حضرت مولانامحمودحسنی ندویؒ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامحمودحسنی ندویؒ

ناصرالدین مظاہری

زخموں پرمرہم رکھنے والے اس دنیامیں شایدوبایدہیں لیکن نمک پاشی کرنے والے تھوک کے بھاؤ ملتے ہیں،مثبت فکراورسوچ کے حاملین کوچراغ لے کرتلاش کرناپڑتاہے لیکن منفی سوچ رکھنے والے آپ کے گردونواح میں،آپ کے آزوبازومیں آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے بلکہ اب تواوپرنیچے ہرجگہ مل جائیں گے،ابغض البلادکوابغض البلادکیوں کہاگیا؟اس کی تشریح تو محدثین سے پوچھیں ہم نے جوجانا ہے وہ یہی ہے کہ بازار ہرقسم کے کاروبار،ہرقسم کے روزگار، ہرقسم کی شیطانیوں ،ہرقسم کی خرافاتوں ہرقسم کی ذہنیتوں کے آماجگاہ ہوتے ہیں جہاں بے پردگی سے لے کربردہ فروشی تک،حرام خوری سے لے کرحرام کاری تک ہرچیزہوتی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اسی لئے ابغض البلادکے مقابلے میں احب البلادکولایاگیااورہمیں بتلایاگیاکہ اگرتمہیں کہیں سکون مل سکتاہے تومساجدمیں ،اللہ اللہ کرنے والوں کے جلواورپہلوہیں ،نیکوں اور نیکوکاروں کی صحبتیںہیں ،ان ہی اللہ والوں میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کودیکھ کرخدایاد آجاتا ہے کیونکہ وہ ہردم خداکوہی تویاد کرتے ہیں ،خداکی بات کرتے ہیں، خداکے پاس سے آنے والوں اورخداکے پاس جانے والوں کاذکرہوتاہے ،یہ لوگ وہ کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے رحمت الٰہی کانزول ہوتاہے،کرم الٰہی کی بارشیں برستی ہیں،ذکرکی توفیق ملتی ہے، رحمت الٰہی کاشمول ہوتاہے،ایک پرکیف موسم ہوتاہے ۔جہاں دلوں کی کدورت دورہوجاتی ہے،جہاں ذہنوں کی کثافت ختم ہوجاتی ہے ،جہاں صرف اورصرف یادخدا اورفریادخداکابول بالاہوتاہے ۔اب ایسی ہستیاں اورایسی بستیاں ایک ایک کرکے ختم ہوتی جارہی ہیں،کل تک جن جگہوں پرالااللہ الااللہ کی ضربیں مسموع ہورہی تھیں آج وہاں پربلندوبالاعمارتیں جگمگ کررہی ہیں ،کل تک جہاں کے پتے پتے ذکرالٰہی میں مشغول نظرآتے تھے آج وہاں سجادگی اورجانشینی کی جنگیں جاری ہیں،کل تک جہاں آہ کی حکمرانی تھی آج وہاں واہ کی جلوہ فرمائی ہے۔ہائے ہائے رند لکھنوی آپ کے بھی جواب نہیں :

آ عندلیب !مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

ابھی توہماری آنکھوں میں عارف باللہ حضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسین سنسارپوریؒ کی جدائی کی نمی باقی تھی ،ابھی توہمارے سینوں میں حضرات کی جدائی کی کسک باقی تھی ،ابھی توحضرت کی رحلت اورحادثے پرہم صحیح معنی میں سنبھلے بھی نہیں تھے کہ صبح صبح اطلاع دینے والوں نے بڑی سادگی کے ساتھ اطلاع دیدی کہ ’’حضرت مولانا محمودحسن حسنی ندوی فوت ہوگئے‘‘۔اناللہ واناالیہ الیہ راجعون

تعمیرحیات کی ویب سائٹ پرمولاناسیدمحمودحسن حسنی ندوی کے بارے میں یہ معلومات درج ہیں:

