مدرسہ امدادالعلوم زیدپوربارہ بنکی میں داخلے کی کہانی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مدرسہ امدادالعلوم زیدپوربارہ بنکی میں داخلے کی کہانی

ناصرالدین مظاہری

گیارہ سال کی عمرہی کیاہوتی ہے، ایسی کچی عمرمیں بھلاکون بچہ ہے جواپنی سب سے قیمتی اورجان سے زیادہ پیاری ’’ماں‘‘سے سیکڑوں کلو میٹردور قصبہ زیدپورضلع بارہ بنکی کے مدرسہ امدادالعلوم میں پڑھنے کی سوچے ،ہوایہ کہ اس مدرسہ کے پڑھے ہوئے کئی بڑے اہل علم ہمارے علاقہ لکھیم پورمیں ہیں، زیدپوربھی لکھیم پورکی طرح عجیب وغریب جگہ بساہواہے ،آپ امرتسرسے کلکتہ چلے جائیں ،سڑک سے ہو یا ٹرین سے ،کہیں بھی زیدپورنہیں ملے گا،البتہ آپ زیدپور سے اتنے قریب سے گزرجائیں گے کہ جن کی قوت شامہ مضبوط اورجن کی بینائی تیزہوتووہ زیدپورکی خوشبوکا احساس اورادراک کرسکتے ہیں ،جی ہاں جب آپ کی ٹرین یاکارلکھنؤسے مشرق کی طرف چلے اوربڑھے تو سب سے پہلے بارہ بنکی شہرآپ کاااستقبال کرے گاپھرمشہورقصبہ رسولی اورصفدرگنج کاعلاقہ گزرے گابس صفدرگنج سے ہی ایک سڑک شمال کی جانب نکلتی ہے اوریہی سڑک آپ کوزیدپورپہنچاتی ہے ۔

میرے والدنے میرے استاذ حضرت مولاناحفظ الرحمن صاحب سے مشورہ کیایاحضرت مولانانے خودہی میرے والدسے مشورہ کیابہرحال طے یہ پایاکہ زیدپورمیں داخلہ کرایا جائے۔ہماری چارنفری یہ جماعت جومرحوم محمدمستقیم، مولانامحمدحسین، مولانافضل الرحمن ، مولانا محمد مشیر اورراقم الحروف پرمشتمل تھی سب زیدپورکے لئے تیاریاں کرنے لگے۔
داخلہ میں ایک اورصاحب بلکہ سب سے اہم کڑی اوروجہ ترجیح ہمارے علاقے کے مشہورومقبول اورہردل عزیزعالم دین حضرت مولانامفتی محمدنسیم صاحب تھے جواسی مدرسہ امدادالعلوم کے فارغ اوروہیں مدرس تھے ۔

فضل الرحمن اب ماشاء اللہ مولانا ہیں،لکھنے پڑھنے کااچھاذوق رکھتے ہیں ،مفتی بھی ہیں اورمرادآبادکے فارغ بھی ہیں یہ صاحب میرے استاذمولاناحفظ الرحمن کے برادر زادے ہیں اوران کی ابتدائی تعلیم بھی میرے ہی گاؤں میں ہم لوگوں کے ساتھ ہی ہوئی تھی اس لئے میرے والد اورمولاناحفظ الرحمن کے والددونوں نے زیدپورہی فیصلہ کیاتھا۔

شوال کی خداجانے کیاتاریخ رہی ہوگی ہم چاروں کولے کریہ دونوں بزرگوارلکھیم پورپہنچے ،میرے استاذ حضرت مولاناحفظ الرحمن صاحب بھی لکھیم پورتک چھوڑنے تشریف لائے ،پہلی باریلوے اسٹیشن دیکھا، کافی دیرانتظارکے بعدٹرین تشریف لائی ،تشریف اس لئے لکھ رہاہوں کیونکہ اس زمانے کی ٹرین آج کی ٹرین سے بالکل الگ تھی،کالی کلوٹی،کوئلہ سے چلنے والی،تنگ سی، ڈبے اتنے نیچے کہ ایک ہی جست میں آدمی اندرپہنچ جائے۔لکڑی کی سیٹیں،اوپروالی ٹانڈ میں بھی لکڑی کے تختے اورپٹرے ،اکادکاپنکھے،دہ بھی سرکارکی طرح چلتے کم تھے شور زیادہ مچاتے تھے،ٹرین کے بالکل اگلے ڈبے میں ڈرائیور بیٹھتاتھا، مسلسل بھٹی میں کوئلہ ڈالتا رہتا تھا، کوئلہ کے پاس اورآگ کی بھٹی کے پاس رہتے رہتے ڈرائیوربھی حبشی النسل محسوس ہوتاتھا،ٹرین کی آواز بھی خوفناک،اس کی چال بالکل ہرنی جیسی،مست و مستانہ،اس کاموڈبالکل بھینسا جیساجہاں مرضی رک گئی ، مرضی ہوئی توچل پڑی،نہ آگے سے کسی ٹرین کے آنے کاخطرہ نہ ہی ٹرین کے وقت پرپہنچے کاٹینشن،بالکل ایساہی لگتاتھاجیسے آج کل کی مکمل اکثریت سے جیتنے والی سرکاروں کاہوتاہے نہ سرکارکے گرنے کا خدشہ،نہ مخالفین کادھڑکا،مرضی ہوئی تواچھی چلنے لگی مرضی ہوئی توخراب چلنے لگی،پہلی سرکاروں کے تشنہ کاموں کوبیک جنبش قلم ختم کرنے میں کوئی احساس نہیں کہ ملک کاکس قدرروپیہ خرچ ہوچکاہے نہ ہی کسی کی ڈانٹ اورپھٹکارکاخوف کیونکہ عدالتیں، صدرجمہوریہ ،گورنرسب چڑھتے سورج کوہی سلام کرنے لگے ہیں،جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والامعاملہ ہوچکا ہے۔

