ایک فون کال!

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
’’ مَیں صدر ٹاؤن تھانے سے سب انسپکٹر غلام مصطفیٰ بات کر رہا ہوں۔ ہم نے ابھی سرچ آپریشن کے دَوران ایک گاڑی روکی، تو اُس میں چند نوجوان سوار تھے، جن کے پاس سے اسلحہ اور منشیّات برآمد ہوئی ہے۔ اُن نوجوانوں میں سے ایک خود کو آپ کا بھانجا کہہ رہا ہے۔‘‘یہ فون کال سُن کر ہمارے تو ہاتھ پاؤں پُھول گئے، دماغ ماؤف ہو گیا۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دیں۔دوسری طرف سے پھر آواز آئی،’’ بچّہ دیکھنے میں شریف لگ رہا ہے اور تفتیش میں بھی یہی پتا چلا ہے کہ اس کا اسلحے یا منشیّات سے تعلق نہیں ہے، مگر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تھا، اِس لیے مقدمہ تو بنتا ہے۔اُس نے آپ کا نمبر دیا ہے کہ ماموں سے بات کرلیں۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے یک دَم سوال داغا،’’ آپ کے بھانجے کا نام کیا ہے؟‘‘ ہم نے بتادیا، پھر اُس کے والد اور والدہ کا نام پوچھا،وہ بھی بتادیے، اِس پر وہ بولا،’’ ہاں اب تو تصدیق ہوگئی کہ یہ واقعی آپ کا بھانجا ہے۔‘‘ ہماری درخواست پر ہمیں چند سیکنڈ کے لیے ایک آواز سُنوائی گئی، جس میں کوئی مریل،بہت ہی مہین سی آواز میں کہہ رہا تھا،’’ ماموں مجھے بچالیں، آکر سب بتا دوں گا۔‘‘’’ دیکھیں جی،وقت زیادہ نہیں ہے۔ پندرہ منٹ میں ہم نے یہ معاملہ نمٹانا ہے، کیوں کہ پھر قانونی کارروائی شروع کرنی پڑے گی۔
جلد بتائیں، کیا کرنا ہے۔‘‘اِس پر ہم نے مزید گھبراتے ہوئے پوچھا،’’ آپ ہی بتائیں کہ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ اُنھوں نے کہا،’’ اگر آپ80 ہزار روپے دے دیں، تو معاملہ یہیں ختم ہوجائے گا، ورنہ بچّے کو دس، پندرہ سال کی جیل تو یقینی ہے۔‘‘ ہم نے کہا،’’مگر ہمارے پاس تو اِس وقت اِتنے پیسے نہیں ہیں۔‘‘’’ کتنے ہیں؟‘‘ ہم نے جیب کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا،’’ دس ہزار ہیں۔‘‘ ’’ تو ٹھیک ہے، مَیں نمبر بھیج رہا ہوں، اُس پر آن لائن بھجوا دیں۔ اور ہاں ، مَیں ہولڈ پر ہوں،جب آپ دُکان پر پہنچیں گے، تو مَیں نمبر بتا دوں گا۔فی الحال موبائل جیب میں ڈال لیں اورکسی سے اِس بات کا ذکر مت کرنا، ورنہ معاملہ خراب ہوجائے گا۔‘‘
اِسی اثنا ہمارے ذہن میں ایک خیال کوندا کہ کیوں نہ بھانجے کو ایک کال کرکے دیکھ لیا جائے تاکہ کیس کی نوعیت کا علم ہوسکے۔ جیب سے فون نکالا، تو وہ صاحب ابھی کال پر موجود تھے۔ ہم نے ہمّت کرکے اُن کی کال منقطع کی اور بھانجے کا نمبر ملایا، تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھر پر خیر و عافیت کے ساتھ موجود ہے اور اُس نے دیگر گھر والوں سے بات کروا کر بھی اپنی وہاں موجودگی کی تصدیق کی۔ اِسی دوران اُن صاحب کا فون آگیا،تو ہم اُنھیں جو سُنا سکتے تھے، سُنا ڈالا۔
محمد اسحاق خالد ۔۔۔ سے ایک سرکاری ملازم ہیں۔ ایسی ہی فون کال پر 14 لاکھ گنوا چکے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا’’مجھے ایک فون کال موصول ہوئی،جس میں دوسری طرف موجود شخص نے کہا’’ ہم کے سیکیوریٹی نقطۂ نظر سے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اَپ ڈیٹ کر رہے ہیں تاکہ کوئی آپ کے ساتھ کسی قسم کا فراڈ نہ کرسکے۔ آپ نے فلاں تاریخ کو اے ٹی ایم کے ذریعے 10 ہزار روپے نکلوائے تھے اور فلاں تاریخ کو آپ کے اکاؤنٹ میں اِتنے پیسے آئے تھے اور چھوٹی موٹی ٹرانزیکشنز جو کی تھیں سب کی تفصیل بتا ڈالی۔‘‘ یہ باتیں سُن کر اُن پر شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی، لہٰذا مَیں نے کہا’’ فرمائیے، آپ کو کس قسم کی معلومات درکار ہیں۔‘‘ اِس پر اُس شخص نے کہا،’’ ابھی آپ کو ایک کوڈ موصول ہوگا، وہ مجھے بتا دیجیے گا تاکہ اکاؤنٹ اَپ ڈیٹ ہوسکے۔‘‘
