خط
تحریر: محمدداؤدالرحمن علی
آج حضرت والد محترم کے کمرہ میں کچھ کتب بینی کے دوران ایک کتاب سے خط نمودار ہوا جو تایا جان مرحوم نے حضرت والد محترم کو غالبا 2 ستمبر 89 میں لکھاتھا۔جیسے ہی اس خب پر نظر پڑی ہم بچپن کی ان یادوں میں کھوگئے جب ہم نے ہوش سنبھالا تھا اور اس وقت جو خطوط آتے تھے ان لمحات میں کھو سا گیا تھا۔
ہمارے بچپن میں عموما دادا جان مرحوم ، تایا جان مرحوم اور نانا جان مرحوم وغیرہ اکثر حال احوال کے لیے خط لکھا کرتے تھے۔ اس خط کا سب کو انتظار ہوتا ہے اور جب ڈاکیا یہ خط گھر دے جاتا تو ہم سب اکٹھے ہوجاتے والد محترم کے ارد گرد دائرہ بن جاتا تھا ، نظریں خط کے لفافہ پر اور کان والد محترم کی آواز کی جانب متوجہ ہوتے تھے۔ سب کے سب ایسے خاموش بیٹھ جاتے تھے جیسے کوئی یہاں موجود ہی نہ ہو ، اور جب والد محترم خط کے مندرجات پڑھتے تو سب کے چہروں پر خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ خط نہیں بلکہ ایک داستان ہوتی ہے سب کی خیرو عافیت کے ساتھ ساتھ حال احوال بھی درج ہوتے تھے۔ کبھی کبھار خط اتنا جزباتی ہوتا تھا کہ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہمارے بڑے ہمارے سامنے بیٹھ کر بات کررہے ہوں۔ خط کے بعد گھر میں ایک عجیب سی خوشی ، آنکھوں میں چمک ، لہجہ میں عجیب سی محبت ، اخوت ، جزبات کا احساس ہوتا تھا۔ وہ خط نہیں بلکہ اس میں پورا ایک جہان بسا ہوتا تھا۔ بعض اوقات جو خط پوسٹ کرنے آتا تھا اگر وہ کچھ نہ لکھ پاتا تو خط کے ڈاک لفافہ کے اوپر جہاں پتہ لکھتا تھا وہیں ساتھ چھوٹا سا لکھ دیا کرتا تھا کہ فلاں کی طرف سے بھی سلام پہنچے۔
جس دن اس خط کا جواب جاتا اس دن سب اپنی اپنی باتیں لکھتے ، باتیں بتاتے، گاؤں کی یادیں تازہ کی جاتی تھیں الغرض اس خط و کتابت میں دنیا وما فیھا کا پیار ہوتا تھا جو دلوں کو آپس میں جوڑ دیتا تھا۔
یہ خط پیار بھی جتاتا،آنکھوں میں آنسو بھی لاتا ، گاؤں کی یاد بھی دلاتا ، اپنوں سے دوری کا غم بھی دیتا ، چاہتیں ، محبتیں بھی بانٹتا اور اپنے اندر ایک دنیا سمو کر ایک جگہ سے دوسری جانب کوچ کرجاتا اور وہی احساس ، پیار ،لاج ،دلار جو اس طرف ہوتا اسے اس طرف بھی بانٹا تھا۔
ان حسین یادوں میں گم سم بیٹھا تھا اور ان یادوں کو مزید دماغ سے کریدتا کہ باہر سے کسی نے آواز لگائی اور یہ تسلسل ٹوٹا تو معلوم ہوا کہ ہم کتاب بینی کرتے کرتے خط کی محبت بھری یادوں میں کھو چکے تھے۔
کیا آپ کو کبھی کسی نے خط لکھا؟
تحریر: محمدداؤدالرحمن علی
آج حضرت والد محترم کے کمرہ میں کچھ کتب بینی کے دوران ایک کتاب سے خط نمودار ہوا جو تایا جان مرحوم نے حضرت والد محترم کو غالبا 2 ستمبر 89 میں لکھاتھا۔جیسے ہی اس خب پر نظر پڑی ہم بچپن کی ان یادوں میں کھوگئے جب ہم نے ہوش سنبھالا تھا اور اس وقت جو خطوط آتے تھے ان لمحات میں کھو سا گیا تھا۔
ہمارے بچپن میں عموما دادا جان مرحوم ، تایا جان مرحوم اور نانا جان مرحوم وغیرہ اکثر حال احوال کے لیے خط لکھا کرتے تھے۔ اس خط کا سب کو انتظار ہوتا ہے اور جب ڈاکیا یہ خط گھر دے جاتا تو ہم سب اکٹھے ہوجاتے والد محترم کے ارد گرد دائرہ بن جاتا تھا ، نظریں خط کے لفافہ پر اور کان والد محترم کی آواز کی جانب متوجہ ہوتے تھے۔ سب کے سب ایسے خاموش بیٹھ جاتے تھے جیسے کوئی یہاں موجود ہی نہ ہو ، اور جب والد محترم خط کے مندرجات پڑھتے تو سب کے چہروں پر خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ خط نہیں بلکہ ایک داستان ہوتی ہے سب کی خیرو عافیت کے ساتھ ساتھ حال احوال بھی درج ہوتے تھے۔ کبھی کبھار خط اتنا جزباتی ہوتا تھا کہ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہمارے بڑے ہمارے سامنے بیٹھ کر بات کررہے ہوں۔ خط کے بعد گھر میں ایک عجیب سی خوشی ، آنکھوں میں چمک ، لہجہ میں عجیب سی محبت ، اخوت ، جزبات کا احساس ہوتا تھا۔ وہ خط نہیں بلکہ اس میں پورا ایک جہان بسا ہوتا تھا۔ بعض اوقات جو خط پوسٹ کرنے آتا تھا اگر وہ کچھ نہ لکھ پاتا تو خط کے ڈاک لفافہ کے اوپر جہاں پتہ لکھتا تھا وہیں ساتھ چھوٹا سا لکھ دیا کرتا تھا کہ فلاں کی طرف سے بھی سلام پہنچے۔
جس دن اس خط کا جواب جاتا اس دن سب اپنی اپنی باتیں لکھتے ، باتیں بتاتے، گاؤں کی یادیں تازہ کی جاتی تھیں الغرض اس خط و کتابت میں دنیا وما فیھا کا پیار ہوتا تھا جو دلوں کو آپس میں جوڑ دیتا تھا۔
یہ خط پیار بھی جتاتا،آنکھوں میں آنسو بھی لاتا ، گاؤں کی یاد بھی دلاتا ، اپنوں سے دوری کا غم بھی دیتا ، چاہتیں ، محبتیں بھی بانٹتا اور اپنے اندر ایک دنیا سمو کر ایک جگہ سے دوسری جانب کوچ کرجاتا اور وہی احساس ، پیار ،لاج ،دلار جو اس طرف ہوتا اسے اس طرف بھی بانٹا تھا۔
ان حسین یادوں میں گم سم بیٹھا تھا اور ان یادوں کو مزید دماغ سے کریدتا کہ باہر سے کسی نے آواز لگائی اور یہ تسلسل ٹوٹا تو معلوم ہوا کہ ہم کتاب بینی کرتے کرتے خط کی محبت بھری یادوں میں کھو چکے تھے۔
کیا آپ کو کبھی کسی نے خط لکھا؟
Last edited: