عیادت کی عیادت

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

عیادت کی عیادت

ناصرالدین مظاہری

خبرملی کہ تفسیرمعارف القرآن کے مرتب ،دارالعلوم کراچی کے بانی مفتی اعظم حضرت مولانامفتی محمدشفیع عثمانیؒ کافی دن سے صاحبِ فراش ہیں، دل کی تکلیف کی وجہ سے اٹھنا بیٹھنا بھی ممکن نہیں،یہ خبر کلفت اثرملنی تھی کہ تڑپ گئے، قدیم دیرینہ تعلقات تھے،خودبھی بخارمیں مبتلا،بڑھاپا،پیروں کی معذوری پھربھی اپنے اعذار وموانع کوبھلاکرملاقات کے لئے سہارنپورسے دارالعلوم کراچی پہنچ گئے ، حضرت مفتی محمدشفیع عثمانیؒ اپنے کمرے آرام فرما تھے،مفتی صاحب ؒنے جب آپ کودیکھا توعلالت اور نقاہت کے باوجود اٹھنا چاہا توآپ نے نہایت ہی بے تکلفی سے فرمایا:

’’دیکھومفتی صاحب ! اٹھنے کی کوشش کی تو اچھا نہ ہوگا ،سیدھی بات یہ ہے کہ تم بھی بیمار، میں بھی بیمار،بیٹھے رہنے کی طاقت نہ تم میں ہے نہ مجھ میں ، میں بھی لیٹ جاؤ ں گا اوردونوں لیٹے لیٹے باتیں کریں گے ۔‘‘(نقوش رفتگاں)

اس واقعہ کے روای مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ تحریرفرماتے ہیں :

’’چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھویؒ والدصاحب کے برابر والی چارپائی پر لیٹ گئے اوردونوں بزرگوں میں دیر تک اسی شان سے گفتگو جاری رہی، اللہ اکبر ! سادگی ، بے تکلفی ،بے ساختگی اوراخلاص ومحبت کے یہ دلآویزپیکراب کہاں نظر آتے ہیں ‘‘۔

بیمارکے پاس جا کر اس کی مزاج پرسی کرنے کوعیادت کہتے ہیں،مریض سے جس کوجتناتعلق ہوتاہے اس تعلق کااظہارعیادت کرنے والے کے عادات اوراطوارسے ہوجاتا ہے،کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جوبیمارکی مزاج پرسی کرنے جاتے ہیں توبیمارکاچہرہ کھل جاتاہے،اس کواپنے صحت مندہونے کایقین ہوجاتا ہے، اس کے چہرے پرسکون طاری ہوجاتاہے،اس کے لہجہ میں کھنک پیداہوجاتی ہے ، مریض کی گویاحسرت پوری ہوجاتی ہے کیونکہ مریض کے سینے میں بھی ایک دل ہوتاہے ،وہ دل ہرایک کے لئے یکساں نہیں دھڑکتا،ہرمریض کے دوآنکھیں ہوتی ہیں لیکن سبھی کودیکھ کراس کی آنکھوں میں چمک نہیں آتی ،کچھ ہی چہرے ہوتے ہیں جن کودیکھ کرآنکھیں جھپکنابھول ہوجاتی ہیں جب کہ کچھ چہرے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کواپنے پاس دیکھ کرحیرت وتعجب میں انسان بارباراپنی آنکھیں جھپکاتاہے ،اسی طرح بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن سے مل کرطبیعت میں انقباض، بے کیفی،بے سکونی اور تلملاہٹ پیداہوجاتی ہے ،دل کہتاہے کہ کاش یہ نہ ہی آتاتواچھاتھاکیونکہ اس کی باتیں عامیانہ،اس کالہجہ تیکھا،اس کی عادات تکلیف دہ اوراس کااندازناقابل بیان سردمہری کاغماز ہوتاہے ۔
لالہ مادھو رام جوہرنے کہا اورخوب کہا:

