ترانے اور ہمارے مدارس

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!
ترانے اور ہمارے مدارس
(ناصرالدین مظاہری)

عام نغمہ یا گیت کی ایک خاص قسم کی لے اور سُرکوترانہ کا نام دیا جاتا ہے،ترانے کی تاریخ بہت قدیم ہے،پہلے عام طورپرصرف ملکوں کے ترانے ہواکرتے تھے جن کوحکومت کے حکم پرمرتب کیا جاتا تھا، اس کی دُھن اورلے بنائی جاتی تھی، گلوکا ر ایک خاص ماحول اورتان پرگاتے اور گنگناتے تھے اوراس کوسن کرسامعین پرایک وجدطاری ہوجاتا تھا۔

خودہمارے ملک بھارت کاترانہ علامہ اقبال جیسے قادرالکلام شاعر کاتحریرفرمودہ ہے ،جس کاایک ایک شعراورمصرع حقیقت سے پُراورادب سے مالامال ہے ،بچے جب خاص دھن اورمحبت میں ڈوب کریہ ترانہ پڑھتے ہیں تودل ودماغ متأثرہوئے بغیرنہیں رہتے۔ترانہ یہ ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبليں ہيں اس کی، يہ گلستاں ہمارا
غربت ميں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن ميں
سمجھو وہيں ہميں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا، ہمسايہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
گودی ميں کھيلتی ہيں اس کي ہزاروں ندياں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
اے آب رود گنگا، وہ دن ہيں ياد تجھ کو؟
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مذہب نہيں سکھاتا آپس ميں بير رکھنا
ہندی ہيں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
يونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہيں ہماری
صديوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
اقبال! کوئی محرم اپنا نہيں جہاں ميں
معلوم کيا کسی کو درد نہاں ہمارا

مشہورلکھنوی شاعر اسرار الحق مجازؔنے خداجانے کس عشق میں ڈوب کرمسلم یونیورسٹی علی گڑھ کاترانہ لکھا ہے کہ جو بھی سن لےعجیب کیفیت طاری ہونے لگے۔

علی گڑھ کے ترانے کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں کسی کابھی نام استعمال نہیں ہواہے اس کے باوجود جذبات،عزائم ارادے،ماضی،حال مستقبل سب کچھ اس سلیقہ سے بیان ہواہے کہ شاعرکے کمال اور لیاقت کے گن گائے بغیرنہیں رہ سکتے۔

اسرار الحق مجاز نے 1933 میں ترانہ لکھاتھا، 1955 میں یونیورسٹی کے ہی ایک طالب علم خان اشتیاق محمد نے اس کو کمپوز کیا۔ اس وقت کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹرذاکر حسین اس ترانے سے بہت متاثر ہوئے تھے ۔

مناسب سمجھتاہوں کہ ترانہ ہی پیش کرتاچلوں :

