بچپن کی یادیں

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
انسان کا بچپن بڑا مزیدار ہوتا ہے۔ اس میں ہنسی ، مزاق ، ہنسنا، رونا ، نراض ہونا ، نراض ہوکر راضی ہونا ، غصہ کرنا ، پیار دکھانا ، اٹھنا ، گرنا ، گر کر سنبھلنا ، چوٹ لگنے پر بہادری دکھانا جیسے کچھ ہوا نہیں ، والدین کی ڈانٹ کھانا ، کبھی کبھی مرمت کرالینا ، بھائیوں کو تنگ کرنا ، کھلونوں پر ضد کرنا ، شرارتوں سے گھر سر پر اٹھا دینا ، صبح سکول جاتے وقت سب کو الرٹ کردینا ، سکول کے لیے گھسیٹ کر دروازے تک کا پروٹول ملنا۔ الغرض ہر خوشی غمی مسکراہٹ شرارت کی جو انسان کے بچپن میں ہوتی ہیں وہ ایک یاد ہوتی ہے بلکہ ایک تاریخ ہوتی ہے جسمیں انسان کے تمام کمالات و جمالات و عجائبات بند ہوتے ہیں۔
بچپن کا دوست مل جائے ، بچپن کی کوئی چیز نظر آجائے ، یا کبھی بیٹھے بیٹھے انسان کو اپنے بچپن کا کوئی واقعہ یاد آجائے تو انسان اس لمحے کو سوچ کر مسکرا دیتا ہے ، ہنس دیتا ہے ، خوشی کا اظہار بھی کردیتا ہے ، اور اس پل یا لمحے کو انسان اپنے بچپن کو جینے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا بچپن کے دن تھے
نہ کوئی ضرورت تھی نہ کوئی ضروری تھا۔
بچپن کے لمحات کو جینے کے لیے ، بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے ، اپنی شرارتوں سے محظوظ ہونے کے لیے ، ان لمحات و واقعات کو یاد کرکے قلمبند کرنے کے لیے ، بچپن کے جزبات و احساسات کو سطور پر اتارنے کے لیے ، اپنے بچپن کی کہانی سنانے کے لیے اور اپنے بچپن کے کہانی یا واقعہ کے ذریعے سب کو بچپن کی یادیں گوش گزارکرنے کے لیے اور اپنے پچپن کی شرارتوں کو قلم کے ذریعے اس فورم پر محفوظ کرنے لیے اس "دھاگہ" کا انعقاد کررہاہوں۔
ان شاءاللہ العزیز بچپن کی جو کچھ یادیں یاد بن کر کہیں ذہن کے کسی کونے میں براجمان تھیں کوشش کروں گا ان دھندلی کھٹی ، میٹھی یادوں کو قلم کے ذریعے آپ تک پہنچاوں۔
اگر آپ بھی کوئی واقعہ یا بچپن کا کوئی لمحہ شئیر کرنا چاہتے ہیں تو آپ بھی اس سلسلہ میں حصہ لے سکتے ہیں اور اپنے بچپن کی یاد تازہ کرسکتے ہیں۔
ان شاءاللہ جلد ملتے ہیں بچپن کی حسین یادوں کے ساتھ
10-08-2022
 
Last edited:

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
مشن ہاف لیٹر سیون اپ
تحریر : محمدداؤدالرحمن علی
بچوں کے سردار بچوں کے درمیان میں بیٹھے پیسے گننے میں مگن تھے ۔ تمام بچوں کی نگاہیں سردار صاحب پر ٹکی تھیں۔ کوئی بچہ سر کھجا رہا تھا اور کوئی دانتوں میں انگلیاں دبائے کھڑا تھا اور کوئی سردار کے لب ہلنے کا منتظر تھا۔ اچانک سردار نے سر اٹھایا اور گویا ہوا۔
