امیروں کی ٹافی

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
امیروں کی ٹافی
سونی چوہدری

یہ شاید 90 کی دہائی کا آخری سال تھا گھر سے دو روپے ملتے تھے جن کی چاچے بشیرے کی دوکان سے میٹھی خریداری کی جاتی تھی اس وقت بہت مزے کی ٹافیاں ہوتی تھی جو ایک روپے میں 16 تک مل جاتی تھیں یا پھر چھوٹی چھوٹی اینٹیں ہوتی تھی وہ بھی لگ بھگ ایک روپے کی بیس مل جاتی تھی ان اینٹوں سے جیب بھری رہتی تھی
مگر ان اینٹوں کا ایک نقصان تھا وہ لڑائی ہونے کی صورت میں دوسرے کو مار نہیں سکتے تھے ورنہ مخالف کو فائدہ ہو سکتا تھا
میں اور میرا بڑا بھائی بڑی خواہش رکھتے تھے لڑائی میں ایک دوسرے کو میٹھی اینٹوں سے کٹ چاڑیں مگر ایسا بہت کم ہوتا تھا
پھر ایک دن ٹی وی پر ایک ایڈ آنے لگا ایک موٹی تازی ٹافی دوکانوں پر آنے والی ہے وہ بھی پورے یک روپے کی ایک ملنی تھی
ہم نے اس کو امیروں والی ٹافی کا نام دے دیا یہ ٹافی مارکیٹ میں آئی تو دھوم مچ گئی
اس کو خریدنے کے لئے لازم تھا گھر والے ہم سے سبزی منگواتے اور اس میں کرپشن کر کے ٹافی لی جاتی مگر یہ بھی ناممکن تھا گاؤں میں سبزی فروش گلی گلی آ کر دے جاتے تھے
پھر حوصلہ کر کے ایک روپے کی ٹافی اور ایک کی اینٹیں کھانا شروع کر دی گئی پہلے دن ٹافی کیا کھائی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور اوپر سے اندر سے میش ہوا کھوپر نکلنے کا الگ مزہ تھا
کچھ لڑکے تو ایسا بھی کرتے تھے ٹافی کھا کر خالی ریپر جیب میں رکھا لیتے تھے اور گلی میں آتی جاتی لڑکیوں کے سامنے اداکاری کرتے ان کے سامنے خالی ریپر پھینک دیتے تھے جن سے ان کو لگتا کے لڑکیاں کہیں گی بلے وائی بلے یہ تو کھوپر کینڈی کھاتا ہے
یہ بچپن کی ایک سنہری یاد تھی اس کے بعد نئی صدی نئے زمانے آ گئے وقت بدلتا گیا جیب میں دو روپے کی جگہ ہزاروں روپوں نے لے لی مگر وہ مزہ نہیں رہا جو بچپن کی خریداری میں ہوتا تھا
آج کی ساری چاکلیٹس آئس کریم پیزے برگر مل کر بھی وہ خوشی نہیں دے سکتے جو بچپن میں ایک ٹافی سے ملتی تھی
 
Top