کیامسجدیں قیدخانہ ہیں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

کیامسجدیں قیدخانہ ہیں؟

ناصرالدین مظاہری

میں پنج وقتہ نمازیوں کی بات نہیں کررہا،بات کررہاہوں اُن مہمانوں کی جوہفتہ میں ایک مرتبہ صرف جمعہ کے دن صرف دورکعت نمازپڑھنے کے لئے مسجدمیں تشریف لاتے ہیں اور پنج وقتہ نمازیوں کوجمعہ کے دن ہی حقیقت میں مسلمانوں کی تعداد کاصحیح اندازہ ہوپاتاہے۔یہ قوم جمعہ کے دن جب مسجدمیں داخل ہوتی ہے توعام طورپر مسجد کے اندرپہلے سے موجود نمازیوں سے پوچھتی ہے کہ ’’ٹوپیاں کدھررکھی ہوئی ہیں‘‘؟
یہ قوم اگرچہ مسلمان ہے خود کوخالص مسلمان سمجھتی بھی ہے بس صرف نمازیں نہیں پڑھتی، روزے میں غفلت کرتی ہے، حج نہ کرنے کاتومعقول بہانہ ہے،زکوۃ کاتو تصور بھی نہیں ہے کیونکہ زکوۃ تو صرف وہی خیرخواہ دیتے ہیں جوعام طور پرپنج وقتہ نمازی ہوتے ہیں یا جن کوخوف خداہوتاہے ۔

جمعہ کی نمازسے پہلے کی سنتیں رسول اللہ اور صحابہ سے قولاً و فعلاً ثابت ہے اور یہی جمہور کا مسلک ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام جمعہ سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے(ابن ماجہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی قبل الجمعة أربعاً وبعدہا أربعاً
(معجم اوسط)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعت اور جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام سے پڑھتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے(طحاوی شریف) ۔

حضرت عمرو بن سعید بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے کنت أری أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فإذا ازالت الشمس یوم الجمعة قاموا فصلوا أربعاً۔

امام ترمذی نے توباقاعدہ باب باندھاہے ’’باب ما جاء فی الصلاة قبل الجمعة وبعدہا‘‘اورثابت فرمایا ہےکہ نمازجمعہ سے پہلے چار رکعت اورجمعہ کی نمازکے بعدچاررکعت سنت مؤکدہ ہیں اسی طرح اخیرکی دورکعت بھی سنت ہیں۔

ہرجمعہ کو اپنے ہم مذہبوں،ہم قوموں اورہم کلموں کو دیکھتے ہیں کہ وہ نمازکے لئے بالکل وقت پرمسجدوں میں پہنچتے ہیں، اگرچہ اذان نصف گھنٹہ پہلے ہوچکی ہے لیکن مسلمانوں کی بڑی تعداداپنے گھروں میں، دکانوں اورچائے خانوں میں بیٹھی گھڑیاں دیکھتی رہتی ہے، انھیں گوارہ ہی نہیں ہے کہ وہ خطیب کی چند دینی باتیں ہی سن لیں کہ ممکن ہے ان پرعمل کی توفیق مل جائے ۔

خداجانے مساجدمیں طبیعت نہیں لگتی یانماز میں ہی سب کو ایک ساتھ سنت مؤکدہ سے بھی زیادہ ضروری کوئی کام یادآجاتا ہے کہ اِدھرامام صاحب نے سلام پھیرا اُدھر بھگدڑ شروع، مسجدسے نکلنے کااندازبھی ایسا ہوتاہے جیسے پیچھے سے پولیس ڈنڈے سے مار رہی ہواور انسانی ہجوم اُن ڈنڈوں سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کوروندکرنکلنے کے لئےبے تاب وبے قرارہو۔

میرے گاؤں مرزاپورکی مسجد کی پیشانی پر ایک عبارت لکھی ہوئی ہے اور کیا خوب لکھی ہوئی ہے:

