’’ مَیں صدر ٹاؤن تھانے سے سب انسپکٹر غلام مصطفیٰ بات کر رہا ہوں۔ ہم نے ابھی سرچ آپریشن کے دَوران ایک گاڑی روکی، تو اُس میں چند نوجوان سوار تھے، جن کے پاس سے اسلحہ اور منشیّات برآمد ہوئی ہے۔ اُن نوجوانوں میں سے ایک خود کو آپ کا بھانجا کہہ رہا ہے۔‘‘یہ فون کال سُن کر ہمارے تو ہاتھ پاؤں پُھول گئے، دماغ ماؤف ہو گیا۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دیں۔دوسری طرف سے پھر آواز آئی،’’ بچّہ دیکھنے میں شریف لگ رہا ہے اور تفتیش میں بھی یہی پتا چلا ہے کہ اس کا اسلحے یا منشیّات سے تعلق نہیں ہے، مگر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تھا، اِس لیے مقدمہ تو بنتا ہے۔اُس نے آپ کا نمبر دیا ہے کہ ماموں سے بات کرلیں۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے یک دَم سوال داغا،’’ آپ کے بھانجے کا نام کیا ہے؟‘‘ ہم نے بتادیا، پھر اُس کے والد اور والدہ کا نام پوچھا،وہ بھی بتادیے، اِس پر وہ بولا،’’ ہاں اب تو تصدیق ہوگئی کہ یہ واقعی آپ کا بھانجا ہے۔‘‘ ہماری درخواست پر ہمیں چند سیکنڈ کے لیے ایک آواز سُنوائی گئی، جس میں کوئی مریل،بہت ہی مہین سی آواز میں کہہ رہا تھا،’’ ماموں مجھے بچالیں، آکر سب بتا دوں گا۔‘‘’’ دیکھیں جی،وقت زیادہ نہیں ہے۔ پندرہ منٹ میں ہم نے یہ معاملہ نمٹانا ہے، کیوں کہ پھر قانونی کارروائی شروع کرنی پڑے گی۔
جلد بتائیں، کیا کرنا ہے۔‘‘اِس پر ہم نے مزید گھبراتے ہوئے پوچھا،’’ آپ ہی بتائیں کہ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ اُنھوں نے کہا،’’ اگر آپ80 ہزار روپے دے دیں، تو معاملہ یہیں ختم ہوجائے گا، ورنہ بچّے کو دس، پندرہ سال کی جیل تو یقینی ہے۔‘‘ ہم نے کہا،’’مگر ہمارے پاس تو اِس وقت اِتنے پیسے نہیں ہیں۔‘‘’’ کتنے ہیں؟‘‘ ہم نے جیب کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا،’’ دس ہزار ہیں۔‘‘ ’’ تو ٹھیک ہے، مَیں نمبر بھیج رہا ہوں، اُس پر آن لائن بھجوا دیں۔ اور ہاں ، مَیں ہولڈ پر ہوں،جب آپ دُکان پر پہنچیں گے، تو مَیں نمبر بتا دوں گا۔فی الحال موبائل جیب میں ڈال لیں اورکسی سے اِس بات کا ذکر مت کرنا، ورنہ معاملہ خراب ہوجائے گا۔‘‘
اِسی اثنا ہمارے ذہن میں ایک خیال کوندا کہ کیوں نہ بھانجے کو ایک کال کرکے دیکھ لیا جائے تاکہ کیس کی نوعیت کا علم ہوسکے۔ جیب سے فون نکالا، تو وہ صاحب ابھی کال پر موجود تھے۔ ہم نے ہمّت کرکے اُن کی کال منقطع کی اور بھانجے کا نمبر ملایا، تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھر پر خیر و عافیت کے ساتھ موجود ہے اور اُس نے دیگر گھر والوں سے بات کروا کر بھی اپنی وہاں موجودگی کی تصدیق کی۔ اِسی دوران اُن صاحب کا فون آگیا،تو ہم اُنھیں جو سُنا سکتے تھے، سُنا ڈالا۔
