کھٹی میٹھی باتیں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کھٹی میٹھی باتیں
ناصرالدین مظاہری
ٹرین کاسفرعموماً تجربات اورمشاہدات سے پُرہوتاہے،یہاں ہرمذہب،ہرمسلک،ہرقوم،ہرعلاقہ کے لوگ ایک چھت کے نیچے جمع ہوجاتے ہیں،بول چال،نشست وبرخاست،لب ولہجہ،اندازفکر،اطواروعادات اورکرداروگفتارہرچیزسے سابقہ اورواسطہ آپ کوٹرین کے سفرمیں ہوجاتاہے،لوگ کیسے ہیں،ساتھی کیساہے،اس کاکردارکیساہے،گفتارکیسی ہے،معاملات کیسے ہیں ،ہوشیاری اوردانائی میں طاق ہے یامحض ڈھول میں پول ہے ساری چیزیں آپ کوسفرمیں معلوم ہوجاتی ہیں۔گویاسفرایک ایسی درسگاہ ہے جہاں تجربات کی ایک دنیا،مشاہدات کاایک عالم،کسوٹی کی ایک کہکشاں موجودہے ،ان کہکشاؤں میں آپ کونظریاتی اختلافات کے باجودشرافت اورانسانیت کے کچھ ایسے ’’پتلے‘‘ مل جائیں گے جن کارویہ اورلہجہ آپ کے لئے ناقابل فراموش ہوگا۔کچھ ایسی ’’ہستیاں‘‘ بھی مل سکتی ہیں جن کا’’رویہ‘‘ اور’’لہجہ ‘‘آپ کے لئے ’’ناقابل فراموش‘‘ ہوگا۔
مجھے اب تک کسی سفرمیں کوئی ایساشخص نہیں ملاجس سے دوران سفرکچھ تلخی ہوگئی ہو،بلکہ الحمدللہ ہمیشہ ایسے لوگ ملے جنھوں نے میری گفتگومیں دلچسپی لی،میرے خیالات کوبگوش ہوش سنا،میری باتوں کی تائیدوحمایت کی،مجھ سے قریب لگنے کی کوشش کی اورمیری روانگی اورعلاحدگی کے وقت ان کو’’جدائی‘‘کااحساس ہوا۔کبھی کبھی تومیرے کیبن میں دوسرے کیبن کے لوگ گھس آئے ،دلچسپی سے باتیں سنتے رہے اورمزے لیتے رہے ۔
اصل میں آپ اپنے گردوپیش کواپنے اخلاق اورشیریں مقالی سے اپنے مطابق ڈھال سکتے ہیں ،آپ چاہیں توآپ نفرت کے ماحول کومحبتوں سے بدل سکتے ہیں،آپ کی اپنی شخصیت اورآپ کے اپنے میٹھے بول پرکوچ اوربس کے اندرکاماحول معلق ہے۔
ایک دن دیوبندتلہیڑی چنگی سے رات کودس بجے سہارنپورآناتھا،اس زمانے میں اتنی شاندارسڑک کاتصوربھی نہیں تھا،کافی دیرتک بس نہیں آئی ،اچانک پولیس کی ایک گاڑی میرے قریب آکرکھڑی ہوگئی،فرنٹ سیٹ پربیٹھے افسرنے بڑی ملائمت اورنرمی سے پوچھاکہ مولوی جی !کہاں جاؤگے؟میں نے اسی لہجے میں جواب دیاکہ سرجاناتوسہارنپورہے لیکن آپ کے ساتھ بالکل جانانہیں چاہتا،مسکرائے اور بولے کہ کیوں ہمارے ساتھ نہ جانے کی وجہ کیاہے؟میں نے کہاسردوباتیں ہیں نمبرایک تویہ کہ آپ کے ماتحت جہاں جہاں ملیں گے وہ آپ کی گاڑی میں مجھے دیکھ کرعجیب محسوس کریں گے اسی طرح لوگ میرے بارے میں بھی گمان کرسکتے ہیں کہ میں ماخوذہوں۔اس افسرکاجواب سننے کے لائق تھا،بولے کہ مولوی جی!جن کادامن صاف ہوتاہے وہ ایسی باتیں نہیں سوچاکرتے آپ بے تکلف ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں ،کوئی کیاسوچ رہاہے اس سوچ کی ابتداآپ اپنے سے نہ کریں دوسرے کریں توکرنے دیں ۔
مجھے اس افسرکی اس بات نے بہت متأثرکیا،ہمارابڑاطبقہ اسی سوچ کی وجہ سے کچھ نہیں کرپاتاہے کہ وہ ہمیشہ یہی سوچتارہتاہے کہ
