نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آج کل بعض حلقوں میں نمازِ تراویح اور قیام اللیل میں قرآن دیکھ کر قراء ت کرنے کا رواج ہوگیا ہے،
عرب ممالک کی بیشتر مساجد میں یہ وبا عام ہوچکی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ تراویح کا یہ طریقہ حفاظتِ قرآن کے لیے سمِ قاتل سے کچھ کم نہیں،
اس سے حفاظتِ قرآن کا ایک اہم ذریعہ متاثر ہوجائے گا؛
کیوں کہ حفاظت قرآن کے لیے دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں،
ایک سینہ، دوسرے صحیفہ۔
پہلا ذریعہ تو اسلام کے امتیازات میں سے ہے، حفاظتِ قرآن کا یہ بے نظیر اور عظیم الشان طریقہ پہلی قوموں میں نہیں پایا جاتا،
آج امت تک اگر قرآن من وعن پہنچا ہے تو اس میں صحیفہ سے زیادہ سینہ کا دخل ہے؛
اسی لیے فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
حَامِلُ الْقُرْآنِ حَامِلُ رَأْیَةِ الْاِسْلَامِ ”حافظِ قرآن درحقیقت اسلام کا علمبردار ہے“
(التبیان:۵۵)۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
”نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا“ اقوال سلف کی نظر میں:

امام ابوداؤد رحمة اللہ علیہ نے ”کتاب المصاحف“ میں قرآن دیکھ کر نماز پڑھنے کے حوالے سے ایک باب قائم کیاہے: ”ھل یوٴم القرآن في المصحف“، جس میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے مختلف آثار نقل کیے ہیں، اس کے بعد ”وقد رخص في الإمامة في المصحف“ کا عنوان لگاکر ان حضرات کے آثار نقل کیے ہیں، جنھوں نے نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ امام ابوداؤد نے ان کو پہلے ذکر کیا ہے جن آثار میں ممانعت ہے اور جن آثار میں اجازت ہے انھیں بعد میں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی ممانعت اور عدمِ جواز کے قائل ہیں اور پھر ”وقد رُخص“ کا لفظ استعمال کیا ہے یہ بتانے کے لیے کہ نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت اگر ہے تو وہ عمومی نہیں ہے؛ بلکہ بہ وقتِ مجبوری ہے۔ ذیل میں مذکورہ باب سے چند اہم آثار کو نقل کردینا استفادے سے خالی نہیں۔

۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ہمیں امیرالمومنین عمر بن خطاب  نے اس بات سے منع کیا کہ امام قرآن دیکھ کر امامت کریں اوراس بات سے منع کیا کہ نابالغ امامت کرے: ”عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اللہ عنھما قَالَ: نَھَانَا أمِیْرُ الْمُوٴْمِنِیْنَ عُمَرُ رضي اللہ عنہ أَن یَّوٴُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ وَنَھَانَا أَن یَّوٴُمَّنَا إِلَّا الْمُحْتَلِمُ“․

۲- قتادہ، سعید بن المسیب رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: اگر قیام اللیل میں پڑھنے کے لیے مصلی کو کچھ یاد ہے تو وہی بار بار پڑھے؛ لیکن قرآن دیکھ کر نہ پڑھے۔ ”عن قتادة عن ابن المسیب قال: إِذَا کَانَ مَعَہُ مَا یَقُوْمُ بِہِ لَیْلَہُ رَدَّدَہُ وَلاَ یَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ․

۳- لیث، مجاہد رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کو مکروہ قرار دیتے تھے، اس وجہ سے کہ اس میں اہل کتاب سے تشبہ ہے، ”عن لیث عن مجاھد أنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَّتَشَبَّھُوْا بِأَھْلِ الْکِتَابِ یَعْنِيْ أَنْ یَّوٴُمَّھُمْ فِي الْمُصْحَفِ“․

۴- اعمش،ابراہیم رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ اہل قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کو سخت ناپسند کرتے تھے؛ کیوں کہ اس میں اہل کتاب سے تشبہ ہے۔ ”عن الأعمش عن إبراھیم قال: کَانُوْا یَکْرَھُوْنَ أَنْ یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ کَرَاھِیَةً شَدِیْدَةً أَن یَّتَشَبَّھُوْا بِأَھْلِ الْکِتَابِ“․ اس کے علاوہ بھی اور بہت سے آثار امام ابوداؤد نے نقل کیے ہیں، مزید تفصیل کے لیے کتاب المصاحف (۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱) کی طرف رجوع کیا جائے۔

۵- خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تاریخ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا اثر نقل کیا ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی رمضان کے مہینے میں لوگوں کو نماز پڑھائے اور قراء ت، قرآن میں دیکھ کرکرے اور فرماتے تھے کہ یہ اہلِ کتاب کا عمل ہے: عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ کَانَ یَکْرَہُ أَن یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ النَّاسَ بِاللَّیْلِ فِيْ شَھْرِ رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ ھُوَ مِنْ فِعْلِ أَھْلِ الْکِتَابِ․ (تاریخ:۹/۱۲۰)

معلوم ہوا کہ اکثر اہلِ علم نے اس کو باطل گردانا ہے۔ بعض علماء نے اگر کچھ نرمی برتی بھی ہے تو بلاضرورتِ شدیدہ کے جائز کسی نے نہیں کہا ہے۔ علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: إن ہذا الصنیع مکروہ بلا خلاف“ (بدائع الصنائع: ۲/۱۳۳) ”نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے“۔
 
Top