یہ میرا چمن ہےمیرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
سرشارنگاہ نرگس ہوں، پابستہء گیسوئے سنبل ہوں
یہ میرا چمن ہےمیرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
جو طاق حرم میں روشن ہے، وہ شمع یہاں بھی جلتی ہے
اس دشت کے گوشے گوشے سے، اک جوئے حیات ابلتی ہے
یہ دشت جنوں دیوانوں کا، یہ بزم وفا پروانوں کی
یہ شہر طرب رومانوں کا، یہ خلد بریں ارمانوں کی
فطرت نے سکھائی ہے ہم کو، افتاد یہاں پرواز یہاں
گائے ہیں وفا کے گیت یہاں، چھیڑا ہے جنوں کا ساز یہاں
یہ میرا چمن ہےمیرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
اس بزم میں تیغیں کھینچیں ھیں، اس بزم میں ساغر توڑے ہیں
اس بزم میں آنکھ بچھائی ہے، اس بزم میں دل تک جوڑے ہیں
ہر شام ہے شام مصر یہاں، ہر شب ہے شب شیراز یہاں
ہے سارے جہاں کا سوز یہاں، اور سارےجہاں کا ساز یہاں
زرات کا بوسہ لینے کو، سو بار جھکا آکاش یہاں
خود آنکھ سے ہم نے دیکھی ہے، باطل کی شکست فاش یہاں
یہ میرا چمن ہےمیرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
جو ابر یہاں سے اٹھے گا، وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر جوئے رواں پر برسے گا، ہر کوہ گراں پر بارسے گا
ہر سروثمن پر بر سے گا، ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن پر برسے گا
ہر شہر طرب پر گرجے گا، ہر قصر طرب پر کڑکے گا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے، یہ ابر ہمیشہ برسے گا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے، یہ ابر ہمیشہ برسے گا
ترانہ ندوۃ العلما لکھنؤ:
حضرت مولانا محمد ثانی حسنیؒ بڑے پائے کے ادیب تھے، ان کااچھا خاصا شعری مجموعہ اور ذخیرہ موجودہے ،قادرالکلام پختہ گوشاعرتھے،انھوں نے بھی ندوۃ العلماء کاترانہ لکھااور ایسا لکھا کہ اگرآپ کوزبان ہوشمند کا ذائقہ لیناہے توہزار کتابیں لکھنؤ کے باب میں نہ پڑھ کرصرف ایک ترانہ ہی سن لیجئے ،سن لیجئے اس لئے کہہ رہاہوں کہ عموماً ترانے سننے میں ہی زیادہ لطف آتاہے، پڑھنے میں آہی نہیں سکتاہے ،اس ترانے کاہر شعر لطف ولذت اور ادب کی چاشنی لئے ہوئے ہے:

ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن
ہم مست نگاہ ساقی ہیں ہم بادہ کش صہبائے حرم
ہم نغمۂ اہل قلب و زباں ہم ذہن رسائے اہل قلم
ہم عزم جواں ہر لمحہ دواں رکھتے ہیں ہمیشہ آگے قدم
ہم آب گہر ہم نور سحر ہم باد بہاری ابر کرم
ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن
جس بزم کے ہیں ہم تخت نشیں وہ بزم ہے بزم عرفانی
اس بزم کی ہے ہر صبح حسیں ہر شام ہے اس کی نورانی
یہ بزم ہے ہم شاہینوں کی فطرت میں ہے جن کی سلطانی
یہ قلب ونظر کی دنیا ہے ہر نقش ہے اس کا لا فانی
ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن
گنجینۂ فضل رحمانی وہ جس نے بلند اسلام کیا
دانش کدۂ شبلی جس نے پھر ذوق سخن کو عام کیا
وہ بزم سلیمانی جس نے تحقیق نظر کا کام کیا
انفاس علی نے روشن پھر ندوے کا جہاں میں نام کیا
ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن
وہ شمع یہاں پر جلتی ہے جس شمع سے دنیا روشن ہے
وہ پھول یہاں پر کھلتا ہے جس پھول سے گلشن گلشن ہے
یہ اہل وفا کا مرکز ہے یہ اہل صفا کا مخزن ہے
شہباز یہاں پر پلتے ہیں یہ لعل و گہر کا معدن ہے
ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن
یہ اہل جنوں کی بستی ہے یہ اہل خرد کا گہوارہ
ہر چیز یہاں کی شہپارہ ہر فرد یہاں کا سیارہ
یاں نور کی بارش ہوتی ہے یاں علم کا بہتا ہے دھارا
ہر قطرہ یہاں کا موتی ہے ہر ذرہ یہاں کا مہ پارہ
ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن
جو ساز یہاں پر چھڑتا ہے کہتے ہیں حرم کا ساز ہے وہ
سینوں میں ہے جو بھی راز یہاں دراصل حجازی راز ہے وہ
جو گونجتی ہے آواز یہاں جادو سے بھری آواز ہے وہ
جو دل نہ کھنچے اس کی جانب بے سوز ہے وہ بے ساز وہ
ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن
اس بزم کے ہم نے جام پئے اس بزم کے ہم مے خوار بنے
اس بزم میں ہم بیدار ہوئے اس بزم میں ہم ہشیار بنے
اس بزم میں ہم غیور بنے بے باک بنے خوددار بنے
اسلام کے حق میں ڈھال بنے باطل کے لیے تلوار بنے
ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن
اس بزم کی برکت سے بخشا فطرت نے پر پرواز ہمیں
چلتے ہیں ہوا کے دوش پہ ہم کہتا ہے ہر اک شہباز ہمیں
خود بڑھ کے بناتی ہے فطرت ہمراز ہمیں دم ساز ہمیں
اللہ نے اپنے فضل و کرم سے بخشا یہ اعزاز ہمیں
ہم نازش ملک و ملت ہیں ہم سے ہے درخشاں صبح وطن
ہم تابش دیں ہم نور یقیں ہم حسن عمل ہم خلق حسن

