنے تھپڑ مکے اور سنگل کھانے کے بعد اس کے حواس ساتھ چھوڑنے لگے تھے اور وہ بہت زیادہ گھبرا بھی گیا تھا اس لیے کہنے لگا۔
" میں اتھاں تے ڈھول چکوال اے "
کبھی کہتا
" میں اتھاں تے ڈھول میانوالی "
کبھی کہتا
" میں اتھاں تے ڈھول ملتان اے "
ادھر یہ ڈھول کو پورا پاکستان پھرا رہا تھا اُدھر سنگلوں کی مار جاری تھی۔ جب یہ مار کھا کھا کر ادھ موا ہو گیا تو انھوں نے اسے باہر پھینک دیا ۔ وہاں کافی دیر بے سدھ پڑا رہا جب کچھ ہوش آیا تو قدم گھسیٹتا بڑی مشکل سے گھر پہنچا ۔ ہلدی والا گرم دودھ پیا اور بستر پر لیٹ گیا اور آئندہ محبوبہ کی گلی میں گزرنے سے بھی توبہ کر لی۔ اب اپنی تسلی کے لیے اکثر کہتا رہتا ہے۔
" اللہ کریسیں چنگیاں ، مک ویسن تنگیاں
وے ڈھولنا دل چھوٹا نہ کر
 

فاطمہ زہرا

وفقہ اللہ
رکن
جامن کے درخت
جامن کے درخت سے ایک کہانی یاد آ گئی
رات کو بڑے زور کا جھکڑ چلا۔ سیکریٹریٹ کے لان میں جامن کا ایک درخت گرپڑا۔ صبح جب مالی نے دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی دبا پڑا ہے۔مالی دوڑا دوڑا چپراسی کے پاس گیا،چپراسی دوڑا دوڑا کلرک کے پاس گیا، کلرک دوڑا دوڑا سپرنٹنڈنٹ کے پاس گیا،سپرنٹنڈنٹ دوڑا دوڑاباہر لان میں آیا۔ منٹوں میں درختوں کے نیچے دبے ہوئے آدمی کے گرد مجمع اکٹھا ہوگیا۔
”بے چارہ!جامن کا پیڑ،کتنا پھل دار تھا!" ایک کلرک بولا۔
"اور اس کی جامنیں کتنی رسیلی ہوتی تھیں۔“ دوسرا کلرک یاد کرتے ہوئے بولا۔
”میں پھلوں کے موسم میں جھولی بھرکے گھر لے جاتا تھا۔"
" میرے بچے اس کی جامنیں کتنی خوشی سے کھاتے تھے۔“تیسرا کلرک تقریباً آبدیدہ ہوکر بولا۔
"مگریہ آدمی۔۔!!!" مالی نے دبے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کیا۔
"ہاں، یہ آدمی۔۔۔۔!" سپرنٹنڈنٹ سوچ میں پڑ گیا۔
”مرگیا ہوگا!اتنا بھاری تنا جس کی پیٹھ پر گرے وہ بچ سکتا ہے؟“دوسرا چپراسی بولا۔
دبے ہوئے آدمی نے بمشکل کراہتے ہوئے کہا۔
”نہیں!میں زندہ ہوں۔“
”درخت کو ہٹا کر اسے جلدی سے نکال لینا چاہیے۔"مالی نے مشورہ دیا۔
”مشکل معلوم ہوتا ہے۔"ایک کاہل اور موٹاچپراسی بولا، ”درخت کا تنا بہت بھاری اور وزنی ہے۔"
”کیا مشکل ہے۔ "مالی بولا،”اگر سپرنٹنڈ نٹ صاحب حکم دیں تو ابھی پندرہ بیس مالی چپراسی، کلرک لگاکر درخت کے نیچے سے دبے ہوئے آدمی کو نکالا جاسکتا ہے۔"
”مالی ٹھیک کہتا ہے۔ "بہت سے کلرک ایک دم بول پڑے، "لگاؤ زور، ہم تیار ہیں۔"ایک دم بہت سے لوگ درخت اٹھانے کو تیار ہوگئے۔
”ٹھہر و!!!" سپرنٹنڈنٹ بولا:"میں انڈر سیکریٹری سے مشورہ کرلوں۔"
