بنیادکا پتھر

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

بنیادکا پتھر

ناصرالدین مظاہری
۱۲؍محرم الحرام ۱۴۴۴ھ

کہاوت مشہورہے ’’دنیاچڑھتے سورج کی پوجاکرتی ہے‘‘۔آپ نے بھی دیکھاہوگا کہ شاگرداپنے آپ کواپنے بڑے استاذ یا شیخ ومرشدکے نام سے منسوب کرتاہے،فارغین اپنے مکتب کاذکرنہیں کرتے بلکہ اپنے اُس ادارے کا ذکرکرتے ہیں جہاں سے اُسے ڈگری ملی ہے،کاملین اپنی یونیورسٹیوں کاذکر کرتے ہیں،ڈاکٹر، انجینئر،پروفیسر ہرجگہ اسی طرز اور رَوش کامشاہدہ ہوتاہے لیکن اللہ تعالی نے جب مجھ سے’’یہ تھے اکابرمظاہر ‘‘نامی کتاب لکھوائی تواس کا انتساب میں نے اپنے شیخ ومرشد کی طرف نہیں کیا،بخاری شریف کے استاذ کی طرف نہیں کیا،اپنے والدین کی طرف بھی نہیں کیاکیونکہ مجھے تسلیم ہے کہ بے شک میرے شیخ نے مجھے ذکراللہ کی لائین پرلاکھڑا کیاہے،مجھے یہ حق بات قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں کہ میرے بخاری اورترمذی دونوں کے استاذ نہایت عظیم اوربے انتہامشفق تھے ،اُن کاحق تھاکہ میں اُن کے نام نامی اسم گرامی سے اپنی کتاب کومنسوب کرتالیکن اِس انتساب سے نہ تواُن سورج جیسے چمکتے ستاروں اورسیاروں کی شہرت میں اضافہ ہوتانہ مقبولیت اورمحبوبیت میں کوئی زیادتی ہوتی، دوسرا پہلو اور بھی اہم ہے میں اپنے بڑے اساتذہ میں سے کسی ایک ہی استاذ کا ذکر کرسکتا تھا دوسرے سارے اساتذہ کورنج ہوسکتا تھا،وہ یہ سوچنے میں حق بجانب تھے کہ میرے نام سےانتساب کیوں نہیں کیا۔اِن سب پہلوؤں کومدنظررکھیں اورتھوڑی دیر کے لئے اپنے بچپن میں پہنچیں جب آپ کی آستینیں آپ کی رینٹ سے سنی ہوئی ہوتی تھیں،جب آپ کے گندے کپڑے آپ کے قلم دوات،روشنائی اورلکڑی کی تختی کی سیاہی سے مزیدگندے ہوچکے ہوتے تھے ایسی حالت اورکیفیت میں آپ کے بڑے اساتذہ ممکن ہے آپ کوقریب بھی نہ پھٹکنے دیتے لیکن ایک ہستی ایسی بھی ہے جس کوآپ کے گندے کپڑوں سے زیادہ آپ کے بہترمستقبل کافکرہے ، آپ ننھے بچے ہیں،کہیں ناک بہہ جاتی ہے کبھی تھوک نکل پڑتاہے،کہیں بدن پرمٹی لگی ہوتی ہے اورکہیں کالک پُتی ہوئی ہے لیکن آپ کاوہ استاذ جس کاآپ عزت سے نام بھی لینانہیں جانتے تھے کوئی حافظ جی کہتاہے ،کوئی مولبی صاحب کہتا ہے، کوئی مولاناصاحب کہکر پکارتاہے اور وہ سب کی سنتے تھے، سب کی مانتے تھے،ایک ساتھ سب پر نظر رکھتے تھے ،کس نے سبق سنایاہے کس نے نہیں ،کس نے کھانا کھایا ہے کس نے نہیں ،کس نے منہ دھویاہے کس نے نہیں ،کس نے پاجاما گندہ کرلیاہے اورکس طرح اس کوصاف کرایاجائے گا،سچ کہوں توم کتب کااستاذکسی ماں سے کم نہیں ہوتا،ماں بھی صرف اپنے بچوں کاخیال رکھتی ہے دوسرے بچوں کوہاتھ بھی لگانا اپنی انا،اپنے مزاج اور اپنی ہستی وحیثیت کے خلاف سمجھتی ہے لیکن قربان میری جان مکتب کے استاذ پر!جنھوں نے یہ سب مرحلے اپنے آپ پرجبرکرکے، صبرکرکے برداشت کئے اورایک بچہ کواتنا سکھایااتناپڑھایاکہ وہی بچہ جس کومکتب میں عین غین،خاء ،ذال راء،ظا وغیرہ کامخرج پہاڑمحسوس ہوتا تھالیکن کس قدراستاذنے بچے سے حروف حلقی نکلوانے کے لئے اپنے حلق کوقربان کیاہے ،کس قدرتحمل سے کام لیاہے ،کیسے صبراورعزیمت کے پہاڑثابت ہوتے ہیں یہ مکتب کے استاذ،توپھرکیوں نہ میں اپنی کتاب کاانتساب اپنے اُن ہی استاذکے نام نامی اسم گرامی سے کروں ،جن کودنیاجان بوجھ کر درگزر کردیتی ہے ،جن کی خدمات کاہمیں احساس ہی نہیں ہوتاہے ،جواپنے شاگردکی ترقی،اس کی شہرت اوراس کی کامیابی کودیکھ دیکھ کردل ہی دل میں بسترعلالت پرلیٹے لیٹے دعائے خیرکرتے ہیں، اپنے دل کوخوش کرتے ہیں ۔یہ شاگرد کی کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایسے خوشی کے موقع پر بنیادکے اس پتھرکوفراموش کردے۔

