مجرم کون؟

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مجرم کون؟
ناصرالدین مظاہری

اسلام میں تقویٰ اور فتویٰ لازم ملزوم ہیں ،فتویٰ اگرمحل ہے توتقویٰ اس کی چہاردیواری ہے،معروفات کی رغبت وتعمیل کانام اگرسرچشمۂ امانت ہے تو اس کی خلاف ورزی کانام سرچشمۂ فتنہ ہے،منکرات سے بچاؤکانام اگرحیاء ہے تو اس کے ارتکاب اورسیہ کاری کے سرچشمہ کوفحش کانام دیاجائے گا گویا امانت، فتنہ، حیاء اور فحش یہ چارقوتیں ہیں جن سے معروف،منکر،براورتقویٰ کاتعلق ہے اولین کا تعلق افعال بروخیرکے کرنے اورچھوڑنے سے ہے اور اخیرین کاتعلق متروکات تقویٰ کے ترک اورارتکاب سے ہے ،فتویٰ پر عمل کیلئے تقویٰ کی حیثیت باڑھ اور سرحدکے قائم مقام ہے۔
اسلام کے شیوع اور نشروشاعت میں تقویٰ کا جوکرداررہاہے اور دیگرادیان ومذاہب میں متقی وپرہیزگاروں کوجو عزت وعظمت حاصل ہوئی ہے وہ فتویٰ پرعمل پیراجماعت سے زیادہ ہے۔
معاشرہ میں ایک بیماری یہ پیداہوتی جارہی ہے کہ دکانوں کے سامنے سڑکوں کا اچھاخاصا حصہ اپنے تصرف میں لایاجاتاہے،دوکان کا سامان سڑکوں تک پھیلادیاجاتاہے جو سراسرسڑکوں کاناجائزاستعمال ہے اگرحکومت اس سلسلہ میں کوئی کارروائی نہیں کرتی ہے تب بھی سڑکوں کی تنگی کے سبب دوسروں کو ایذاء پہنچتی ہے جواسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔
شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسین ؒنے تدریسی زندگی کااکثرحصہ مدرسہ قدیم کی مسجداولیاء کے ایک گوشہ میں چٹائی پربیٹھ کرگزاراہے ،ان کا معمول تھا کہ جب تک سبق ہوتاپنکھاچلتارہتااور سبق ختم ہوتے ہی پنکھابندکرادیتے،پوچھنے پر فرماتے کہ یہ پنکھامال وقف ہے اور مال وقف سے ذاتی فائدہ اٹھاناغلط ہے(واضح رہے کہ یہ مسجدمدرسہ ہی کے زیرانتظام ہے )
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت والاؒنے راقم کو ایک کتاب مستعارپڑھنے کے لئے مرحمت فرمائی احقرنے حسب وعدہ کتاب پڑھ کر واپس کردی اور واپسی کے وقت یہ بھی عرض کردیاکہ حضرت! یہ کتاب بہت ہی عمدہ محسوس ہوئی میں نے اس کی فوٹوکاپی کرالی ہے،فرمایا:تم نے غلط کیابلااجازت کتاب کی نقل کرنااورفوٹوکاپی کرانابھی صحیح نہیں ہے،پھر فرمایاکہ آج کل مصنفین وناشرین کی کتابیں ان کی اجازت کے بغیرشائع کرنے کا چلن عام ہوچکاہے جو غلط ہے ۔
یہ واقعات تحریرکرنے سے ہمارامقصدصرف اتناہے کہ مسلمان بحیثیت مسلمان خودکوپہچانے اس کی وہ خوبیاں جن کو غیروں نے اختیارکر کے حیرت انگیزترقی کی ہے وہ خوبیاں اپنے اندرپیداکرنے کی کوشش کریں ،اسلام کی وہ شبیہ جوہمارے کرداروعمل سے داغدارہورہی ہے اس میں شفافیت لائی جائے اوراللہ تعالیٰ کے ارشادگرامی’’ یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْاآمِنُوْا‘‘کے قالب میں خودکو ڈھال لیں اور’’حَاسِبُواقَبْلَ أَنْ تُحَاسِبُوْا‘‘ کی عملی تصویربنالیں پھر وعدۂ الٰہی وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجًاوَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ کابچشم خودمشاہدہ کریں ۔