محمد اسحاق خالد ۔۔۔ سے ایک سرکاری ملازم ہیں۔ ایسی ہی فون کال پر 14 لاکھ گنوا چکے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا’’مجھے ایک فون کال موصول ہوئی،جس میں دوسری طرف موجود شخص نے کہا’’ ہم کے سیکیوریٹی نقطۂ نظر سے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اَپ ڈیٹ کر رہے ہیں تاکہ کوئی آپ کے ساتھ کسی قسم کا فراڈ نہ کرسکے۔ آپ نے فلاں تاریخ کو اے ٹی ایم کے ذریعے 10 ہزار روپے نکلوائے تھے اور فلاں تاریخ کو آپ کے اکاؤنٹ میں اِتنے پیسے آئے تھے اور چھوٹی موٹی ٹرانزیکشنز جو کی تھیں سب کی تفصیل بتا ڈالی۔‘‘ یہ باتیں سُن کر اُن پر شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی، لہٰذا مَیں نے کہا’’ فرمائیے، آپ کو کس قسم کی معلومات درکار ہیں۔‘‘ اِس پر اُس شخص نے کہا،’’ ابھی آپ کو ایک کوڈ موصول ہوگا، وہ مجھے بتا دیجیے گا تاکہ اکاؤنٹ اَپ ڈیٹ ہوسکے۔‘‘
تھوڑی دیر میں موبائل پر ایک کوڈ موصول ہوا، جو اُسے بتادیا۔ وہ شخص مجھ سے کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا، پھر کال کاٹ دی۔ اسی کے ساتھ ہی ٹرانزیکشن کے ایس ایم ایس موصول ہوئے اور 14 لاکھ کی رقم میرے اکاؤنٹ سے نکال لیے گئے۔
خیر یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے درجنوں واقعات ہیں جو سننے میں آتے رہتے ہیں۔ فون کالز یا میسیجز کے ذریعے انعام کا لالچ دے کر سادہ لوح شہریوں کو لُوٹنا اب عام بات ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو، جس کے موبائل فون پر کبھی اِس نوعیت کا کوئی میسیج موصول نہ ہوا ہو کہ’’ مبارک ہو، آپ نے فلاں چینل کے پروگرام کی قرعہ اندازی میں اِتنے تولے سونا، اِتنے لاکھ روپے اور کار جیتی ہے۔ انعام حاصل کرنے کے لیے فلاں نمبر پر کال کریں۔‘‘اِسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 25 ہزار روپے اور احساس پروگرام کے تحت 14 ہزار روپے ملنے کی خوش خبری کے میسیجز بھی آتے رہتے ہیں۔ فراڈ مافیا روزانہ ہزاروں افراد کو اِس طرح کے میسیجز کرتی ہے اور بہت سے افراد انعام کے لالچ میں اُن کے جال میں پھنس بھی جاتے ہیں۔
یہ کہہ کر اُس نے یک دَم سوال داغا،’’ آپ کے بھانجے کا نام کیا ہے؟‘‘ ہم نے بتادیا، پھر اُس کے والد اور والدہ کا نام پوچھا،وہ بھی بتادیے، اِس پر وہ بولا،’’ ہاں اب تو تصدیق ہوگئی کہ یہ واقعی آپ کا بھانجا ہے۔‘‘ ہماری درخواست پر ہمیں چند سیکنڈ کے لیے ایک آواز سُنوائی گئی، جس میں کوئی مریل،بہت ہی مہین سی آواز میں کہہ رہا تھا،’’ ماموں مجھے بچالیں، آکر سب بتا دوں گا۔‘‘’’ دیکھیں جی،وقت زیادہ نہیں ہے۔ پندرہ منٹ میں ہم نے یہ معاملہ نمٹانا ہے، کیوں کہ پھر قانونی کارروائی شروع کرنی پڑے گی۔
جلد بتائیں، کیا کرنا ہے۔‘‘اِس پر ہم نے مزید گھبراتے ہوئے پوچھا،’’ آپ ہی بتائیں کہ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ اُنھوں نے کہا،’’ اگر آپ80 ہزار روپے دے دیں، تو معاملہ یہیں ختم ہوجائے گا، ورنہ بچّے کو دس، پندرہ سال کی جیل تو یقینی ہے۔‘‘ ہم نے کہا،’’مگر ہمارے پاس تو اِس وقت اِتنے پیسے نہیں ہیں۔‘‘’’ کتنے ہیں؟‘‘ ہم نے جیب کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا،’’ دس ہزار ہیں۔‘‘ ’’ تو ٹھیک ہے، مَیں نمبر بھیج رہا ہوں، اُس پر آن لائن بھجوا دیں۔ اور ہاں ، مَیں ہولڈ پر ہوں،جب آپ دُکان پر پہنچیں گے، تو مَیں نمبر بتا دوں گا۔فی الحال موبائل جیب میں ڈال لیں اورکسی سے اِس بات کا ذکر مت کرنا، ورنہ معاملہ خراب ہوجائے گا۔‘‘
