’’کٹاس راج‘‘

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
کئی ہزار سالہ قدیم تاریخ کا گہوارہ ’’چکوال‘‘ اعلیٰ نسل کے بَیل، گھوڑوں ، ریوڑیوں اورہمّت و شجاعت اور شیردل نوجوانوں کی سرزمین ہے۔ پاکستان کے پر امن علاقوں میں سے ایک ہے۔ پاک فوج کے جوانوں کی اکثریت اسی علاقے سےتعلق رکھتی ہے۔اس حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ یہاں کی ایک اہم جگہ کٹاس راج ہے۔ یہاں ہندو مذہب کے علاوہ مسلمانوں، دراوڑوں، یونانیوں، جین مت، بُدھ مت اور سکھوں وغیرہ کی ثقافت کا بھی عکس دِکھائی دیتا ہے۔ سطحِ سمندرسے تقریباً ڈھائی ہزار فیٹ بلند ،اس جگہ قائم مندر اور اس سے ملحق حویلیاں دُورہی سے نظر آجاتی ہیں۔ کبھی یہ جگہ علم و فن کا مرکزہوا کرتی تھی،جہاں دیگر علوم کے علاوہ سنسکرت کی تعلیم بھی دی جاتی ۔ مندروں کے قریب آج بھی ایک بدھ اسٹوپا کے آثار موجودہیں،جو بدھ مذہب کے پیروکاروں کی عقیدت کا مظہر ہیں۔تقسیم ِہند سے قبل یہاں ہندوؤں کی اکثریت آباد تھی، لیکن قیام ِ پاکستان کے بعدکٹاس راج کے ہندو نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے۔

کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کے مندروں میں سے رام چندر مندر، ہنومان مندر اور شیو مندر خاص طور پر نمایاں ہیں۔ہندو عقائدوقدیم روایات کے مطابق جب ’’شیو ‘‘نامی دیوتا کی چہیتی بیوی’’ ستی‘‘ نے وفات پائی،توان کے آنسوؤں کے تسلسل کی بہ دولت دو تالاب وجود میں آئے، جن میں سے ایک ’’پشکار‘‘ (اجمیر میں) اور دوسرا ’’کٹکشا‘‘( سنسکرت میں کٹکشا کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے)ہے، جوکٹاس راج (لفظ کٹکشا کی جدید شکل)تالاب کی صُورت آج بھی چکوال میں موجود ہے۔ اس کا رقبہ دوکنال سے زیادہ اورگہرائی تقریباً تیس فیٹ ہے ۔ تالاب کے اِردگِرد چھوٹے بڑے مندر ہیں۔ کٹاس ایک انتہائی دِل چسپ مقام کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق کٹاس راج تالاب میں اشنان سے گناہ دُھل جاتے ہیں، اس کا پانی نیلا یا گہرا ہرا معلوم ہوتا ہے۔ پہلےتالاب کے پانی کو فلٹر کرکے چکوال کے لوگوں کو فراہم کیا جاتا تھا،لیکن اب پانی کی مقدار پہلے سے کم ہو گئی ہے، کیوں کہ اس کے اردگِرد سیمنٹ کی فیکٹریاں لگ گئی ہیں اور زیرِ زمین پانی کی سطح بھی کم ہو گئی ہے،مقامی لوگوں کی شکایات کے باوجود فیکٹریاں اسی طرح ماحول پراثرانداز ہورہی ہیں۔