تھوڑی دیر میں موبائل پر ایک کوڈ موصول ہوا، جو اُسے بتادیا۔ وہ شخص مجھ سے کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا، پھر کال کاٹ دی۔ اسی کے ساتھ ہی ٹرانزیکشن کے ایس ایم ایس موصول ہوئے اور 14 لاکھ کی رقم میرے اکاؤنٹ سے نکال لیے گئے۔
خیر یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے درجنوں واقعات ہیں جو سننے میں آتے رہتے ہیں۔ فون کالز یا میسیجز کے ذریعے انعام کا لالچ دے کر سادہ لوح شہریوں کو لُوٹنا اب عام بات ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو، جس کے موبائل فون پر کبھی اِس نوعیت کا کوئی میسیج موصول نہ ہوا ہو کہ’’ مبارک ہو، آپ نے فلاں چینل کے پروگرام کی قرعہ اندازی میں اِتنے تولے سونا، اِتنے لاکھ روپے اور کار جیتی ہے۔ انعام حاصل کرنے کے لیے فلاں نمبر پر کال کریں۔‘‘اِسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 25 ہزار روپے اور احساس پروگرام کے تحت 14 ہزار روپے ملنے کی خوش خبری کے میسیجز بھی آتے رہتے ہیں۔ فراڈ مافیا روزانہ ہزاروں افراد کو اِس طرح کے میسیجز کرتی ہے اور بہت سے افراد انعام کے لالچ میں اُن کے جال میں پھنس بھی جاتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اِن کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ بہت پروفیشنل انداز میں بات کریں گے اور اِس مقصد کے لیے بیش تر اوقات ٹیم میں شامل خواتین رابطہ کرتی ہیں۔ سب سے پہلے پُرتپاک انداز میں انعام جیتنے کی مبارک باد دی جاتی ہے۔ اگر شکار دِل چسپی دِکھائے، تو بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ گاڑی بھجوانے پر جو خرچ ہوگا، وہ آپ کو ادا کرنا ہوگا۔جب شکار یہ رقم دینے پر تیار ہوجائے، تو اُسے کسی اکاؤنٹ وغیرہ میں پیسے بھیجنے کا کہا جاتا ہے اور اِس موقعے پر اُس پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ فوراً رقم بھیج دے، ورنہ انعام منسوخ ہوجائے گا۔ اگر اُنھیں یہ رقم مل جائے، تو پھر اگلی بات گاڑی کی انشورنس کی ہوتی ہے۔
تاہم اِس معاملے کا دوسرا پہلو،جو بینکنگ سیکٹر سے متعلق ہے، زیادہ پریشان کُن ہے کہ اس میں صارف کے دھوکا کھانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ کالر اُسے تمام معلومات دے رہا ہوتا ہے۔ گو کہ بینکس کی جانب سے اپنے صارفین کو وقتاً فوقتاً آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی معلومات کسی کے ساتھ شئیر نہ کریں اور بینک کبھی بھی اُن سے اِس طرح کی معلومات حاصل نہیں کرتا، مگر جب کوئی شخص اکاؤنٹ ہولڈر کو کال کر کے اُس کی ٹرانزیکشن اور کوڈ جیسی حسّاس معلومات اُس کے ساتھ شئیر کردے، تو پھر اُس کے لیے جال سے بچنا آسان نہیں ہوتا۔اِس ضمن میں ہماری ایف آئی اے حکّام سے بھی بات چیت ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ اِس طرح کی دھوکا دہی کی وارداتوں میں جعلی سِمز استعمال کی جاتی ہیں۔