اِسی اثنا ہمارے ذہن میں ایک خیال کوندا کہ کیوں نہ بھانجے کو ایک کال کرکے دیکھ لیا جائے تاکہ کیس کی نوعیت کا علم ہوسکے۔ جیب سے فون نکالا، تو وہ صاحب ابھی کال پر موجود تھے۔ ہم نے ہمّت کرکے اُن کی کال منقطع کی اور بھانجے کا نمبر ملایا، تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھر پر خیر و عافیت کے ساتھ موجود ہے اور اُس نے دیگر گھر والوں سے بات کروا کر بھی اپنی وہاں موجودگی کی تصدیق کی۔ اِسی دوران اُن صاحب کا فون آگیا،تو ہم اُنھیں جو سُنا سکتے تھے، سُنا ڈالا۔
محمد اسحاق خالد ۔۔۔ سے ایک سرکاری ملازم ہیں۔ ایسی ہی فون کال پر 14 لاکھ گنوا چکے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا’’مجھے ایک فون کال موصول ہوئی،جس میں دوسری طرف موجود شخص نے کہا’’ ہم کے سیکیوریٹی نقطۂ نظر سے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اَپ ڈیٹ کر رہے ہیں تاکہ کوئی آپ کے ساتھ کسی قسم کا فراڈ نہ کرسکے۔ آپ نے فلاں تاریخ کو اے ٹی ایم کے ذریعے 10 ہزار روپے نکلوائے تھے اور فلاں تاریخ کو آپ کے اکاؤنٹ میں اِتنے پیسے آئے تھے اور چھوٹی موٹی ٹرانزیکشنز جو کی تھیں سب کی تفصیل بتا ڈالی۔‘‘ یہ باتیں سُن کر اُن پر شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی، لہٰذا مَیں نے کہا’’ فرمائیے، آپ کو کس قسم کی معلومات درکار ہیں۔‘‘ اِس پر اُس شخص نے کہا،’’ ابھی آپ کو ایک کوڈ موصول ہوگا، وہ مجھے بتا دیجیے گا تاکہ اکاؤنٹ اَپ ڈیٹ ہوسکے۔‘‘
تھوڑی دیر میں موبائل پر ایک کوڈ موصول ہوا، جو اُسے بتادیا۔ وہ شخص مجھ سے کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا، پھر کال کاٹ دی۔ اسی کے ساتھ ہی ٹرانزیکشن کے ایس ایم ایس موصول ہوئے اور 14 لاکھ کی رقم میرے اکاؤنٹ سے نکال لیے گئے۔
خیر یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے درجنوں واقعات ہیں جو سننے میں آتے رہتے ہیں۔ فون کالز یا میسیجز کے ذریعے انعام کا لالچ دے کر سادہ لوح شہریوں کو لُوٹنا اب عام بات ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو، جس کے موبائل فون پر کبھی اِس نوعیت کا کوئی میسیج موصول نہ ہوا ہو کہ’’ مبارک ہو، آپ نے فلاں چینل کے پروگرام کی قرعہ اندازی میں اِتنے تولے سونا، اِتنے لاکھ روپے اور کار جیتی ہے۔ انعام حاصل کرنے کے لیے فلاں نمبر پر کال کریں۔‘‘اِسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 25 ہزار روپے اور احساس پروگرام کے تحت 14 ہزار روپے ملنے کی خوش خبری کے میسیجز بھی آتے رہتے ہیں۔ فراڈ مافیا روزانہ ہزاروں افراد کو اِس طرح کے میسیجز کرتی ہے اور بہت سے افراد انعام کے لالچ میں اُن کے جال میں پھنس بھی جاتے ہیں۔