جمعہ گل بنوں گا

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
*جاوید عباسی کی وال سے*

میں جب تین سال کا تھا تو ٹھٹھرتی سردی میں ایک دن دادا نے سکول میں داخل کروا کر عمر پانچ سال لکھوا دی کہ سرکاری سکول میں اس وقت پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔ جبکہ میرا یار جمعہ گُل اپنی اماں کی گرم گود میں بیٹھ کر چائے پراٹھے ٹھونستا رہا۔

میں ٹاٹ پر بیٹھ کر صبح سے دوپہر تک الف سے اللّٰہ اور ب سے بکری کے راگ الاپتا رہا۔ جُمعہ گُل، گلے میں غلیل ڈال کر گاؤں کے درختوں میں پرندے مارتا رہا۔ ہم سارا سارا دن اُستاد رحیم گل کی سوٹیاں اپنی پشت پر کھاتے رہے تاکہ کل کو مُعاشرے میں ایک مقام بنا سکیں۔ جُمعہ گُل اپنے باپ کے کندھے پر بیٹھ کر گاؤں کے میلے لُوٹتا رہا۔

ہم سکول سے چُھٹی ہونے کے بعد گندم کی کٹائیوں میں اماں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ جُمعہ گُل کھیت کی مُنڈیر پر بیٹھ کر بے فکری سے گیت گاتا رہا۔

ہم جب آنسو بھری آنکھوں سے جُمعہ گل کی طرف دیکھتے تو دل کا حال جان کر اماں بولتیں بیٹا تو ایک دن بڑا افسر بنے گا اور جُمعہ گل جیسے لوگ تیرے نوکر بنیں گے۔

سکول سے کالج، کالج سے یونیورسٹی ہماری قسمت میں صرف کتابوں کا ڈھیر چاٹنا رہ گیا۔ جب کہ جُمعہ گُل گاؤں کا لُچا لفنگا بن کر جوانی کے مزے لُوٹتا رہا۔

اِدھر ہم نے پی ایچ ڈی تھیسز جمع کروا کر گویا علّامہ بننے کی ٹھان لی۔ تو اُدھر گاؤں میں جُمعہ گُل نے بغل سے پستول کا ہولسٹر ہٹا کر کندھے پر کلاشنکوف رکھنا شروع کردی۔ پھر ہم نے پیچھے کبھی مُڑ کر نہیں دیکھا۔ کہاں کا جُمعہ گُل اور کہاں میں۔

ہم بقول اماں کے واقعی افسر بن گئے۔ گاؤں سے اپنا ناطہ ٹوٹ گیا۔ اپنی افسری، شہری بیوی اور بچوں میں ایسا کھو گئے کہ یاد بھی نہیں رہا تھا کہ جُمعہ گُل کیا کررہا ہوگا۔ اماں کی باقی ساری باتیں بالکل سچ ثابت ہو چُکی تھیں۔ بس کبھی کبھار اُن کی یہ بات دل کے دروازے پر دستک دے کر بےچین کر دیتی کہ جُمعہ گُل تمہارا نوکر بنے گا۔

شاید اماں کی بات سے زیادہ یہ خود کی ایک خواہش تھی۔ جو شعور سے لاشعور تک کا فاصلہ پاٹتے ہوئے تحت الشعور میں پنجے جا گاڑ بیٹھی تھی۔ پھر میں کیمبرج میں پڑھتے اپنے بچوں کو ہر وقت یہی راگ سُنانے لگتا کہ بیٹا میری طرح بنو، جُمعہ گُل مت بنو۔ میرے بچے مجھ سے پوچھتے کہ پاپا ہُو اِز جمعہ گل؟

میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا، کہ میرا نوکر۔

سالوں بعد گاؤں جانا ہوا۔ بیوی بچے ساتھ تھے۔ گاؤں بھی پھیل کر جیسے چھوٹا سا شہر بن گیا ہو۔ کافی لوگ اب اجنبی تھے میرے لیے۔۔۔ ایک دن پیغام آیا کہ جُمعہ گُل نامی بندے نے اہلِ خانہ سمیت دعوت پر بُلایا ہے۔