سپرنٹنڈنٹ انڈرسیکریٹری کے پاس گیا، انڈر سیکریٹری ڈپٹی سیکریٹری کے پاس گیا، ڈپٹی سیکریٹری جوائنٹ سیکریٹری کے پاس گیا،جوائنٹ سیکریٹری چیف سیکریٹری کے پاس گیا۔چیف سیکریٹری نے جوائنٹ سیکریٹری سے کچھ کہا، جوائنٹ سیکریٹری نے ڈپٹی سیکریٹری سے کہا، ڈپٹی سیکریٹری نے انڈر سیکریٹری سے کہا۔ فائل چلتی رہی۔اس میں آدھا دن گزرگیا۔
دوپہر کے کھانے پر دبے ہوئے آدمی کے گرد بہت بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے تھے۔ کچھ من چلے کلرکوں نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیناچاہا، وہ حکومت کے فیصلے کاانتظار کیے بغیر درخت کو خود سے ہٹانے کا تہیہ کررہے تھے، کہ اتنے میں سپرنٹنڈنٹ فائل لیے بھاگا بھاگا آیا اور بولا:
”ہم لوگ خود سے اس درخت کو نہیں ہٹا سکتے۔ہم لوگ محکمہء تجارت سے متعلق ہیں۔اور یہ درخت کا معاملہ ہے جو محکمہ ء زراعت کی تحویل میں ہے۔اس لیے میں اس فائل کو ارجنٹ مارک کرکے محکمہ ء زراعت میں بھیج رہاہوں۔ وہاں سے جواب آتے ہی درخت کو ہٹادیا جائے گا۔“
دوسرے دن محکمہء زراعت سے جواب آگیا کہ درخت محکمہء تجارت کے لان میں گرا ہے۔ اس لئے درخت کو ہٹوانے یا نہ ہٹوانے کی ذمہ داری محکمہء تجارت پر عائد ہوتی ہے۔یہ جواب پڑھ کر محکمہ ء تجارت کو غصہ آگیا۔انہوں نے فوراً لکھاکہ: پیڑوں کو ہٹوانے یا نہ ہٹوانے کی ذمہ داری محکمہء زراعت پر عائد ہوتی ہے۔محکمہء تجارت کا اس معاملے میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسرے دن بھی فائل چلتی رہی۔شام کو جواب آگیا کہ ہم اس معاملہ کوہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ کے سپرد کررہے ہیں۔کیوں کہ یہ ایک پھلدار درخت کا معاملہ ہے اورایگری کلچرل ڈپارٹمنٹ صرف اناج اور کھیتی باڑی کے معاملہ میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ جامن کا پیڑ ایک پھل دار پیڑ ہے،اس لیے یہ پیڑہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
تیسرے دن ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ سے جواب آگیا۔بڑا کڑا جواب تھا،اور طنزآمیز۔ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ کا سیکرٹری ادبی مزاج کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس نے لکھا تھا: ”حیرت ہے! اس سمے میں جب ہم درخت اگاؤ اسکیم بڑے پیمانے پر چلارہے ہیں،ہمارے ملک میں ایسے سرکاری افسر موجود ہیں جو درختوں کو کاٹنے کامشورہ دیتے ہیں۔اور وہ بھی اک پھل دار درخت کو! اور وہ بھی جامن کے درخت کو۔ جس کا پھل عوام بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ہمارا محکمہ کسی حالت میں اس پھلدار درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔“
”اب کیا کیا جائے!!“ ایک منچلے نے کہا۔" اگر درخت کاٹا نہیں جاسکتا تو اس آدمی کو کاٹ کر نکال لیا جائے۔“