المؤمن في المسجد كالسمك في الماء والمنافق في المسجد كالطير في القفص۔
(مومن مسجد میں ایسے ہوتا ہے جیسے مچھلی پانی میں اور منافق ایسے ہوتا ہے جیسے پرندہ پنجرے میں)۔
شیخ اسماعیل بن محمد عجلونی ؒکا ارشادہے کہ یہ حضرت امام مالک بن دینارؒ کے کلام سے ملتا جلتا ہے۔

بہرحال مجھے اس سے کوئی بحث نہیں ہے کہ یہ کلام کس کا ہے بس عرض صرف اتنا کرناہے کہ کلام ہے زبردست، ایک ایک جملہ مبنی برحقیقت ہے،ہم جب تک مسجدمیں رہتے ہیں باہرنکلنے کی سوچتے رہتے ہیں،نماز کے وقت آپ اچھے خاصے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ جماعت کاوقت ہوتے ہی گھڑیاں دیکھنا شروع کردیتے ہیں اوراگرایک آدھ منٹ امام سے دیر سویر ہوجائے توآفت آجاتی ہے۔حالانکہ خطیب اورمقررروزآنہ بتاتاہے کہ مسجد میں جووقت گزرتاہے وہ اعتکاف کی طرح باعث ثواب ہے اور ہرنمازی جب مسجدمیں داخل ہوتواس کواعتکاف کی نیت بھی کرلینی چاہئے تاکہ تمام کا تمام وقت عبادت میں لکھا جائے اور نماز کے بعدیہی گھڑی دیکھنے والے لوگ مسجدکے باہرگھنٹوں لایعنی بحثوں اوربکواس میں قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کی توعادت ہوگئی ہے کہ وہ سنتوں کے ساتھ فرائض بھی اپنے گھرمیں ہی اداکرتے ہیں انھیں کون سمجھائے کہ بھائی !صلاة الرجل في بیتہ بصلاة وصلاتہ في مسجد القبائل بخمس وعشرین صلاة۔یہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے اوریہ حدیث مشکوۃ شریف کے اندرموجودہے اور اگرآپ کی دیکھادیکھی سب ہی لوگ اسی طرح اپنے اپنے گھروں میں فرائض اداکرنے لگے تومساجد جواسلامی شعائر ہیں،اسلامی قلعے ہیں ان کاکیا ہوگا؟اورثواب پانے کے لئے توہرمسلمان کوزیادہ زیادہ مساجد میں پہنچناچاہئے تو پھرآپ ہمیشہ پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں۔ کیا اپنے اپنے گھروں میں بلاعذر شرعی کے نمازباجماعت پڑھ لینے سے مساجدکی حق تلفی نہیں ہوتی؟کیاآپ کے اس عمل سے عوام اچھاتأثرلیں گے؟ کیارسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم بغیرعذرکے کبھی مسجد میں آنے سے رکے ہیں؟۔کیا صحابہ کے طرز اورعمل سے اس کی کہیں اجازت اورچھوٹ ملتی ہے؟کیاحضرت عمررضی اللہ عنہ ان لوگوں کے یہاں نمازکے بعدنہیں پہنچ گئے جن کومسجد میں جماعت میں نہیں پایااور پھران سے کیا فرمایا؟یہ سب آپ بھول چکے ہیں یابھلاچکے ہیں۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
’’اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘(مسلم)

نسائی شریف میں ایک حدیث شریف ہے جس میں ایسے سات لوگوں کاذکرفرمایاگیاجن کو اللہ تعالیٰ قیامت میں سایہ عطا فرمائے گاان میں چوتھے نمبر پر ارشادہے:وہ آدمی جس کادل مسجدمیں اٹکارہتاہے۔وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ۔