ملزمان جعلی انگوٹھوں، مختلف امدادی سرگرمیوں یا سروے وغیرہ کے نام پر لوگوں کا بائیو میٹرک کر لیتے ہیں اورپھر اُس کی بنیاد پر سِم ایکٹیویٹ کرکے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں کارروائیوں سے پتا چلا کہ اِس طرح کے کاموں میں نادرا ملازمین کے ساتھ موبائل کمپنیز کے فرنچائز میں کام کرنے والے افراد بھی ملوّث ہیں،جب کہ جگہ جگہ سِم بیچنے والوں میں سے بھی کچھ لوگ اِس دھندے میں شامل ہیں۔ وہ مفت سِم دینے کے نام پر پہلے بائیو میٹرک کر لیتے ہیں، پھر طرح طرح کی شرطیں بتانے لگتے ہیں تاکہ وہ شخص سم نہ خریدے اور چلا جائے، یوں اُس کے نام کی سِم اُنھیں مل جاتی ہے۔‘‘
حکومت کی جانب سے موبائل فون سِمز کے اجراء کے لیے سخت پالیسی نافذ ہے تاکہ متعلقہ اداروں کے پاس ہر سم کے استعمال کنندہ کی مکمل تفصیلات موجود ہوں، تاہم اس حوالے سے پی ٹی اے کی کارکردگی پر سوالات اُٹھتے رہے ہیں، خاص طور پر جب چھاپوں کے دوران جعل سازی سے حاصل کردہ سیکڑوں سِمز برآمد ہوتی ہیں، تو پی ٹی اے کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ادارے کی جانب سے عوامی آگاہی کے لیے اکثر اعلانات اور بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں کہ ادارہ شاید پریس ریلیز ہی کو کافی سمجھتا ہے،جیسے کچھ روز قبل اخبارات میں یہ اشتہار شائع کروایا گیا کہ ’’اِس وقت پی ٹی اے کو مسلسل شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ سوشل میڈیا صارفین کو مختلف کمپنیوں کی جانب سے انعام کا لالچ دے کر اکاؤنٹ اور ڈیٹا چوری کیا جا رہا ہے۔
لہٰذا صارفین کسی بھی ایسے لِنک سے دُور رہیں، جس میں لنک کو 5 سے 10 گروپس میں شیئر کرنے پر انعام کا لالچ دیا گیا ہو، بصورتِ دیگر صارفین نقصان کے خود ذمّے دار ہوں گے۔‘‘یہ تو وہی بات ہے،جیسے ہائر ایجوکیشن کمیشن وقتاً فوقتاً وارننگ جاری کرتا رہتا ہے کہ فلاں فلاں ادارہ غیر قانونی طور پر کام کر رہا ہے،لہٰذا طلبہ وہاں داخلہ نہ لیں، وگرنہ نقصان کے ذمّے دار وہ خود ہوں گے۔‘‘ حالاں کہ اُلٹا اُن سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ جب اُنھیں غیر قانونی کاموں کا علم ہے، تو محض وارننگ پر اکتفا کی بجائے ان اداروں اور افراد کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔اسی طرح پی ٹی اے ابھی تک کوئی ایسا نظام وضع کرنے میں ناکام ہے،جس سے جعلی سِمز کا تدارک ہوسکے۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ فراڈیوں کے پاس عوام کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات، خاص طور پر ٹرانزیکشنز کی معلومات کس طرح پہنچ جاتی ہیں۔بظاہر بینک کے عملے میں سے کوئی اُن کے ساتھ ملا ہوتا ہے یا پھر بینکس کے سیکیوریٹی نظام میں ایسے سقم موجود ہیں، جن سے مختلف سافٹ وئیر کے استعمال یا ہیکنگ کے ذریعے صارفین کی حسّاس معلومات چُرائی جا سکتی ہیں۔کئی شہریوں کو ایسے نمبرز سے کال موصول ہوتی ہیں، جو بینک کی ہیلپ لائن سے مشابہ ہوتے ہیں اور پھر کالر خود کو بینک کا اہل کار ظاہر کرتا ہے۔اِس ضمن میں ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ’’ بینکس کی ہیلپ لائن کے نمبر کے آگے ایک صفر بڑھا کر جعل سازوں کو منہ مانگے داموں بیچا جاتا ہے۔‘‘گزشتہ برس ایف آئی اے سائبر کرائم کے پاس ایک لاکھ کے قریب شکایات درج ہوئیں، جن میں سے 25 فی صد مالیاتی فراڈز سے متعلق تھیں۔