آج عام طورپرحرام ومشتبہ مال سے احتیاط میں ہم سے مجرمانہ غفلت سرزدہورہی ہے وہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے،سوچنے کی بات ہے کہ مشکوک مال سے پرہیزکرنے میں ہمارا کیا کردارہے؟بیع وشراء، تجارت وزراعت،صنعت وحرفت اورملازمت ہرمیدان میں ہم نے تقویٰ کوکس طرح پس پشت ڈال رکھاہے اس کا محاسبہ اور احتساب ہم نہیں کررہے ہیں ،آموں کے باغات سے لے کرگنے کے کھیت تک ساری فصل آج کے دورمیں قبل ازوقت بیچ دی جاتی ہے حالانکہ بیع معدوم جائزہی نہیں ہے۔
حضرت عمرفاروق ؓکاارشادگرامی ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ کے تم سے حساب لینے سے پہلے پہلے تم اپنامحاسبہ کرلواس سے اللہ پاک کا حساب آسان ہوجائے گااوراعما ل نامے کے تولے جانے سے پہلے پہلے تم اپناموازنہ کرلو‘‘(حیاۃ الصحابۃ)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تقویٰ وطہارت سے کون ناواقف ہوگا،آپؓنے ٹیکس وصول کرنے والے کے کنویں سے پانی اور اس کے مکان کے سایہ میں بیٹھنے سے بھی منع فرمایاہے‘‘ (ابن عساکر)
ناپ تول میں کمی کوآج تجارت کی معراج سمجھ لیاگیاہے،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی اورامانت داری کے ساتھ کاروبارکرنے والوں کو انبیاء،صدیقین اور شہداء کی صف میں کھڑے ہونے کی بشارت دی ہے ۔التاجرالصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء۔
ملازمین حضرات مفوضہ امورمیں کوتاہی اور کاہلی کومعمول بنابیٹھے،وقت پر نہ آنااور وقت سے پہلے چلے جاناعام بات ہوگئی،وقت کے دوران بھی فضولیات میں مشغول رہنے کو عادت بنالیاگیا اورمنتظم کے عفو ودرگزر سے ناجائزفائدہ اٹھایاجانے لگا۔
حضرت مولانامفتی محمدشفیع دیوبندیؒ نے ’’معارف القرآن‘‘میں سورۂ تطفیف کی تفسیراورتشریح کرتے ہوئے تحریرفرمایاہے کہ
’’اسی طرح حقوق العبادمیں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتاہے وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے،مزدور ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیاہے اس میں سے وقت چرانااور کم کرنابھی اس میں داخل ہے ، وقت کے اندرجس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے اس میں سستی کرنابھی تطفیف ہے، اس میں عام لوگوں میں یہاں تک کہ اہل علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے ، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو ئی گناہ ہی نہیں سمجھتا‘‘۔اعاذنااللّٰہ منہ (معارف القرآ ن ۸/۶۹۴، ادارۃ المعارف کراچی)

حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ کے مبارک دورمیں ان کی خانقاہ کے مدرسہ میں ہر استاذ اور ملازم کے پاس ایک روزنامچہ رکھارہتاتھامثلاً ایک استاذہے اور اس کوچھ گھنٹے سبق پڑھاناہے، سبق کے دوران کوئی مہمان ملنے کے لئے آگیاتو جس وقت مہمان آتااستاذاپنے روزنامچے میں مہمان کے آنے کا وقت لکھ لیتااور جب جاتاتوجانے کا وقت بھی لکھ لیتا،پورے مہینہ یہ سلسلہ چلتا اور اخیر مہینہ میں جب تنخواہ ملتی تواستاذ دفترمیں ایک درخواست دیتاکہ اس مہینہ میں میرے پاس اتنے مہمان آئے اور ملاقات میں اتناوقت لگااس لئے اتنی دیرکی تنخواہ وضع کرلی جائے ۔
شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ نے ایک دفعہ جمعیۃ علماء ہندکی مسجدمیں نئی چٹائیاں بچھی ہوئی دیکھ کرناظم اعلیٰ حضرت مولاناحفظ الرحمن سیوہارویؒ کے حسن انتظام کی تعریف فرمائی ،کسی نے عرض کیاکہ یہ انتظام ناظم اعلیٰ کانہیں ہے بلکہ آپ کے خادم چودھری عبدالرحمن کی عقیدت ہے جوکہ چٹائیاں فروخت کرتے ہیں ،انہوں نے اس وقت فروخت کی چٹائیاں بچھادی ہیں ۔حضرت مدنیؒ نے یہ سنتے ہی چٹائیاں اٹھوادیں اورفرمایاکہ عبدالرحمن اِن چٹائیوں کو غیرمستعمل اور نئی بتاکر فروخت کریگا، حالانکہ استعمال میں آچکی ہوں گی،لہٰذایہ کب درست ہوگا؟۔(الجمعیۃ:شیخ الاسلام نمبرص ۳۰۵)
حضرت مدنیؒ نے دارالعلوم دیوبندکی تدریسی خدمات کے دوران کبھی استحقاقی رخصتوں کی تنخواہ نہیں لی ، اسی طرح ہمارے استاذ محترم حضرت مولانااطہرحسینؒ نے بھی کبھی استحقاقی رخصتوں کا مشاہرہ نہیں لیا،فقیہ الاسلام حصرت مولانامفتی مظفرحسینؒ اورحضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ کایہ ایک مستقل معمول تھاکہ تنخواہ ملنے پر’’کوتاہی ملازمت‘‘کے نام سے کچھ رقم مدرسہ کوواپس کردیا کرتے تھے،الغرض!ان حضرات کے حزم واحتیاط ، تقویٰ وتدین اور زہدوورع کو دیکھ اورپڑھ کر صرف یہی کہاجاسکتاہے کہ
تمام عمر اِسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
ہمارے اکابرنے تقویٰ وتدین کے سلسلہ میں اپنے کرداروعمل کی خوشبوسے اپنے زمانہ کو معطر ومعنبر کردیاتھا، مشکوک کھجورکھالینے پرنیندکانہ آنا،مشتبہ لقمہ کھاکرزبردستی قے کردینا،مدرسہ کے اوقات میں ذاتی کام سے احتیاط،مال وقف سے پرہیز،کوتاہی ملازمت کی تلافی،اوقات مدرسہ میں مدرسہ کی دری اور چٹائی پر بیٹھ کرمہمانوں سے بھی ملاقات نہ کرنا،ذاتی کام میں مدرسہ کے قلم اورکاغذ، بجلی وروشنائی کے استعمال سے بچتے رہنا،یہ جاننے کے بعدکہ آموں کی خریدوفروخت شریعت کے تقاضہ اور منشاء کے خلاف ہورہی ہے آموں کا کھاناہی بندکردینا،بکری کا بچہ چوری ہوجانے کی اطلاع پاکر گوشت کھاناچھوڑدیا،قرض دارکی دیوارکے سایہ سے بھی محتاط رہنا،خرایدارکے سامنے اس بات کی بھی وضاحت ضروری سمجھناکہ یہ سوت سورج کی روشنی میں کاتاگیاہے اور یہ سوت چاندکی روشنی میں غرض اس قسم کے ہزاروں واقعات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔
جب تک سیرت وسنت اورشریعت وطریقت کودل وجان سے نہ لگالیں کامیابی ہمارے قدم نہیں چوم سکتی،فلاح وکامرانی ہمارے لئے چشم براہ نہیں ہوسکتی اور دنیوی واخروی نقصان وخسران سے ہم نہیں بچ سکتے، ہمیں اپنایہ معمول اور عادت بنالینی ہوگی کہ ہم ایسے رزق اور غذاسے بچیں جس غذاسے ہماری پرواز میں کوتاہی، ہمارے افکارمیں گندگی اورہمارے شعورووجدان میں پراگندگی پیداہو۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
 
Top