اللہ تعالیٰ کوجوانوں کی عبادت پسندہے ،بوڑھاانسان توگھرکے ہلہ گلہ ،شورشرابہ،چیخ وپکار اور بچوں کے کھیل کودسے پریشان ہوکرمسجدوں کارخ کرہی لیتا ہے،مسجدوں میں رہتے ہوئے وہ ذکرواذکارنہیں کرے گاتو کیا کرے گا،تلاوت اورعبادات میں مشغول نہیں رہے گاتو کس چیزمیں مشغول ہوگا،سچ بات تویہ ہے کہ ’’وقت پیری گرگ ِظالم می شودپرہیزگار‘‘بوڑھوں کو بڑھاپے میں مساجدمیں آنا اور یہاں دیردیرتک رکے رہنا گھریلو جھنجھٹوں سے چھٹکارابھی ہوتا ہے۔جب کہ نوجوان کی ابھی کھیل کود کی عمرہے،اس کے ساتھی اوردوست احباب اسے کھیل کود کی دعوت دیتے ہیں،اس کے پاس سائیکل سے لے کربڑی گاڑیوں تک مٹرگشتی کاسامان ہے،اس کی جیب میں بڑاساموبائل ہے جس میں ہرقسم کے لہوولعب ہیں، شراب وشباب کی رنگینیاں اسے دعوت گناہ دے رہی ہیں پھربھی ایسا نوجوان اگر برائیوں سے کنارہ کشی اختیارکرتاہے، مسجدوں کارخ کرتاہے توایسے نوجوان کی عبادت اللہ تعالیٰ کوبہت پسندہے ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کے نزدیک سبے زیادہ پسندیدہ مقامات، مساجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ مقامات، بازار ہیں۔"
أحَبُّ البلاد إلى الله مَساجِدُها، وأبغض البلاد إلى الله أسْوَاقُها۔

مسجدمیں آنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں،مسجدکی حاضری رحمت الٰہی کاذریعہ ہے،جن لوگوں کامساجد کی طرف بکثرت آنا جاناہو ان کے ایمان کی گواہی دینے کاہمیں حکم ہے، مساجدسے محبت صحیح اورسچا مسلمان کرتاہے ،وہی باربار مساجدمیں آناجانارکھتاہے۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور پھر اپنی جگہ بیٹھا رہے؛ یہاں تک کہ اشراق کا وقت ہو جائے اور پھر اٹھ کر (کم از کم) دو رکعات اشراق کی نماز پڑھ لے تو اس کو ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل)

جن کومسجدسے محبت نہیں ہے یاجن کواللہ تعالیٰ نے توفیق ہی نہیں دی ہے وہ پوری پوری زندگی تحیۃ المسجدکے نام سے دو رکعات نمازنہیں پڑھ پاتے اور جن کواللہ پاک نے توفیق سے نوازدیاہے وہ فرض نمازوں کے علاوہ دیگرمسنون نمازیں بھی پابندی سے پڑھتے ہیں۔

تحیۃ الوضو اورتحیۃ المسجد سنت ہیں ہم سب کو یہ نمازیں بھی پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے، بہت غفلت اس سلسلہ میں ہم سے ہوتی ہے۔

تحیۃ المسجد پڑھنے سے دل میں مسجد کا احترام پیدا ہوتاہے ،یہ بمنزل سلام کے ہے کہ آدمی جب کسی کے گھر جاتا ہے تو گھر والے کوملتے وقت سلام کہتاہے۔

امام نووی ؒفرماتے ہیں :کہ بعض نے تحیۃ المسجد کو مسجد کے رب کو سلام قرار دیا ہے ،کیونکہ اس کامقصدحصول قرب الہی ہے نہ کہ حصول قرب مسجد، جیسا کہ بادشاہ کے گھر میں داخل ہونے والا بادشاہ کو سلام عرض کرتا ہے نہ کہ اس کے گھر کو۔
(حاشیہ ابن قاسم)

بہرحال مساجدسے محبت پیدا کیجئے ،اپنے فارغ اوقات کوبھی ادھرادھرکی بجائے مساجدمیں گزارئیے کیونکہ مساجدمیں آپ جب تک رہیں گے رکیں گے ہرقسم کے گناہوں سے بچیں گے اوران شاء اللہ عبادات کی توفیق بھی ملے گی۔
 
Top