بچو! پیسے کم ہیں۔
سردار کے الفاظ جیسے ہی بچوں کے کانوں میں گونجے بچوں کی سانسیں اٹک گئیں اور انہیں اپنا مشن فیل ہوتا نظر آرہا تھا۔
----٭٭٭٭----

عید کا تہوار تھا یا ویسے ہی چھٹیاں تھیں ہم سب کزنز اور کچھ دوست اکھٹے تھے۔ جب سب بچوں نے خوب اودھم مچایا اور تھک ہار کر سب کے سب بیٹھ گئے تو فیصلہ ہوا کہ اب کچھ کھایا پیا جائے۔ بچوں کے جرگہ میں بہت سی آراء آئیں ، اس میں ایک رائے یہ بھی دی گئی کہ پیسے جمع کرکے ہاف لیٹر سیون اپ خریدی جائے اور سب کو برابر تقسیم کی جائے۔
اس وقت ریگولر سیون اپ پانچ یا آٹھ کی اور ہاف لیٹ پندرہ یا سترہ کی آتی تھی۔ سترہ یا پندرہ روپے اس وقت ہم بچوں کے لیے ایک بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔
اور ہم بچوں کا خیال عظیم تھا شاید ہاف لیٹر والی سیون اپ کچھ الگ ہی چیز ہوگی کیونکہ اس سے قبل ہمیں یہ نصیب نہ ہوئی تھی اور نہ اس کے بارے میں زیادہ علم تھا۔
جیسے یہ فیصلہ ہوا کہ سیون اپ پی جائے تو سب نے اپنی جیبوں سے پیسے نکالنے شروع کردیے، سب نے اپنے اپنے پیسے سردار صاحب کو جمع کرادیے۔ سرادر صاحب نے سب سے گن کر اور ان کو بتاکر اتنے تمہارے اور اتنے تمہارے ہیں۔ پیسے گننا شروع کردیے ، سب بچے دل ہی دل میں دعا کررہے تھےکہ
یا اللہ! پیسے پورے ہوجائیں آج ہم نے سیون اپ پینی ہے۔
اللہ اللہ کرکے انتظار ختم ہوا تو سردار نے خوفناک خبر سنادی کہ پیسے پورے نہیں ہیں۔
اب سب بچوں کو ہاف لیٹر سیون اپ پینے کا خواب ٹوٹتا نظر آیا۔ سردار نے بچوں کے چہروں پر غور فرماکر ایک بچے کو کہا جاو دکان سے پوچھ کر آو بوتل کتنے کی ہے؟ نچے نے آو دیکھا نہ تاو دیکھا چوتھے گئیر میں دوڑ لگادی۔
چند لمحات کے بعد پھولی سانسوں کے ساتھ اس نے آکر بتایا یہ قیمت ہے۔ قیمت سن کر احساس ہوا کہ مشن ہاف لیٹر سیون اپ بوتل مکمل کرنے کے لیے مزید چند روپے درکار ہیں۔حالات کو دیکھتے ہوئے سب نے سردار کو کہا آپ کچھ کریں یہ مشن پورا کرنا ہے۔
سردار نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا کہ
آج یہ مشن ہاف لیٹر سیون اپ بوتل ضرور مکمل ہوگا میرے پاس چند روپے ہیں پر شرط یہ ہے میرے پیسے زیادہ ہیں اس لیے میں زیادہ پئیوں گا۔
سردار کی بات سن کر بچوں کو کچھ حوصلہ ہوا اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سردار کی بات جھٹ سے مان گئے۔ سردار نے پیسے پورے ہونے پر بچوں کے جھرمٹ میں (پندرہ سے اٹھارہ روپے جیب میں ہونے کی صورت میں حصار میں) دکان پر تشریف لے گئے۔
سینہ تان کر جوش سے دکان دار سے کہا: انکل جی ایک ہاف لیٹر سیون اپ بوتل دے دیں۔