زیادہ تر مندر چکوال سے چالیس کلومیٹر دُور پوٹھوہار اور مشرقی پنجاب میں واقع ہیں۔ ان مندروں سے ہندو1947ء میں ہجرت کرکے شمالی پنجاب چلے گئے۔ کٹاس کے مشہور ہونے کی ایک اور وجہ ’’ستگڑا‘‘ (سات مندروں کا مجموعہ)بھی ہے۔ اس کے ارد گرد موجود مندر منہدم ہوچکے ہیں، مگر یہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ستگڑا تین منزلوں پر مشتمل ہے ،اس کا ایک ہی داخلی راستہ مندر کے اندر سے گھومتا ہوا چھت کو جاتا ہے۔ پہلی منزل میں عبادت گاہ اور دوسری منزل میں دو چھوٹے تنگ و تاریک کمرے ہیں ، جب کہ بالائی منزل سے پورے کٹاس کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ کٹاس ہی وہ مقام ہے جہاں ماضی میں جنوبی ایشیا کی واحد یونی وَرسٹی ہوا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مشہور مسلمان ماہرِ ارضیات ، ریاضی، تاریخ اورعلم ِ نجوم، ابو ریحان البیرونی نے اسی یونی وَرسٹی سے سنسکرت کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ علاوہ ازیں، اسی جگہ ایک پُراَسرار سُرنگ بھی موجود ہے ، جہاں سے ہندو زائرین مقدّس جھیل تالاب کا نظارہ کرتے ہیں۔یہ مندرہر وقت اگربتّی کی خوش بُو سے معطّر رہتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تعمیر کے وقت مندر کی دیواروں کی مضبوطی و پختگی کے لیے ماش کی دال استعمال کی گئی۔ اسی لیے چاہے کتنی ہی کڑی دھوپ یا گرمی کیوں نہ ہو،، مندر کے اندر ہر وقت ٹھنڈک کا احساس رہتا ہے۔

موجودہ حکومت سیّاحت کے فروغ میں فعال نظر آتی ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ مُلک میں موجود تاریخی مقامات کی ماند پڑتی خُوب صُورتی کی بحالی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی عمارتوں کی مرمّت اور تزئین و آرایش کے لیے بھی ٹھوس منصوبہ بندی کرےاور سالانہ بجٹ کا کچھ حصّہ ان کے لیے بھی مختص کیا جائے کہ یہ سیّاحت کے فروغ میں اہم کر دار ادا کرسکتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بہت شکریہ ایڈمن صاحب پسندیدگی کا!
فن سپاہ گری میں چکوال منفرد مقام کا حامل ہے، اس کی اصل وجہ شہرت بھی یہی ہے۔
چکوال کی جغرافیائی تاریخ بہت قدیم ہے یہاں سے کروڑوں سال پرانے فاسلز بھی ملے ہیں اور برفانی دور کے اوزار بھی، تاریخی قلعوں کا مالک بھی، جا بجا بکھرے تاریخی مقامات اس کی اہمیت دو چند کرتے ہیں۔ وادی کلرکہار، وادی کہون اور وادی جھنگڑ اور وادی سواں ، بن امیر خاتون جھیل ، کوٹ رضا جھیل، سویک جھیل،کھائی جھیل،کلرکہار جھیل،سمبل جھیل،ملورٹ قلعہ،ملکانہ ٹیمپل، دھلوال کے کنویں ، چکوال کینونز،قدیم فن تعمیر، بھون ٹیمپل، ٹرٹل راک، دھرابی جھیل،لکھوال جھیل،بشارت ویلیج،چہل ابدال،سٹون گارڈن،سکی جھیل،کسک قلعہ،نیلا واہاں،غار بابا فرید،ڈھوک ٹالیاں لیک،تخت بابری کے علاقے اس کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ معدنی وسائل سے پُر پہاڑیاں اور کوہستان نمک کا پہاڑی سلسلہ اس کی خوبصورتی اور قدروقیمت میں اضافہ کرتا ہے۔
مغل شہنشاہ اور تزک بابری کا مصنف ظہیر الدین بابر ان پرفضا مقامات کو دیکھ کر پکار اٹھا کہ ’’ایں طفل کشمیر است‘‘۔
ان کی تصویری جھلک کے لیے کیا ہم یوٹیوب لنک دے سکتے ہیں؟
 
Last edited:
Top