کوئی کیاسوچے گا۔سادہ سی بات ہے جب آپ کے بچے بھوک سے بلبلارہے تھے کیاکسی نے آپ کے بارے میں کچھ سوچا،جب آپ لمبے عرصہ تک بسترعلالت پردرازتھے کیاکسی نے کچھ سوچا،کسی کوملنے اورملاقات کے لئے آپ کے پاس آنے کی توفیق ہوئی،کسی نے آپ سے کہاکہ علاج ومعالجہ میں روپے پیسے زیادہ خرچ ہوتے ہیں جب بھی ضرورت ہوتوبے تکلف لے لینا۔کیاکبھی کسی نے بغیرکسی ذاتی ضرورت کے آپ کوخط یاٹیلی فون کیاکہ مزاج کیساہے؟حقیقت یہ ہے کہ دنیامیں بہی خواہ بہت کم ہیں ،خیرخواہوں کی قلت ہی نہیں گویاقحط پڑگیاہے،انسان اپنی ضرورت کے لئے آپ سے تعلق ومحبت رکھتاہے ،اسے اپنی تعریف پسندہے ،ہرملاقات پرآپ کی نہیں اپنی سنانی چاہتاہے،کبھی آپ نے سوچاکہ سفرکے دوران آپ ہی روپے پیسے خرچ کررہے ہیں اورآپ کاساتھی خرچ کے ہرموقع پرآناکانی کرجاتاہے۔کبھی غورکیاکہ آپ کاساتھی سفرکے دوران آپ کاکتناخیال رکھتاہے یاآپ ہی اس کی محبت میں ادھ موے ہوئے جاتے ہیں۔
حکومت کایہ طبقہ ہی اصل میں حکومت کرتاہے ،اس کی تعلیم،اس کامزاج،اس کے بول چال کاانداز،اس کالہجہ بڑا شیریں اوردل کوموہ
لینے والاہوتاہے،تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں اورتربیت یافتہ بھی ہوتے ،چنانچہ لگے ہاتھوں ایک اورواقعہ بتاتاچلوں:
ایک دن دارالعلوم دیوبندمیں اعظمی طلبہ کی انجمن کااختتامی پروگرام تھا، سہارنپورعدالت کے ایک مسلم جج مجھ سے واقف تھے،مجھ کومطلع کیاکہ دیوبندچلناہے ،کرائے کی گاڑی میں دیوبندکے لئے روانہ ہوئے ،راستہ میں ایک جگہ ریلوے کراسنگ پرپولیس چیکنگ کررہی تھی،ڈرائیوربولاکہ میراڈرائیونگ لائسنس توگھرپرہی رہ گیاہے ،جج صاحب نے کہاکہ کوئی بات نہیں ہے پولیس والے کومیری طرف بھیج دینا،پولیس والاجب کاغذات طلب کرنے کے لئے ہماری گاڑی تک پہنچاتوجج صاحب نے شیشہ گرایااورکچھ ایسے اندازمیں اس سے بات کی کہ اس نے سب سے پہلے سلیوٹ مارااورجلدی سے جانے کے لئے راستہ بھی دے دیا۔حالانکہ جج صاحب نے نہ اپناتعارف کرایا،نہ اپناعہدہ بتایا،نہ ہی کاغذکی کوئی بات کی۔مجھے بڑا تعجب ہواکہ یہ چمتکارکیسے ہوا؟کہاکہ ہمیں بڑی ٹریننگ سے گزرناہوتاہے ۔اب بھی دنیاکے اکثرلوگ کتابوں سے اتناحاصل نہیں کرتے جتناانھیں تجربات سے حاصل ہوتاہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
ان من خیارکم احسانکم اخلاقا(تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں)۔(بخاری و مسلم )
ہم نے حسن اخلاق کوہی اپنے سے دورکردیاہے،آپ اپنے کسی بھی دوست سے ذرا سی تلخ یاحق بات کرکے دیکھ لیجئے وہ بولناتوچھوڑے گاہی ،پیٹھ کے پیچھے آپ کی برائیاں بھی شروع کردے گا،سچ اورحق بات برداشت کرنے والے ایسے ہی کم یاختم ہوگئے جیسے ایماندارلیڈر،سچاتاجر،مخلص دوست اورمتقی وپرہیزگارافراد۔