خیرہم ٹرین میں بیٹھ گئے ،ٹرین اپنی مرضی سے چلتی رہی ،کوئلہ کے ذرات اڑاڑکرہمارے کپڑوں کوداغدار کرتے رہے یہاں تک کہ فتح پورکے نام سے ایک اسٹیشن آیا،وہاں اترے اورپھرکسی بس وغیرہ سے بارہ بنکی پہنچے، وہاں سے بھی بس ملی اورزیدپورپہنچے ۔حضرت مولانامفتی محمدنسیم صاحب نے استقبال کیا، مولاناکی وجہ سے داخلوں میں بھی خوب آسانی ہوئی۔دودن تک ہمارے والد اورمولانافضل الرحمن کے داداجان رکے رہے ،ان کی روانگی کاوقت ہواتو ہماری حالت غیرہونے لگی ،دونوں حضرات مدرسہ سے روانہ ہوگئے لیکن سب سے نیچے داخلی عمارت میں داہنی جانب والاوہ ستون میرے لئے کسی ماں سے کم نہیں تھاجس سےلپٹ کررویا اورخوب رویا،اس سے پہلے زندگی میں کبھی لکھیم پورنہیں دیکھاتھاچہ جائے کہ زیدپورپہنچ گیا۔اس زمانے میں زیدپورمیں خربوزے بہت سستے ملتے تھے ،میرے والدنے کئی کلوخربوزے خریددئے تھے کہ بھوک لگے توکھالینا،کیابتاؤں ،جب اپناٹین کابکس والدصاحب کے جانے کے بعدکھولاتوخوب رویا،والدصاحب جب مجھ سے رخصت ہورہے تھے توایک باربھی میری طرف مڑکرنہیں دیکھا تھا،بہت احساس ہواتھا،غصہ بھی آرہا تھاکہ مڑکردیکھ تولیتے لیکن اس نہ مڑنے کی سمجھ تب آئی جب میری شادی ہوگئی اورمیراننھابچہ ریحان اپنی ماں کی گودمیں تھااورمیں مظاہرعلوم سہارنپورکے لئے روانہ ہورہاتھا اور ایک باربھی پیچھے مڑکرمیں نے نہیں دیکھاتھابلکہ اب بھی نہیں دیکھتاہوں، جواب ملااورخوب ملا،سمجھ آئی اور خوب آئی ۔یہ کوئی والدکے دل سے پوچھے کہ ان کے دل پرکیاگزرتی ہے جب وہ اپنے بچوں ہی کے لئے اپنے گھرسے بچوں کوچھوڑتاہے۔

داخلہ کی صبح سے پڑھائی میں لگ گیا،سب سے زیادہ اس وقت قربت حضرت مولانامفتی نسیم صاحب سے ہی رہی کیونکہ اتنامعلوم تھاکہ یہ لکھیم پورکے عدلیس پورکے رہنے والے ہیں۔کسی ہم علاقہ کی شفقت وہمدردی دیارغیرمیں کتنی ڈھارس بندھاتی ہے یہ کوئی مجھ سے پوچھے۔

اگلے ہی دن مفتی صاحب نے فرمایاکہ ناصرالدین !جب بھی روپے پیسوں کی ضرورت ہوبے تکلف مجھ سے لیتے رہناتمہارے والدنے روپے میرے حوالہ کئے ہیں تم چھوٹے ہوغائب ہوسکتے ہیں ۔یہ سرپرستی حضرت نے ایسی نبھائی کہ چھ سال تک وہی میرے استاذوہی میرے والدوہی میرے مشیروہی میرے سرپرست۔ان ہی کی ذات میں مجھے ماں کاروپ،باپ کاپیار، استاذکی شفقت،سرپرست کی ہمدردی سب کچھ نظرآئی اورخوب نظرآئی۔(جاری)
 
Top