”یہ دیکھئے!“ اس آدمی نے اشارہ سے بتایا،”اگر اس آدمی کو عین بیچ میں سے، یعنی دھڑکے مقام سے کاٹا جائے،تو آدمی ادھر سے ادھر نکل آئے گا۔ آدھا آدمی ادھر سے باہر آجائے گا اور درخت وہیں کا وہیں رہے گا۔"
”مگر اس طرح تو میں مرجاؤں گا۔" دبے ہوئے آدمی نے احتجاج کیا۔
”یہ بھی ٹھیک کہتا ہے۔“ کلرک بولا۔
آدمی کو کاٹنے والی تجویز پیش کرنے والے نے پرزور احتجاج کیا، ”آپ جانتے نہیں ہیں۔آج کل پلاسٹک سرجری کتنی ترقی کرچکی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں اگر اس آدمی کو بیچ میں سے کاٹ کر نکال لیا جائے تو پلاسٹک سرجری کے ذریعے دھڑ کے مقام پر اس آدمی کو پھر سے جوڑا جا سکتا ہے۔“
اب کے فائل کو میڈیکل ڈپارٹمنٹ میں بھیج دیا گیا۔ میڈیکل ڈپارٹمنٹ نے اس پرفوراً ایکشن لیا۔ اور جس دن فائل ان کے محکمہ میں پہنچی،اس کے دوسرے ہی دن اپنے محکمے کا سب سے قابل پلاسٹک سرجن تحقیقات کے لیے بھیج دیا۔ سرجن نے دبے ہوئے آدمی کو اچھی طرح ٹٹول کر، اس کی صحت دیکھ کر،خون کا دباؤ، سانس کی آمدورفت، دل، پھیپڑوں کی جانچ کرکے رپورٹ بھیج دی: "کہ اس آمی کا آپریشن تو ہوسکتا ہے، اور آپریشن کامیاب ہوجائے گا،مگر آدمی مرجائے گا۔“
لہٰذا یہ تجویز بھی مسترد کردی گئی۔
رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کو دال بھات کھلایا۔ حالاں کہ ان کے چاروں اطراف پولیس کا پہرہ تھاکہ کہیں لوگ قانون کو ہاتھ میں نہ لے لیں۔ درخت کو خود سے ہٹوانے کی کوشش نہ کریں۔مگر ایک پولیس کانسٹیبل کو رحم آگیا۔ اس نے مالی کو دبے ہوئے آدمی کو کھانا کھلانے کی اجازت دے دی۔ مالی نے دبے ہوئے آدمی سے کہا،
”تمہاری فائل چل رہی ہے۔ امید ہے کل تک فیصلہ ہوجائے گا۔“
دبا ہوا آدمی کچھ نہیں بولا۔مالی نے پھر کہا۔
”یہاں تمہارا کوئی وارث ہے تو اس کا اتا پتا دیں۔ میں انہیں خبردینے کی کوشش کروں گا۔“
”میں لاوارث ہوں۔“ دبے ہوئے آدمی نے بڑی مشکل سے کہا۔
مالی افسوس ظاہرکرتا ہواوہاں سے ہٹ گیا۔
رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کے منہ میں کھچڑی کے لقمے ڈالتے ہوئے اسے بتایا۔ ”اب معاملہ اوپر چلاگیا ہے۔۔۔ سنا ہے کل سیکرٹریٹ کے سارے سیکرٹریوں کی میٹنگ ہوگی۔ اس میں تمہارا کیس رکھا جائے گا۔امید ہے سب کام ٹھیک ہوجائے گا۔“
دبا ہوا آدمی آہ بھر کے آہستہ سے بولا۔ ؎
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مالی نے اچبنھے سے منہ میں انگلی دبائی، حیرت سے بولا۔ ”کیا تم شاعر ہو؟“
دبے ہوئے آدمی نے آہستہ سے سرہلایا۔