وہ عیادت کو نہ آیا کریں میں در گزرا
حال دل پوچھ کے اور آگ لگا جاتے ہیں

بیمار کی مزاج پرسی کرنابھی ایک فن ہے ،مزاج پرسی کے دوران الفاظ ایسے انتخاب کریں کہ مریض دیرتک ان الفاظ کویاد کرے اورمزے لے،تعبیرات ایسی چنیں کہ مریض آپ کواپنے پاس سے اٹھنے نہ دے،حالات اورواقعات ایسے بیان کریں کہ مریض کواپنے صحت مندہونے کا پختہ یقین ہوچلے۔کچھ احمق افراد ایسے ہیں جو مریض کے پاس پہنچ کرمزید مریض بنادیتے ہیں ،اس کے چہرے کودیکھ کرآہ سردبھرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ لگتاہے دوائیں اثرنہیں کررہی ہیں، ایسامحسوس ہوتاہے کہ ڈاکٹر اچھے نہیں ہیں،اس اسپتال کا رزلٹ بہت خراب ہے،یہاں سے شفایاب ہوکرکوئی نہیں گیا،یہاں لے کرکون آگیا ہے،اس اسپتال سے اچھاتو فلاں اسپتال تھاکیونکہ یہاں ڈاکٹر ڈاکٹری نہیں کرتے پڑھائی کرتے ہیں ،یہ اسپتال نہیں کالج ہے یہاں طلبہ تربیت کے لئے آتے ہیں۔ایسی باتیں مریض سے کرنے کامطلب یہ ہے کہ آپ اس کے وفادارنہیں ہیں، وفادار ہوتے تویہ باتیں مریض کی غیرموجودگی میں الگ لے جاکر گھروالوں کوبتاتے۔صرف مشورے ہی نہ دیتے مشورے کے ساتھ اپنی طرف سے ہرممکن مدد پہنچاتے،باربار مریض کے متعلقین سے خیر خیریت پوچھتے لیکن نہیں جناب اب عیادت بھی محض ایک رسم بن کررہ گئی ہے،جن سے تعلقات ہیں صرف ان ہی سے مزاج پرسی کرنی ہے ۔بہت سے لوگ توایسے بھی ہیں جو بیمار کاحال پوچھنے کے لئے جانے کانظام ہی نہیں بناپاتے بعدمیں کہتے پھرتے ہیں کہ کئی بارملاقات کرنی چاہی لیکن نظام نہیں بن سکا،کچھ لوگ کہتے ملیں گے کہ مجھے کسی نے بتایاہی نہیں،کچھ تومگرمچھ کے آنسو نکال کر کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ مرحوم مجھ سے بڑاتعلق رکھتے تھے۔اے بھائی سب کچھ مرحوم ہی رکھتے تھے تم بھی کچھ رکھتے ہوکہ نہیں۔

زیادہ دن نہیں گزرے میرے ایک امیر دوست نےایک شادی میں شرکت کی تھی برائے نام کھاکر ایک ہزار روپے نیوتہ میں دیئے، میں نے تعجب کااظہاربھی کیا کہ ایک ہزاروپے ؟توبولےکہ حالات کے اعتبارسے چلنا اور ماحول کے مطابق رہنابہت ضروری ہوگیاہے لیکن آج جب اپنے نہایت ہی قریبی سے ملنے پہنچے تواسی کے دسترخوان پرلمبے لمبے ہاتھ بھی مارے اورچلتے وقت ایک پائی بھی جیب سے نہیں نکالی،میں دنگ رہ گیااور سوچ میں پڑگیا کہ یہاں عیادت کے لئے آئے تھے یا اپنی ضیافت مقصود تھی۔یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ شادی بیاہ میں آپ محض دکھاوے، بدلے اورناموری کے لئے ہزار روپے دینے ضروری سمجھے اور یہاں ایک مریض کی عیادت کوآئے،توآپ کادل نہیں پسیجا کہ کچھ اس کی بھی مدد کردی جائے۔کچھ پھل فروٹ ہی لے لئے جائیں،کچھ اس کے بال بچوں کے گھررقم بھیجوادی جائے تاکہ مشکل کی اس گھڑی میں ان کے کام آسکے۔

موبائل ایک رحمت ہے لیکن یہ ایک زحمت بھی ہے بڑی تعدادایسے لوگوں کی ہے جو صرف فون پرزبانی جمع خرچ کرکے سمجھ لیتے ہیں کہ سنت اداہوگئی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے :

’’ جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی عیادت کو صبح جاتا ہے ، تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے حق میں رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں ، اور جنت میں اس کے لیے ایک باغ ہو گا. ( ترمذی)

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مریض کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے ’’ اے تمام انسانوں کے پروردگار ! اس بندے کی تکلیف دور فرما دے ، شفا عطا فرما دے ، تو ہی شفا دینے والا ہے ، بس تیری ہی شفا ہے ، ایسی کامل شفا عطا فرما، جو بیماری کا اثر بالکل نہ چھوڑے ‘‘۔( بخاری )