اس سے قبل دکاندار ہم سے پیسے پوچھتا ہم نے اپنی چھوٹی سی جیب جسمیں پیسے توڑ موڑ کر رکھے ہوئے تھے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیے۔
دکاندار نے پیسے گن کر جیسے ہی بوتل ہمارے ہاتھ میں دی تو تمام بچے یکدم ہمارے ارد گرد ایسے جمع ہوگئے جیسے ورلڈ کپ ہمارے ہاتھ آگیا ہو اور اس ٹیم نے کوئی بہت بڑا معرکہ جیت لیا ہو ۔ ویسے بھی یہ ہمارے لیے کسی معرکہ سے کم نہ تھا۔
بچوں کی جھرمٹ میں سیون اپ کو اس کی منزل مقصود پر سجایا گیا۔ جیسے ہیں سیون اپ بوتل کا ڈھکن جی جان لگاکر کھولا گیا اور شوں کی آواز کانوں میں پڑی تو سب بچے خوشی سے اچھل پڑے،سب کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔
شرط کے حساب سے آدھی کے قریب بوتل بچوں کے سردار کو دی گئی ، اس کے بعد سب نے اپنے حصہ کی سیون اپ بوتل نوش فرمائی ۔ سب کے چہروں سے لگ رہا تھا جیسے سب بچے کوئی معرکہ سر کرکے آئے ہیں ۔ چہرے پر ایک عجیب سی خوشی اور آنکھوں میں ایک چمک تھی کہ آج ہم نے آخر کار ہاف لیٹ سیون اپ کا معرکہ سر انجام دے ہی دیا۔
----٭٭٭٭----
تو اب آپ بتائیں آپ نے پہلی بوتل کون سی پی تھی اور کتنے کی پی تھی۔؟
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
تو اب آپ بتائیں آپ نے پہلی بوتل کون سی پی تھی اور کتنے کی پی تھی۔؟
خریدی تو کبھی نہیں بس خود ہی مل جاتی تھی۔
مگر ہم نے کبھی بھی سادی بوتل نہیں پی۔
ہمیشہ پیپسی کے اندر چاکلیٹ فلیور آئس کریم مکس کی ہے اور یقین جانیے بہت اعلی ٹیسٹ ہوتا ہے۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
خریدی تو کبھی نہیں بس خود ہی مل جاتی تھی۔
مگر ہم نے کبھی بھی سادی بوتل نہیں پی۔
ہمیشہ پیپسی کے اندر چاکلیٹ فلیور آئس کریم مکس کی ہے اور یقین جانیے بہت اعلی ٹیسٹ ہوتا ہے۔
ہمارے گھر میں بچوں کو ممنوع تھا کہ بیٹا بوتل نہیں پینی اس سے معدہ اور جگر خراب ہوتا ہے۔ اور اس وقت لوگ اتنی عام نہیں پیتے تھے، عموما دیکھا تھا جب کسی کا پیٹ درد کرتا تھا یا خراب ہوتا تھا وہ سیون اپ یا سپرائٹ پی لیتا تھا۔ اب تو بوتل ہر دسترخوان کی زینت اور ہر مہمان کی شان سمجھی جاتی ہے۔

جی جی بلکل ایک مزیدار سا ذائقہ بن جاتا ہے، ان شاءاللہ اس پر بھی ایک واقعہ دھنلا سا یاد ہے کہ کیسے ہمیں اس طرح آئسکریم کھلائی گئی مکمل یاد آگیا تو قلم بند کردوں گا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ہمیں کھانے پینے کا تو کوئی شوق نہیں تھا۔ زبردستی اگر والدہ نےہماری پسند کا کھانا بنایا اور کھلایا تو ٹھیک۔ کھانے میں عجیب سے کمبنیشنز بناتے تھے۔ دودھ میں کیچپ، چاولوں کے ساتھ سرکہ، چلی ساس اور چینی کا مسکچر اور پانی کے ساتھ کینڈی بسکٹ ہماری پسندیدہ اشیاء میں سے ہے۔