دوسرے دن مالی نے چپراسی کو بتایا، چپراسی نے کلرک کو۔ تھوڑے ہی عرصے میں سیکرٹریٹ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ دبا ہواآدمی شاعر ہے۔بس پھر کیا تھا،لوگ جوق در جوق شاعر کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ اس کی خبر شہر میں بھی پھیل گئی۔ اور شام تک محلے محلے سے شاعر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ سیکرٹریٹ کا لان بھانت بھانت کے شاعروں سے بھر گیا۔ اور دبے ہوئے آدمی کے گرد ایک مشاعرہ بپاہوگیا۔ سیکرٹریٹ کے کئی کلرک اور انڈر سیکرٹریز تک، جنہیں شعر وادب سے لگاؤ تھا۔ وہ رک گئے۔ کچھ شاعر دبے ہوئے آدمی کو اپنی غزلیں اور نظمیں سنانے لگے۔ جب یہ پتہ چلا کہ دبا ہوا آدمی ایک شاعر ہے، تو سیکرٹریٹ کی سب کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چونکہ دباہوا آدمی ایک شاعر ہے۔ لہٰذا اس فائل کا تعلق نہ ایگری کلچرل ڈپارٹمنٹ سے ہے نہ ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ سے، بلکہ صرف کلچرل ڈپارٹمنٹ سے ہے۔کلچرل ڈپارٹمنٹ سے استدعاکی گئی کہ جلد سے جلد اس معاملے کا فیصلہ کرکے اس بدنصیب شاعر کو اس شجرِ سایہ دار سے رہائی دلائی جائے۔
فائل کلچرل ڈپارٹمنٹ کے مختلف شعبوں سے گزرتی ہوئی ادبی اکیڈمی کے سیکریٹری کے پاس پہنچی۔ بے چارہ سیکریٹری اسی وقت اپنی گاڑی میں سوار ہوکر سیکریٹریٹ پہنچااور دبے ہوئے آدمی سے انٹرویو لینے لگا۔
”تم شاعر ہو؟“اس نے پوچھا۔
”جی ہاں!“دبے ہوئے آدمی نے جواب دیا۔
”کیا تخلص کرتے ہو؟“
”اوس۔ؔ“
”اوس!!!ؔ“ سیکرٹری زور سے چیخا۔”کیا تم وہی اوس ہو جس کا مجموعہ ”اوس کے پھول“ حال میں ہی شائع ہو اہے؟"
دبے ہوئے آدمی نے اثبات میں سرہلایا۔
”کیا تم ہماری اکادمی کے ممبر ہو؟“سیکرٹری نے پوچھا۔
”نہیں۔“
”حیرت ہے!“ سیکریٹری زور سے چیخا،" اتنا بڑا شاعر،”اوس کے پھول“ کا مصنف،اور ہماری اکادمی کا ممبر نہیں ہے۔۔!! اف۔۔!اف!!کیسی غلطی ہوگئی ہم سے!!کتنا بڑا شاعر، اور کیسے گوشہء گمنامی میں دبا پڑا ہے!"
”گمنامی میں نہیں، ایک درخت کے نیچے دبا ہوں۔براہ کرم مجھے اس درخت کے نیچے سے نکالیے۔“
”ابھی بندوبست کرتاہوں۔“ سیکریٹری فوراً بولا۔ اور فوراً جا کر اس نے اپنے محکمے میں رپورٹ کی۔
دوسرے دن سیکرٹری بھاگابھاگا شاعر کے پاس آیا اور بولا،”مبارک ہو!! مٹھائی کھلاؤ! ہماری سرکاری اکادمی نے تمہیں اپنی مرکزی کمیٹی کاممبر چُن لیا ہے۔ یہ لو پروانہء انتخاب۔“
”مگر مجھے اس درخت کے نیچے سے تو نکالو۔“ دبے ہوئے آدمی نے کراہ کرکہا۔اس کی سانس بڑی مشکل سے چل رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ شدید تشنج اور کرب میں مبتلا ہے۔
”یہ ہم نہیں کرسکتے۔“ سیکریٹری نے جواب دیا۔"حضور! جو ہم کرسکتے تھے،وہ ہم نے کردیا ہے۔بلکہ ہم تو یہاں تک کرسکتے ہیں کہ اگر تم مرجاؤ تو تمہاری بیوی کو وظیفہ دے سکتے ہیں۔اگر تم درخواست دو تو،ہم وہ بھی کرسکتے ہیں۔“
”میں ابھی زندہ ہوں۔"شاعر رک رک کر بولا۔”مجھے زندہ رکھو۔“