الناس بااللباس ایک اصول ہے ،کپڑوں کااثرہوتاہے،اچھے سفیدکپڑے اپنی تاثیررکھتے ہیں،رنگین اورگندے کپڑوں کااپنااثر ہوتاہے،آپ اچھے کپڑے پہن کرکہیں بھی چلے جائیں ہرجگہ آپ کوعزت دی جائے گی جب کہ گندے اوررنگ برنگے کپڑے پہن کرکہیں بھی چلے جائیں وہ عزت اوروہ احترام نہیں مل سکتاہے۔اسلام ہمیں اندرسے باہرتک صفائی کاحکم دیتاہے،ہمیں اپنے آپ کواندرونی بیماریوں سے بیرونی بیماریوں تک غوروفکرکی ضرورت ہے،زبان کیسی ہو،گفتگوکے دوران ہمارا چہرہ کیساہو،چلتے وقت ہماری باڈی لینگویج کیسی ہو،تواضع بے شک اچھی چیزہے لیکن یہی تواضع متکبرکے سامنے اس کے گھمنڈکوبڑھادے گااس لئے متکبرسے تواضع کرناغلط ہے،آہستہ بولنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن جہاں شورہووہاں آپ کاآہستہ باتیں کرنامخاطب کوپریشان کردے گا،خلوص اچھی چیزہے لیکن یہی خلوص کسی شاطراورہیراپھیری کرنے والے انسان کے سامنے نہایت غلط ہے۔ہمارے نبی نے زندگی کے ایک ایک لمحہ اورایک ایک درجہ والے سے معاملات کرنے کے لئے اصول اورخطوط طے اورمتعین فرمادئے ہیں ہم نے جب بھی ان اصولوں سے انحراف کیاہے نقصان سے دوچارہوئے ہیں۔
سنوسنو!!
حضرت مولانامفتی محمدشفیع عثمانی ؒکہیں دعوت میں تشریف لے گئے وہاں کرسیوں پربیٹھ کرکھانے کانظام تھا،مفتی صاحب کے بعض ساتھیوں نے اپنے رومال بچھاکرزمین پربیٹھ کرکھانے کاارادہ کیاتوحضرت مفتی صاحب نے منع فرمایااورفرمایاکہ یہاں تمہارے تواضع سے اسلام کی نیک نامی نہیں بدنامی ہوگی ۔
آدمی کے اخلاق اور کردار سے اس کی شخصیت کی پہچان ہوتی ہے ،اپنے وقار اورمعیارکومحفوظ رکھنے کے لئے بہت سے مواقع پربہرا بنناپڑتاہے،اندھابنناپڑتاہے،گونگاہوناضروری ہوتاہے۔ہرجگہ روک ٹوک سے انسان کی امیج ایسی ہوجاتی ہے کہ لوگ اس سے کنارہ کشی اختیارکرنے لگتے ہیں،اس کی باتوں سے بیزاری ہوجاتی ہے،اس کی صحبت سے دوری ہوجاتی ہے،اس سے لوگ بچنے لگتے ہیں اس لئے ہروقت کڑوابن کررہنالوگوں کواپنے فیض سے محروم کردیناہے ۔
مہمان خانہ مظاہرعلوم (وقف) میں ایک دن حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی مدظلہ تشریف لائے ہوئے تھے،میں بھی مجلس میں حاضرتھا،کسی بات پرمیرے منہ سے نکلا’’الحق مر‘‘حضرت نے مسکراکربرجستہ فرمایاکہ یہ تعبیرتواپنی جگہ درست ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی تعبیر’’المرحق ‘‘ہے۔پہلے والے جملہ میں عموم تھاجس کامطلب ہے کہ حق بات کڑوی ہوتی ہے،حضرت والے جملہ کامطلب تھاکہ کڑوی بات ہی حق ہوتی ہے۔
انسانی علاج ومعالجہ کے لئے ماہرین نے جتنی دوائیں ایجادکیں ہیں سب کی سب کڑوی ہیں ،یونانی دوائیں ہوں یاآیورویدک، انگریزی ہوں یاہومیوپیتھک ساری ہی دوائیں کڑوی ہوتی ہیں ،جوزیادہ کڑوی ہوتی ہے کہ ہیئت ایسی بنادی جاتی ہے کہ کڑواہٹ محسوس ہونے سے پہلے معدہ تک پہنچ جائے اورجوکچھ زیادہ ہی کڑوی ہوتی ہے اس پرپلاسٹک کاخول چڑھادیاجاتاہے جس کی وجہ سے تلخی سے زبان محفوظ رہتی ہے۔بچپن میں کبھی مولوی اسماعیل میرٹھی کی اردو کی کتاب میں پڑھاتھااب اس کاصحیح مفہوم سمجھ میں آسکا۔
جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو
فارسی شاعر نے بھی کیاخوب فرمایاہے:
تلخ است زبان دردہن ازتلخی کامم
زنہارکہ پرہیزکن ازطرزکلامم
 
Top