موبائل فونز کالز کے ذریعے فراڈ کی وارداتوں کے حوالے سے موبائل فون کمپنیز کی جانب سے عدم تعاون کی باتیں عام ہیں۔ اِسی طرح بینکس بھی متاثرین سے تعاون کرنے کی بجائے اُنھیں خود ملزمان کے تعاقب کا مشورہ دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں صدرِ مملکت، عارف علوی نے وفاقی محتسب بینکنگ کے فیصلوں کی تائید کرتے ہوئے بینکس کی بجائے صارفین کے حق میں فیصلے دیے،جس سے فراڈ متاثرین کو لُوٹی رقم واپس ملی اور بینکس کے رویّے میں بھی بہتری دیکھی گئی۔تاہم متاثرین کی بہت کم تعداد وفاقی محتسب سے رابطہ کرتی ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ پی ٹی اے، ایف آئی اے اور بینکس ایسی حکمتِ عملی طے کریں، جو عوام کو فراڈیوں سے بچا سکے۔ دوسری طرف، عوام کو بھی لالچ اور لاپروائی کی عادات ترک کرنا ہوں گی تاکہ وہ کسی کا آسان ہدف نہ بن سکیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
دھوکا دہی، فراڈ کی صُورت میں فوری اقدامات۔۔۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی( پی ٹی اے) نے مالیاتی دھوکا دہی سے بچاؤ کے لیے کچھ رہنما اصول جاری کیے ہیں۔ جن کے مطابق’’ دھوکے باز مُلک بھر میں ہر شخص کو، ہر عُمر اور ہر آمدن والے لوگوں کو ہدف بناتے ہیں۔ دھوکے باز مختلف طریقوں سے آپ کا اعتماد حاصل کرکے آپ سے رقم ہتھیا سکتے ہیں یا ذاتی تفصیلات حاصل کرسکتے ہیں۔
٭ایس ایم ایس کے ذریعے موصول شدہ مشکوک متن یا لِنک نہ کھولیں بلکہ اسے نظر انداز یا رپورٹ کریں۔
٭اپنی ذاتی تفصیلات اور رقم کی فراہمی کے حوالے سے ہر طرح سے آگاہ رہیں۔ کسی اَن جان شخص کو ہر گز رقم، اپنا اے ٹی ایم یا پن کوڈ، آن لائن اکاؤنٹ کی تفصیلات یا ذاتی دستاویزات کی کاپیاں نہ دیں۔
٭اپنے دوستوں اور گھر والوں کو ایسے فراڈ کے متعلق بتائیں۔
٭اگر آپ فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں اور آپ کو پتا چل چکا ہے تو مزید رقم نہ دیں۔ دھوکے باز مزید رقم کا مطالبہ کرتے رہیں گے، جب تک کہ آپ انکار نہیں کرتے۔
٭اگر آپ نے کسی دھوکے باز کو رقم دے دی ہے یا اُسے بینک کی تفصیلات فراہم کر بیٹھے ہیں، تو فوراً اپنے متعلقہ بینک یا پولیس کو بتائیں۔ ہوسکتا ہے اس طرح آپ مزید رقم کی منتقلی سے بچ جائیں یا فوری طور پر آپ کا اکاؤنٹ بند کر دیا جائے۔
٭سب سے پہلے اپنے سروس کنندہ(جاز، زونگ، ٹیلی نار، یوفون اور پی ٹی سی ایل)کو مشتبہ نمبر کی بلاکنگ کے لیے رپورٹ کریں۔
٭ اگر سروس کنندہ سے جواب موصول نہیں ہوتا، تو پی ٹی اے کو 0800-55055 پر یا ویب سائٹ پر بھی رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔٭ پی ٹی اے موبائل نمبر اور ڈیوائس کا آئی ایم ای آئی بلاک کردے گا۔ایک شخص کے فراڈ میں دوبارہ ملوّث ہونے کی صُورت میں سِم / کنیکشن کے اجراء کے لیے شناختی کارڈ کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔مالی / بینکنگ فراڈ ہو جانے کی صُورت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کوcpd.helpdesk@sbp.org.pk پر مطلع کریں۔ مزید تفتیش کے لیے ایف آئی اے کو متعلقہ ہیلپ لائن 051 9106384 پر کال کریں۔‘‘
 
Top