امام اورامامت کی ناقدری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!
امام اورامامت کی ناقدری
ناصرالدین مظاہری

پرانے زمانے کی بات ہے ،سہارنپورمظاہرعلوم چوک پرایک غیرمسلم نے پھل فروٹ کی چلتی پھرتی دکان لگارکھی تھی،جمعہ کی اذان ہوچکی تھی،ایک صاحب اس دکان پرپہنچے اورسیب لینے چاہے،غیرمسلم نے کہاکہ جناب میراتوکوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن میں نے حضرت مولانامحمداسعداللہ صاحب سے سناہے کہ جمعہ کی اذان کے بعدہرقسم کی خریدوفروخت بندکردینی چاہئے۔میں توغیرمسلم ہوں ، غیرمکلف ہوں لیکن آپ مسلمان ہیں پہلے کسی عالم سے مسئلہ معلوم کرلیں تاکہ گناہ سے بچ سکیں۔

حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒکے پاس بے شمارغیرمسلم آتے تھے ،ان میں سے بعض لوگ توایسے بھی تھےجو اپنے نام کے ساتھ اسعدی بھی لکھتے تھے،ایساہی ایک واقعہ سونے کی خریدوفروخت کے تعلق سے ایک سنار(زرگر)کابھی ہے ۔

مقصداس واقعہ سے یہ بتاناہے کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں لیکن ہمیں خوداپنے اسباق یادنہیں ہیں ،ہم کووہ لوگ بھولاہواسبق یادکرارہے ہیں جواحکام شرع کے مکلف نہیں ہیں۔بات زیادہ پرانی نہیں ہوئی آپ نے بھی دیکھاہوگااورہم نے بھی بارہادیکھاہے کہ مساجدکے سامنے سے گزرتے ہوئے غیرمسلم اپنی رفتاردھیمی کرلیتے تھے ،گاڑیوں کاہارن نہیں بجاتے تھے،بارات گزرتے ہوئے ڈھول باجے بجاناموقوف کردیتے تھے ،مساجدمیں چندہ دیتے تھے ،ان کی عورتیں اپنے بچوں کولے کرمسجدکے باہرکھڑی ہوجاتی تھیں اورنمازی حضرات ان بچوں پردم کرتے تھے اوربچے شفایاب بھی ہوجاتے تھے۔پھرایک مخالف ہواچلی،پہلے خودمسلمانوں نے مساجدمیں آناجاناکم کردیا،دن کی نمازیں پڑھ لیں رات کی گول کردیں،پھرجمعہ جمعہ مسجدمیں اپنے مسلمان ہونے کی حاضری درج کرانے کے لئے پہنچنے لگے ،ہماری اِن حرکات اورعادات کاغیروں نے بھی نوٹس لیناشروع کردیا،اب ہرنمازی سے نہیں چندمخصوص دیندارلوگوں سے ہی بچوں پردم کراناشروع کردیاتاآنکہ آج یہ سلسلہ بھی نہایت درجہ کم ہوچکاہے۔

سنوسنو!زیادہ پرانی بات نہیں ہے،حضرت مولانامحمداسعداللہ صاحبؒ کے ایک خلیفہ گزرے ہیں نام تھاحضرت مولاناجمیل الرحمن امروہویؒ،یہ حضرت مولاناعبدالحلیم جونپوریؒ اورحضرت مولانااحتشام الحسن کاندھلویؒ کے درسی ساتھی تھے۔ بڑے اللہ والے،ان کے پرنورچہرے کودیکھ کرہی خدایادآجاتاتھا،ان کے گھرکے متصل ایک غیرمسلم کامکان تھا،غیرمسلم کے بچے بارباراپنے والدسے ٹی وی لانے کاتقاضاکرتے تھے ،لیکن ان کاوالدہربارسختی سے منع کردیتاتھااورکہتاتھاکہ ہمارے مولوی صاحب اللہ والے ہیں ،ان کے گھرمیں ٹی وی کی آوازپہنچے گی اوریہ مجھے بالکل منظورنہیں ہے ۔بچے بھی خاموش ہوگئے ۔پھر۲؍رمضان المبارک ۱۳۹۹ھ کوحضرت مولاناجمیل الرحمن امروہویؒ کاانتقال ہوگیا،انتقال کوکچھ ہی کچھ ہی عرصہ گزراتھاکہ غیرمسلم اپنے گھرمیں ٹی وی لے آیا،کسی نے پوچھاتوجواب دیاکہ مولوی صاحب کے جاتے ہی جب ان کے گھرمیں ٹی وی آگیاہے توہم کیوں نہ لائیں۔