سب سے زیادہ اچھی چھوٹی بہن اور بھائی کی چیزیں لگتی تھی اوروہ والی جو ہمیں نہ دی جائیں۔ چھوٹے بھائی کے لیے والدہ جب دودھ اور سریلیک بناتی تھی ہم بھی وہی کھاتے تھے۔ شہد والا فلیور ہمارا پسندیدہ تھا۔ جب ہم اپنی چھوٹی بہن کو ساتھ سکول لے کر جاتے تھے تو اس کی آدھی پاکٹ منی ہم کھا جاتے تھےاور ہمارے پیسے ہمارے بڑے بھائی لے لیتے۔چھوٹے بھائی کی سکول کی ذمہ داری ہماری ہوتی تھی۔ ہم صرف 20 روپے کی چیز لے کر دیتے اور باقی 30 روپے کمیشن اور کرائے کے طور پر رکھ لیتے تھے۔ اب چھوٹے بھائی کو کلاس میں چھوڑ کر آؤ، بریک ٹائم نواب زادے کو پانی دے کر آؤ، چیز لے کر دو، جو بھائی سے مار کٹائی کرے اس کی مرمت بھی کرو، واپس آ کر سکول کا کام بھی کرواؤ اور ہم 30 روپے کمیشن بھی نہ لیں۔ والدہ کہتی تھیں تم میرے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں سے کمیشن نہیں لوٹ مار کرتی ہو۔ والدہ سے بڑی مار پٹتی تھی۔والد صاحب کی سب سے چہیتی اولاد ہونے کی بنا پر سب ہم سے تھوڑے بچ بچا کر ہی رہتے تھے۔مشکل کام دو ہم شکلوں کے درمیان فرق کرنا ہوتا تھا۔ ہم دو بہنوں میں اس قدر مشابہت تھی کہ والدہ کا دماغ بھی گھوم جاتا تھا کہ کون کون ہے۔ اس بات کے فائدے اور نقصان دونوں تھے۔ اگر ہم نے کوئی شیطانی کی تو مار دوسری کو پٹ گئی اور جب دوسری نے کی تو ہم بے گناہ پٹ گئے۔
ہماری شکایت پر والد صاحب سب کو بہت ڈانٹتے تھے مگر مارتے نہیں تھے۔ مارنے کا شرف صرف والدہ نے ہی لیا ہے۔ پھر ہم سب سے بدلہ لیتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں کی پسندیدہ اور کام کی چیزیں چھپا لیتے اور جب تک ہمیں سب اپنی اپنی پاکٹ منی اور ہمارے سارے کام نہ کرتے کبھی بھی واپس نہیں کرتے تھے۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
پرندو ں کے احوال:
ہمیں سب سے اچھے چکور لگتے تھے۔چکوروں کا ایک بہت بڑا کلکشن تھا ہمارے پاس۔مگر آہستہ آہستہ سب مر گئے شاید موسم کی تبدیلی وجہ تھی۔ پھر آخر میں صرف ایک باقی بچا۔ بہت مشکل سے ہلایا تھا اسے مگر گھر میں کسی کو بھی اس چکور سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ہمارے صرف ایک مرتبہ بلانے پر فورا بھاگ کر آ جاتا تھا۔پھر غالبا اس کو آنکھوں کی کوئی بیماری ہو گئی تھی اس چکور کی آنکھوں کے ارد گرد بہت زیادہ سوجن ہو گئی تھی۔ ہم نےاور ہماری بہن نے اس کو آپریٹ کیا اور وہ مر گیا!
سب سے زیادہ برا بلکہ یوں کہیں کہ ہمیں جس چیز سے نفرت تھی وہ چھوٹی بہن کا نیلے رنگ کا"مکا" طوطا تھا۔ اسے دیکھ کر ہی دل و دماغ کھول اٹھتے تھے۔ بہت کوشش کرتے تھے کہ یہ کسی طرح سے بھاگ جائے یا اسے کچھ ہو جائے اور میری جان چھوڑ دے۔ سارے گھر کے افراد کو کچھ بھی نہیں کہتا تھا سوائے میرے۔ جب ہم بلانے کی کوشش کرتے تو آگے سے کاٹ کھاتا۔ ایک دن باہر کھلے صحن میں اکیلا گھومتا ہوا مل گیادل تو کیا شاٹ گن سے گردن اڑا دوں مگر یہ محض خیال ہی رہ گیا۔ ہم طوطے کو دیکھ رہے تھے اور ہماری بہن کی ہم پر نظر تھی کہ ہم کہیں اسے مار نہ دیں۔ہم بیٹھے دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ کہیں سے کوئی بلی یا اپنی کوئی اور مخلوق بھیج دے اوروہ اس طوطے کو کھا جائے، شاید قبولیت کی مبارک گھڑی تھی، طوطا اڑ کر ہماری اور پڑوس کے گھر والوں کی مشترکہ دیوار پر بیٹھا اور سچ میں ایک بلی کا نوالا بن گیا۔ ہماری بہن بہت چیخی چلائی مگر نہ ہم نے کسی بات پر کان دھرے ۔ اللہ کے خاص کرم سے اس گندے بدشکلے طوطے سے نجات ملی۔
اور بھی بہت سارے پرندوں کا احوال باقی ہے۔
 

مریم بی بی

وفقہ اللہ
رکن
پرندو ں کے احوال:
ہمیں سب سے اچھے چکور لگتے تھے۔چکوروں کا ایک بہت بڑا کلکشن تھا ہمارے پاس۔مگر آہستہ آہستہ سب مر گئے شاید موسم کی تبدیلی وجہ تھی۔ پھر آخر میں صرف ایک باقی بچا۔ بہت مشکل سے ہلایا تھا اسے مگر گھر میں کسی کو بھی اس چکور سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ہمارے صرف ایک مرتبہ بلانے پر فورا بھاگ کر آ جاتا تھا۔پھر غالبا اس کو آنکھوں کی کوئی بیماری ہو گئی تھی اس چکور کی آنکھوں کے ارد گرد بہت زیادہ سوجن ہو گئی تھی۔ ہم نےاور ہماری بہن نے اس کو آپریٹ کیا اور وہ مر گیا!
سب سے زیادہ برا بلکہ یوں کہیں کہ ہمیں جس چیز سے نفرت تھی وہ چھوٹی بہن کا نیلے رنگ کا"مکا" طوطا تھا۔ اسے دیکھ کر ہی دل و دماغ کھول اٹھتے تھے۔ بہت کوشش کرتے تھے کہ یہ کسی طرح سے بھاگ جائے یا اسے کچھ ہو جائے اور میری جان چھوڑ دے۔ سارے گھر کے افراد کو کچھ بھی نہیں کہتا تھا سوائے میرے۔ جب ہم بلانے کی کوشش کرتے تو آگے سے کاٹ کھاتا۔ ایک دن باہر کھلے صحن میں اکیلا گھومتا ہوا مل گیادل تو کیا شاٹ گن سے گردن اڑا دوں مگر یہ محض خیال ہی رہ گیا۔ ہم طوطے کو دیکھ رہے تھے اور ہماری بہن کی ہم پر نظر تھی کہ ہم کہیں اسے مار نہ دیں۔ہم بیٹھے دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ کہیں سے کوئی بلی یا اپنی کوئی اور مخلوق بھیج دے اوروہ اس طوطے کو کھا جائے، شاید قبولیت کی مبارک گھڑی تھی، طوطا اڑ کر ہماری اور پڑوس کے گھر والوں کی مشترکہ دیوار پر بیٹھا اور سچ میں ایک بلی کا نوالا بن گیا۔ ہماری بہن بہت چیخی چلائی مگر نہ ہم نے کسی بات پر کان دھرے ۔ اللہ کے خاص کرم سے اس گندے بدشکلے طوطے سے نجات ملی۔
اور بھی بہت سارے پرندوں کا احوال باقی ہے۔
کسی دن فراغت سے لکھیں گے"ایک معصوم جان پر ظلم کی داستان"۔
 
Top