’’سید محمود حسن حسنی ندوی لکھنؤ میں ۲۸؍ جمادی الاولی ۱۳۹۱ھ مطابق ۲۲؍جولائی ۱۹۷۱ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ندوۃ العلماء کے ایک مکتب میں حاصل کی، ابتدائی عربی درجات کی تعلیم مدرسہ ضیاء العلوم، رائے بریلی میں حاصل کرنے کے بعد ثانویہ اور عالمیت کی تکمیل دار العلوم، ندوۃ العلماء سے کی۔ حدیث شریف کا دو سالہ کورس ۱۴۱۲ھ ؍ ۱۹۹۲ء میں کیااور پھر المعہد العالی للدعوۃ و الفکر الاسلامی کا ایک سالہ کورس کرکے مدرسہ ضیاء العلوم سے تدریس کا آغاز کیااور دارِ عرفات، رائے بریلی میں تصنیف و تحقیق سے وابستگی اختیار کی۔ ۲۰۰۱ء سے معاون ایڈیٹر کے طور پر پھر کچھ عرصہ بعد نائب مدیر کے طور پرتعمیرِ حیات سے وابستہ ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں تاریخِ اصلاح و تربیت اور کئی دینی، علمی، دعوتی اور اصلاحی شخصیات کے تذکرے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ماہنامہ ‘‘رضوان’’ لکھنؤ کے معاون مدیر اور دارِ عرفات، رائے بریلی کے ترجمان ’’پیامِ عرفات‘‘ کی مجلسِ ادارت کے رکن ہیں‘‘۔

یہ توبنیادی معلومات بطورپروفائل تعمیرحیات نے اپنی ویب سائٹ پرشامل وشئیرکی ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ مولاناسیدمحمودحسن حسنی ندویؒ کے اندربڑے کمالات تھے ،بڑے جمالات تھے ،ان کادماغ بڑا حاضر اوران کاقلم بڑا سیال تھا،ان کے قلم سے بے شمارکتابیں نکل کر دادتحسین وصول کرچکی ہیں،وہ مفکراسلام حضرت مولاناسیدعلی میاں ندویؒ کے چہیتے تھے ،حضرت مولاناسیدعلی میاں ندویؒ کی کتابوں ،مضامین اورمقالات وسفرناموں کی تفصیلات ان کے ذہن میں گردش کرتی رہتی تھیں وہ چاہتے تھے کہ حضرت مولاناعلی میاں ندویؒ نے اپنی کتابوں اورتحریروں میں اپنے جن عزائم اورارادوں کااظہارکیاہے ان کے بعدوالے ان نقوش پاکی تلاش اورجستجومیں مصروف ہوں اورحضرت کے ارادوں کوعملی شکل دے کرایک عظیم مربی،عظیم مفکر،عظیم داعی اورعظیم استاذومصنف کی روح کومسرورکریں۔یہی مولانامحمودحسنی کاگویامشن تھااوربہت سے نئے فارغین کواس کام پرلگایابھی اوربہت سی کتابیں مولاناکے ذیرسایہ منظرعام پربھی آئیں اورعلمی دنیانے ان کتابوں کوآنکھوں سے لگایابھی۔

تری زلف اور سنور گئی ، ترا حسن اور نکھر گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا

تکیہ رائے بریلی کے خانوادۂ حسنی سادات میں جواں سال اموات کاسلسلہ کوئی نیانہیں ہے ایک فہرست ہے جواس سانحہ سے گزری ہے چنانچہ
حضرت مولانا سید محمد الحسنی:وفات ۱۳؍جون ۱۹۹۷ء بعمر ۴۴ سال )۔ مولانا سید محمد ثانی حسنی ( وفات 16 /فروری 1982 )۔ مولانا سید عبد اللہ حسنی ندوی(وفات: 30 جنوری،2013ء )۔ مولانا سید محمد حمزہ حسنی ندوی(وفات2021)اوراب مولانا سیدمحمود حسن حسنی (ولادت:۲۸؍ جمادی الاولی ۱۳۹۱ھ مطابق ۲۲؍جولائی ۱۹۷۱ء ۔وفات ۱۲؍اگست ۲۰۲۲یوم جمعہ)انتقال فرماگئے۔