مساجدکوہم نے ہی ویران کرناشروع کردیاہے نتیجہ یہ ہواکہ ہم خودویران ہوگئے ،پہلے ہرمسجدمیں امام صاحب کولوگ مسئلے مسائل کے لئے گھیرے رہتے تھے ،گھیرے اب بھی رہتے ہیں لیکن امام کوگھیرنے کے لئے ،امام کیاکررہاہے،کس سے مل رہاہے،کیاپڑھ رہاہے،فون پربات کس سے بات کررہاہے،نمازکے علاوہ مسجدمیں ٹھہرتاہے توکیوں ٹھہرتاہے،نہیں ٹھہرتاہے توکیوں نہیں ٹھہرتاہے،لوگ ملنے آتے ہیں توکیوں ملنے آتے ہیں،کسی عقیدت مندنے ہدیہ دیدیاتوکیوں دیا،کبھی کسی مقتدی نے امام سے اس کے گھرکی ضروریات نہیں پوچھیں،کبھی کسی دیندارنے امام صاحب سے اس کی طبیعت نہیں پوچھی،امام بیمارہوگیا،نمازنہیں پڑھاسکاتواعتراض ،کسی اورکونمازکے لئے کھڑاکردیاتواعتراض،نمازمیں سورت تھوڑی طویل پڑھ دی تواعتراض،نمازکے سجدے اوررکوع میں تین سے زائدبار تسبیح پڑھ دی تواعتراض ،امام کے بدن پراچھے کپڑے دیکھے توآنکھیں چڑھ گئیں ،خودکی عورتیں پورے پورے دن بازارمیں دندناتی پھریں توجائزلیکن امام صاحب کی گھروالی اگربازارسے گزربھی جائے توشامت،بھول چوک توسب کے ساتھ لگی ہوئی ہے لیکن امام اگرکچھ بھول جائے اورسجدۂ سہوکرلے توامام کی خیرنہیں ،بچہ بچہ کی زبان پرامام عالی مقام کاذکر،کہ امام صاحب کادھیان کہیں اوررہتاہے ، ظالموں نے اتنی باتیں گھرسے بازارتک امام کے خلاف بطورغیبت کہہ لیں،کرلیں لیکن کسی ایک نے بھی امام سے کچھ نہیں پوچھاکہ امام صاحب خیریت توہے ،خدانخواستہ کوئی پریشانی تونہیں،بے تکلف بتادیں ،ہم لوگ آپ کے ہیں،آپ کے سکھ دکھ کے ساتھی ہیں ،ہم آپ کے مقتدی ہیں آپ ہمارے مقتداہیں، آپ کسی پریشانی میں مبتلاہوں گے توگویاہم سب کی مشترکہ پریشانی ہے۔ایسے رجل رشید،ایسے نیک طینت افراد،ایسے پاک وپاکیزہ نمازی،ایسے ہونہاراورہمدردافرادبھلاکس مسجدکومیسرہیں۔کوئی ہمیں بھی خبردد،ہم بھی توایسے فرشتہ صفت مقتدیوں کودیکھیں اوران کے نورانی چہروں کودیکھ کراپنے ایمان کوتازہ کریں۔

آج ہی ایک عالم دین نے مجھ سے بتایاکہ اس کے محلہ کی مسجدمیں ہرچھ ماہ میں امام بدل دیاجاتاہے،کل ایک عالم نے بتایاکہ فلاں شہرکے امام (جن سے میرادینی وقلبی تعلق بھی ہے)کومسجدکے متولی نے الٹی میٹم دے دیاہے ،میں نے وجہ پوچھی توپتہ چلاکہ وہی حسدکی پرانی لت ،کسی نے امام صاحب پرترس کھاکرمہینہ بھرکاغلہ اوراناج ہدیہ کردیانتیجہ میں متولی صاحب کی آنکھیں چڑھ گئیں،بھویں تن گئیں،لہجہ بدل گیااورامام کی مقبولیت ایک آنکھ متولی کونہیں بھائی۔

بھائی !ہم خواہ مخواہ اسلام کے دشمنوں کوحرف تنقیداورحرف ملامت سے نوازرہے ہیں ،ان کے بھائی بندے خودہمارے درمیان دندناتے پھررہے ہیں،آپ امام کواس قدرتنگ کریں گے نتیجہ یہ ہوگاکہ لوگ امامت کرانے سے کنارہ کشی اختیارکرناشروع کردیں گے پھروہ لوگ اپنی اولادکوبھی دینی تعلیم سے دوررکھیں گے ،دنیااوردنیوی تعلیم دلائیں گے ،عصری تعلیم پانے والے مساجدکارخ نہیں کریں گے ’اس طرح نمازی کم ہونے اورکم پڑنے شروع ہوجائیں گے اورنوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ مساجدکونمازی نہیں ملیں گے ،نمازی مل گئے توامام میسرنہیں ہوں گے،امام بھی مل گیاتواس کی اندرونی حالت،دینی اورذہنی تربیت کااللہ ہی حافظ ہے ،سوچیں اورٹھنڈے دل سے سوچیں مسلمان کم ہورہے ہیں یااسلام کمزورپڑرہاہے،عربی گھوڑا کتناہی کمزورہوگدہوں کے طویلے اورریوڑسے بہترہوتاہے،ایک دیندار،اللہ کاخوف کرنے والا،اللہ اوراس کے رسول کی تعلیمات سے واقف،اچھا قرآن پڑھنے والا،دینی اورشرعی علوم سے آگاہ شخص جاہل مسلمانوںکی ایک جماعت سے افضل ہے ۔ دین کوزندہ رکھنے کے لئے قرآن اورحدیث کی تعلیم بھی ضروری ہے ،محض مسلمان گھرانے میں پیداہوجاناکمال نہیں ہے اسلام کواپنی ذات سے فائدہ پہنچاناتوفیق ایزدی ہے۔اگرآپ سے دین بڑھ نہیں رہاہے توکم ازکم اپنی ذات سے دین کوگھٹانے اوراسلام کومٹانے کی ناپاک کوشش تونہ کریں۔
 
Top