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’اللہ رب العزت قیامت کے دن کہے گا اے آدم کی اولاد! میں بیمار ہوا تھا تو نے میری عیادت نہیں کی ، بندہ کہے گا اے اللہ کیسے میں
تیری عیادت کرتا جبکہ تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ؟ اللہ فرمائے گا : کیا تم نہیں جانتے کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا ، تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی کو نہ گیا ؟ کیا تجھے خبر نہیں ، اگر تم اس کی عیادت کو جاتے تو تم مجھ کو اس کے پاس پاتے ،( مسلم )

حضرت زید بن ارقمؓ نے کہا کہ”میری آنکھ کی ایک تکلیف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی“۔ (ابوداؤد)

حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو موت کے بارے میں اس کی فکر کو دور کردو، اس لئے کہ یہ بات اس کے دل کو خوش کرے گی“۔ (ترمذی)

حضرت ابو امامہ ؓسے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”عیادت مریض کی تکمیل یہ ہے کہ تم میں کا کوئی شخص اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر یا یہ فرمایا کہ اس کے ہاتھ پر رکھے اور پوچھے کہ مزاج کیسا ہے؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل تمہارے درمیان مصافحہ ہے“۔ (ترمذی)

حضرت انسؓ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مریضوں کی عیادت کرو اور ان سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دعا کریں کیونکہ بیمار کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب)

یہ تمام روایات ہمیں یاددلاتی ہیں کہ ہم کسی مریض کی عیادت کے لئے خودجائیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودتشریف لے گئے اپنے کسی نمائندہ کو’’نمائندگی‘‘ کے لئے نہیں بھیجا،اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی پیشانی یااس کے ہاتھوں کواپنے ہاتھ میں لے کر دعا اور بات چیت کاقابل تقلیدنمونہ چھوڑا ہے،اس عمل سے مریض کوخوشی ملتی ہے ۔

مریض کے پاس پہنچ کرصرف اس کے لئے دعائے صحت پراکتفانہ کریں بلکہ مریض سے بھی اپنے لئے دعاکی درخواست کریں ۔

یہ بات نہایت لائق افسوس ہے کہ ہم اپنے ذاتی فوائدیا مصالح کومدنظررکھ کرعیادت کریں،یہ عجیب وغریب حرکت ہے کہ ہم اپنے کسی عزیزیا قریبی کوعیادت کے لئے بھیج دیں اورخودنہ جائیں۔عیادت کے لئے خودچل کرجاناہی سنت ہے ،مریض کے پاس بیٹھ کر کم وقت میں اچھی اچھی باتیں کرناسنت ہے،مریض کوحوصلہ افزا کلمات کہناسنت ہے،اسلام اخوت اوررواداری کاسبق سکھاتاہے ،اسلام مریض کی عیادت،مرحوم کی تعزیت اوراس کے متعلقین سے ہمدردی کادرس دیتاہے ۔اسلام ہمیں سکھاتاہے کہ کسی سے محبت کرو تواللہ کے لئے اورکسی سے عداوت کروتوبھی اللہ کے لئے،ذاتی اغراض سے اعراض نہایت ضروری ہے۔بہت ممکن ہے کہ مریض کوآپ سے بے انتہامحبت ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کوقلبی طورپرمحبت نہ ہو،اس کی محبت اللہ کے لئے ہواورآپ کی محبت اپنی ذات کے لئے ہو،ایسی محبتیں اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہیں جن کی بنیاداغراض پررکھی گئی ہو۔

عیادت ایک عبادت ہے کوئی کاروبارنہیں ہے۔عیادت سنت ہے کوئی بیوپارنہیں ہے۔نبی کی سنت کوزندہ کیجئے اپنی ذات سے اوپراٹھ کررسول کے اسوہ کواختیارکیجئے۔ہم ہرگزکامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہمارے اعمال اورافعال،ہمارا اندرون اوربیرون نبی کے ارشادات کے مطابق نہ ہوجائے۔دورنگی،منافقت،طوطا چشمی یہ ساری چیزیں بے شک یہیں تک ہیں کل قیامت کے دن پتہ چل جائے گاکس کواپنے نبی سے کتنی محبت تھی اورنبی کی سنتوں کے احیاکے لئے کون کتنامخلص تھا۔
 
Top