مولاناسیدمحمودحسن حسنی ندویؒ اپنے پورے خانواوہ کے لاڈلے اورچہتے تھے اورکم عمرنوجوانوں میں مولانامحمودحسنی سب سے زیادہ کتابوں اوررسالوں کے مصنف اورمرتب بھی ہیں۔آپ خوب لکھتے تھے اوربہت اچھالکھتے تھے ،لکھنے کی انھیں دُھن تھی کیونکہ ان کے پاس ان کے بڑوں کادَھن تھا،وہ عام طورپرشخصیات کے بارے میں بہت اچھالکھتے تھے چنانچہ حضرت مولاناشاہ ابرارالحق حقی ،حضرت مولانازبیرالحسن کاندھلویؒ،حضرت مولاناشیخ محمدیونس جونپوریؒ اوردیگربہت سی شخصیات پران کے قلم سے جوسوانح حیات نکلی ہیں وہ ان شاء اللہ تاقیامت آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنیں گی اوران شائ اللہ ان بزرگوں اور اسلاف سے تعلق اورمحبت کی وجہ سے حدیث شریف کی روشنی میں امیدقوی ہے کہ ان ہی اسلاف کے ساتھ محشورہوں گے۔

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

مجھے پتہ نہیں ہے کہ میری پہلی ملاقات کب اورکہاں ہوئی لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ مجھ سے اورمیں ان سے قرطاس وقلم کے ذریعہ ہی متعارف ہوئے ،سہارنپورہو،یا لکھنؤ اوریاپھرتکیہ رائے بریلی ،کبھی میراذاتی سفررہاہویا مدرسہ کے تعلق سے کسی پروگرام میں جاناہواہو اوریا مولانا خودہی کبھی حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندویؒ کے ساتھ آئے ہوں یاحضرت مولاناعبداللہ حسنیؒ کے ساتھ، جب بھی ملے تپاک سے ملے،جہاں ملے خوش اخلاقی اورخندہ پیشانی سے ملے،ان سے ملنے کے بعدہربارضمیرکہتاتھاکہ ایسی ہوتی ہے اولادرسول،مروت،محبت،تعلق،انسیت،تبسم برلب،مسرت کی لکیریں برجبین،ہرملاقات میں کچھ نہ کچھ تبادلہ خیال ہوجاتاتھاکہ میں کیالکھ رہاہوں وہ کیالکھ رہے ہیں،کون کیسالکھ رہاہے،سچی بات تویہ ہے کہ ندوۃ میں یوں توبے شمارچھوٹے بڑے اساتذہ وذمہ داران مجھ سے واقف ہیں لیکن دل کوجوخوشی اوراپنائیت کاجوماحول مولانامحمودحسن حسنی ندوی اورمولاناعبدالسلام خطیب بھٹکلی سے مل کرہوتاتھاافسوس کہ اب مولانا عبدالسلام خطیب اکیلے رہ گئے ہیں۔ندوۃ العلماجانے کی نوبت کافی کافی دن بعدآتی ہے لیکن جب بھی گیااِن دونوں سے ملاقات کئے بغیرنہیں آیا۔

میری آخری ملاقات بھی چندسال پہلے ہوئی تھی جب حضرت مولانا محمدیونس جونپوریؒ کے بارے میں مضامین ومقالات کی خواہش اور فرمائش لے کرحاضر ہواتھا، مولانا سیدمحمودحسن حسنی ندویؒ میرے لئے حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی مدظلہ سے ملاقات کاذریعہ اورزینہ بھی بن جاتے تھے ورنہ بڑوں کے یہاں کس قدراصول اورضابطے،اوقات ملاقات کی بندشیں ہوتی ہیں سبھی واقف ہیں۔

شایدبقرہ عید بعد مولاناسے فون پربات چیت ہوئی میری کتاب ’’یہ تھے اکابرمظاہر‘‘ان کی خدمت میں پہنچ چکی تھی ،دوران گفتگوبہت ہی مسرتوں کااطہارکیااورکہاکہ یہ سلسلہ بہت وقیع ہے اس کوجاری رکھئے اس میں جدت بھی ہے ندرت بھی ہے اورکم وقت میں بہت سی معلومات اوربہت سے مستندواقعات کاعلم بھی ہوجاتاہے۔