”مصیبت یہ ہے۔"سرکاری اکادمی کا سیکرٹری ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔ ”ہمارامحکمہ صرف کلچرل سے متعلق ہے۔ درخت کاٹنے کامعاملہ قلم دوات سے نہیں، آری کلہاڑی سے متعلق ہے۔ اس لئے ہم نے فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کو لکھ دیا ہے۔اور ارجنٹ لکھا ہے۔"
شام کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کو بتایا،”کل فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے آدمی آکر اس درخت کو کاٹ دیں گے اور تمہاری جان بچ جائے گی۔“
مالی بہت خوش تھا۔ دبے ہوئے آدمی کی صحت جواب دے رہی تھی مگر وہ کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی کے لئے لڑے جارہا تھا۔ کل تک، صبح تک۔۔۔۔۔ کسی نہ کسی طرح اسے زندہ رہنا ہے۔ دوسرے دن جب فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے آدمی آری کلہاڑی لے کر پہنچے ، تو ان کو درخت کاٹنے سے روک دیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ محکمہء خارجہ سے حکم آیا تھا کہ: اس درخت کو نہ کاٹا جائے ۔ وجہ یہ تھی کہ اس درخت کو دس سال پہلے حکومت پی ٹو نیا کے وزیراعظم نے سیکرٹریٹ کے لان میں لگایا تھا ۔ اب اگر یہ درخت کاٹا گیا تو اس امر کا شدید اندیشہ ہے کہ حکومت پی ٹو نیا سے ہمارے تعلقات ہمیشہ کے لیے بگڑ جائیں گے ۔

’’مگر ایک یہ آدمی کی جان کا سوال ہے ۔ ‘‘ ایک کلرک غصّہ سے چِلّایا ۔
’’دوسری طرف دو حکومتوں کے تعلقات کا سوال ہے ۔ ‘‘ دوسرے کلرک نے پہلے کلرک کو سمجھایا ۔
’’اور یہ بھی تو سمجھو کہ حکومت پی ٹو نیا ہماری حکومت کو کتنی امداد دیتی ہے ۔ کیا ہم ان کی دوستی کی خاطر ایک آدمی کی زندگی کو بھی قربان نہیں کرسکتے;238;‘‘
’’شاعر کو مرجانا چاہیے ۔ ‘‘
’’بلاشبہ!‘‘
انڈر سیکرٹری نے سپرنٹنڈنٹ کو بتا یا : ’’آج صبح وزیراعظم دورے سے واپس آئیں گے ۔ آج چار بجے محکمہء خارجہ اس درخت کی فائل ان کے سامنے پیش کرے گا ۔ جو وہ فیصلہ دیں گے ،وہی سب کو منظور ہوگا ۔ ‘‘
شام کے پانچ بجے خود سپرنٹنڈنٹ شاعر کی فائل لے کر اس کے پاس آیا ۔ ’’سنتے ہو!‘‘
آتے ہی وہ خوشی سے فائل کو ہلاتے ہوئے چِلّا ےا ۔ ’’وزیراعظم نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم دیا ہے اور اس واقعہ کی ساری بین الاقوامی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے ۔ کل یہ درخت کاٹ دیا جائے گا اور تم اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرلوگے ۔ ‘
’’سنتے ہو!آج تمہاری فائل مکمل ہوگئی ۔ ‘‘سپرنٹنڈنٹ نے شاعر کے بازو کو ہلاکرکہا ۔
مگر شاعر کا بازو سرد تھا ۔ آنکھوں کی پُتلیاں بے جان اور چیونٹیوں کی ایک لمبی قطاراس کے منہ میں جارہی تھی ۔
اس کی زندگی کی فائل بھی مکمل ہوچکی تھی ۔
(کرشن چندر)
 
Top