واللہ! میرے ضمیرنے کہاکہ ناصر!کمال عمارت کی چھتوں کانہیں، دیواروں کانہیں کمال توننھے ننھے انیٹ کے ٹکڑوں،ریزوں،سنگریزوں کاہے جوبنیاد میں سب سے نیچے دبے ہوئے ہیں اورہنسی خوشی پوری عمارت اوراس کے بوجھ کواپنے اوپر لادے ہوئے ہیں۔

سنوسنو!!عارفین کاملین میں ایک ہستی گزری ہے جس کانام عارف باللہ حضرت مولانا قاری سیدصدیق احمد باندویؒ ہے ،انہوں نے ایک کتاب لکھی ہےجس کانام ہے آداب المتعلمین،اِس کتاب میں مظاہرعلوم کے ایک استاذاورشاگردکاواقعہ لکھاہے کہ

’’ایک بڑے عالم دین جب یہاں مظاہرعلوم سے فارغ ہوئے تواپنے تمام اساتذہ سے الوداعی ملاقات کی لیکن ایک استاذ جوبالکل ابتدائی تھے اُن سے ملاقات اس لئے نہ کرسکے کیونکہ اس دن استاذ محترم مدرسہ میں تشریف ہی نہیں لائے تھے۔وطن پہنچ کرایک مدرسہ میں انھیں تدریس کاموقع ملا،تدریس میں انھیں وہ کتابیں دی گئیں جوابتدائی استاذمحترم سے پڑھی تھیں،بہترین صلاحیت کے باوجودکچھ بھی پتہ نہیں چل رہاتھاکہ کیالکھاہے اورکیامطلب ہے ،بہت پریشان ہوئے ،اسی عالم پریشانی میں اللہ تعالیٰ نے ان کی یاوری کی،ان کے ضمیرنے کہاکہ ضرور استاذ ناراض ہیں ،فوری طورپرایک خط لکھاجس میں روانگی کے وقت کی پوری کیفیت اورداستان لکھی یہ بھی لکھاکہ میں نے حضرت سے جوکتابیں بڑی محنت سے پڑھی تھیں وہی یہاں پڑھانے کوملی ہیں لیکن کوئی کتاب اورکوئی سبق میرے پلے نہیں پڑرہا ہے ،میراضمیرکہتاہے کہ حضرت والا میری الوداعی ملاقات نہ ہوسکنے پر ناراض ہیں ،حضرت مجھے معاف فرمادیں میں ضرورملاقات کرتااگر آنجناب مدرسہ میں ہوتے ،چونکہ میری روانگی کاوقت تھااورآنجناب مدرسہ میں تشریف نہیں رکھتے تھے اس لئے ملاقات سے محروم رہاجس کامجھے قلق ہے‘‘۔

استاذ محترم نے خط کا جواب دیاکہ عزیزم !میں واقعی ناراض تھاکہ تم نے مجھے چھوٹااستاذسمجھ کرملاقات ضروری نہیں سمجھی ،اب تمہارے عریضہ سے بات صاف ہوگئی ہے، میرادل صاف ہوگیاہے اب درسگاہ جاؤ ،سبق پڑھاؤ ان شاء اللہ ساری باتیں اورکتابیں سمجھ میں آتی چلی جائیں گی ۔چنانچہ ایساہی ہوا۔

عزیزمن !پھرکہتاہوں فضیلت چھت کی نہیں فضیلت بنیادکوحاصل ہے۔چھتیں کمزورہوتی رہتی ہیں ،ان کی مرمت ہوتی رہتی ہے لیکن بنیادیں اپنی اصل پرہمیشہ قائم اورمستقیم رہتی ہیں ۔ان بنیادکے پتھروں کی قدرکیجئے ۔

میں اپنے ضمیرکاشکرگزار ہوں کہ میں نے اپنی کتاب کاانتساب اپنے سب سے پہلے استاذکے اسم مبارک سے کیاہے اوریہی کتاب لے کر جب استاذ محترم کی خدمت میں پیش کی تو ان کی آنکھوں سے نکلنے والے خوشی کے انمول آنسوؤں کی قیمت کانہ میں اندازہ لگا سکا نہ آپ اندازہ لگاسکیں گے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
عزیزمن !پھرکہتاہوں فضیلت چھت کی نہیں فضیلت بنیادکوحاصل ہے۔چھتیں کمزورہوتی رہتی ہیں ،ان کی مرمت ہوتی رہتی ہے لیکن بنیادیں اپنی اصل پرہمیشہ قائم اورمستقیم رہتی ہیں ۔ان بنیادکے پتھروں کی قدرکیجئے ۔
بے شک ۔مفتی صاحب بجا فرمایا
 
Top