افسوس کہ میں اپنے ایک مخلص دوست سے محروم ہوگیا ،حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی مدظلہ کے اوپرکیا بیت رہی ہوگی جب ہم جیسے دوروالوں کایہ حال ہے ،فطری بات ہے بڑھاپے میں ہرشخص اپنے چھوٹوں کواپنادست وبازو سمجھتا ہے ،حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی نے مولانا سید محمد ثانی حسنی ؒکواپنا شریک کارسمجھاافسوس کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے پاس بلالیا،اپنے چھوٹے بھائی حضرت مولاناواضح رشید ندوی ؒمیں ندوۃ العلماکامستقبل دیکھنا چاہا اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلالیا، حضرت مولانامحمدالحسنی ندویؒ سے کچھ دل کوسکون اورآنکھوں کوٹھنڈک مل رہی تھی انھیں بھی بلالیاگیا،حضرت مولاناعبداللہ حسنیؒ کی شکل میں ایک فعال ومتحرک داعی ومدرس اورمصنف ان کے درمیان تھاآہ وہ بھی چل بسے،حضرت مولانامحمدحمزہ حسنی ندویؒ تھے اوراب ان کی جولان اوراٹھان شروع ہوئی تھی کہ ان کابھی بلاوا آگیا۔اب تمام ترتوجہات حضرت مولانامحمودحسن حسنی ندویؒ پرمرکوز تھیں ،بے شک مولانااپنے پیش روؤں میں سے کسی کی برابری نہیں کرسکتے تھے ،نہ درس میں ،نہ مواعظ اوربیانات میں،نہ کارہائے دعوت وارشادمیں ،نہ انتظامی امورمیں ،البتہ تحریرکے معاملہ میں شایدبعض پیش روؤں سے آگے نکل گئے تھے، پوری ندوی برادری کے آپ منظور نظر،محبوب نظرتھے ،سب ہی طلبہ اورفارغین کوآپ کی ذات سے کسی نہ کسی طرح بلاواسطہ یابالواسطہ فیض پہنچ رہاتھاافسوس کہ یہ متاع بیش بہابھی ہم سے لے لی گئی۔

۱۹۹۵ سے کلمہؒ ترجیع اناللہ واناالیہ راجعون اتنی بار پڑھاہے ،اتنی بارپڑھاہے کہ اب زبان عادی سی محسوس ہوتی ہے ،ہردن مسرتیں اورشادمانیاں کم کلفتیں اورکرب وقلق کی خبریں زیادہ لے کرآتا ہے ،کتنی ہستیاں دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئیں کہ اب ان کاشماربھی مشکل لگتا ہے۔آنکھوں کی اشکباری،آستین کی نمی اورہچکیوں ،سسکیوں کی کسک ختم نہیں ہونے پاتی ہے ۔ جیناکس کو ہے صرف اللہ کو،مرناکس کوہے تمام مخلوق کو،بس یہی سوچ کردل کوسکون ہے کہ الحمدللہ ہمارا رب اورہمارا خالق ومالک ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا۔باقی توسبھی کومرناہے کوئی بھی نہیں بچنے والاہے۔ہرایک اپناوقت مستعار پوراکرکے چلتابنے گا۔کیونکہ یہی ہمارے خالق ومالک کی مرضی ہے اورہم سب اسی کی مرضی کے تابع ہیں۔

حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی مدظلہ اِن پے درپے حادثات اوربار باراپنے چھوٹوں کی جدائی اور ان کوکاندھادینے پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویادکرتے ہوں گے جن کے سامنے ان کے تمام صاحب زادگان اورکئی بیٹیاں رخصت ہوگئیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رضامیں راضی رہے۔

ہمارے لئے بہترین اسوہ اورنمونہ ہمارے نبی کی ذات بابرکات ہے ہم بھی صبرکرتے ہیں اورصبر میںہی ہمارے لئےبھلائیاں مقدرہیں۔
 
Top