میرے اندر ایک کمینی سی خوشی در آئی کہ جُمعہ گُل کو دکھاؤں گا کہ پڑھائی لکھائی اور اُستاد رحیم داد کی سوٹیوں نے مُجھے کہاں سے کہاں تک پُہنچا دیا اور وہ سدا کا لُچا لفنگا آج بھی دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔

بیگم کو تاکید کی کہ پانچ ہزار اس کی بیوی کو تھما دینا۔ رات کو اپنی 4,000 سی سی گاڑی میں بیٹھ کر جُمعہ گُل کے گھر پُہنچا تو سناٹے میں آگیا۔

شہر میں تین سو گز بنگلے والا افسر چار ہزار گز کے وسیع بنگلے کو دیکھ کر حیرت سے دانتوں میں اُنگلی دبائے رہ گیا۔ جس پر "جُمعہ گُل پیلس" کی نیم پلیٹ اس کا مُنہ چڑا رہی تھی۔ بنگلے کے اندر چار وی ایٹ لینڈ کروزرز ایک شان سے کھڑی تھیں۔ واسکٹ پہنے جُمعہ گُل گرم جوشی سے آگے بڑھ کر میرے گلے لگ گیا۔۔۔ ڈاکٹر صاحب بڑے آدمی بن گئے۔ بُھول گئے ہم جیسے غریب اور ان پڑھوں کو۔

میری بیوی اور بچے مُنہ کھولے حیرانی سے بنگلے کو دیکھ رہے تھے۔ جُمعہ گُل بتا رہا تھا کہ ماں کی دعاؤں سے وہ آج سیاستدان بن گیا ہے۔ جب بھی عدم اعتماد کی ہوا چلتی ہے وہ چالیس پچاس کروڑ بنا لیتا ہے۔ اچانک میرے بیٹے نے انگریزی میں مُجھ سے پُوچھا کہ بابا یہ وہی جُمعہ گُل ہے جو آپ کا نوکر بن رہا تھا؟۔ میری خاموشی پر چھوٹے والے بیٹے نے انگریزی میں کہا
بابا میں بھی جُمعہ گُل بنوں گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
واہ کیا کہنے ۔۔۔۔۔۔۔ "بابا میں بھی جمعہ گل بنوں گا" یہ جملہ پڑھ کر مجھے اپنا بھتیجا یاد آگیا
ٹیچر بچوں سے باری باری پوچھتی کہ بیٹا تم بڑے ہو کر کیا بنوگے
تو کوئی کہتا ڈاکٹر کوئی انجینئر مگر میرے بھتیجے نے کمال کا جواب دیا
کہنے لگا میں "کباڑی " بنوں گا
اور اس کی وجہ یہ تھی ایک ایک کباڑی اکثر گھر کےسامنے نالے پر بیٹھ کر "سکے "گنتا تھا
اور وہ بچہ تھا اسے یہ بہت بڑی رقم لگ رہی تھی
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
واہ کیا کہنے ۔۔۔۔۔۔۔ "بابا میں بھی جمعہ گل بنوں گا" یہ جملہ پڑھ کر مجھے اپنا بھتیجا یاد آگیا
ٹیچر بچوں سے باری باری پوچھتی کہ بیٹا تم بڑے ہو کر کیا بنوگے
تو کوئی کہتا ڈاکٹر کوئی انجینئر مگر میرے بھتیجے نے کمال کا جواب دیا
کہنے لگا میں "کباڑی " بنوں گا
اور اس کی وجہ یہ تھی ایک ایک کباڑی اکثر گھر کےسامنے نالے پر بیٹھ کر "سکے "گنتا تھا
اور وہ بچہ تھا اسے یہ بہت بڑی رقم لگ رہی تھی
بچے بادشاہ ہوتے ہیں
 
Top