جب بات ترانوں کی چل ہی پڑی ہے تولگے ہاتھوں جامعہ ملیہ کو بھی شامل مضمون کئے لیتے ہیں کہ وہ بھی ملت کا قیمتی اثاثہ ہے اورہمارے ہی اکابر کے خوابوں کی حسین وجمیل تعبیرہے اس کی خدمات لازوال ہیں۔ جامعہ کاترانہ مشہورشاعرمحمد خلیق صدیقی کاترتیب دادہ ہے اور خوش الحان شاعر جب جامعہ کے پروگراموں میں یہ ترانہ پڑھتا ہے توکیف طاری ہوجاتا ہے۔

ترانہ جامعہ ملیہ اسلامیہ:

دیار شوق میرا دیار شوق میرا
دیار شوق میرا دیار شوق میرا
ہوئے تھے آکےیہیں خیمہ زن وہ دیوانے
اٹھے تھے سن کے جو آواز رہبران وطن
یہیں سے شوق کی بے ربطیوں کو ربط ملا
اسی نے ہوش کو بخشا جنوں کا پیراہن
یہیں سے لالئہ صحرا کو یہ سراغ ملا
کہ دل کے داغ کو کس طرح رکھتے ہیں روشن
شہر آرزو میرا شہر آرزو میرا
یہ اہل شوق کی بستی یہ سر پھروں کا دیار
یہاں کی صبح نرالی، یہاں کی شام نئی
یہاں کی رسم و رہ مے کشی جدا سب سے
یہاں کے جام نئے، طرح رقص جام نئی
یہاں پہ تشنہ لبی مے کشی کا حاصل ہے
یہ بزم دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی
دیار شوق میرا دیار شوق میرا
یہاں پہ شمع ہدایت ہے صرف اپنا ضمیر
یہاں پہ قبلئہ ایماں کعبہ دل ہے
سفر ہے دین یہاں، کفر ہے قیام یہاں
یہاں پہ راہ روی خود حصول منزل ہے
شناوری کا تقاضہ ہے نو بہ نو طوفاں
کنار موج میں آسودگی ساحل ہے
دیار شوق میرا، شہر آرزو میرا
دارالعلوم دیوبندام المدارس ہے ،دارالعلوم کاترانہ پوری تاریخ کوسمیٹے ہوئے ہے ،اس کے یوں توبہت سے ترانے لکھے اور پڑھے گئے لیکن جو لطف حسان ہندی حضرت مولاناریاست علی ظفربجنوریؒ کے ترانے میں آتاہے وہ کسی اورمیں نہیں آتا،مولاناکا یہ ترانہ پہلے اتنا طویل اورتفصیلی نہیں تھا،وقت وقت پراس میں کچھ اشعاربڑھتے گئے اورآج یہ ترانہ تیس اشعارپرمشتمل ہے اوراب اضافے کابھی امکان نہیں رہا کیونکہ شاعرمحترم بھی ہمارے درمیان نہیں رہے ،اوراگرکوئی بندہ لکھے گاتو مستقل ہی لکھے گااضافہ کرنے سے رہا۔

ترانہٴ دارالعلوم دیوبند:

یہ علم و ہنر کا گہوارہ ، تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے
ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ، ہر سرو یہاں مینارہ ہے
خود ساقیِ کوثرنے رکھی ، میخانے کی بنیاد یہاں
تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی رُوداد یہاں
جو وادیِ فاراں سے اٹھی گونجی ہے وہی تکبیر یہاں
ہستی کے صنم خانوں کے لیے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں
برسا ہے یہاں وہ ابرِکرم اٹھا تھا جو سوئے یثرب سے
اس وادی کا سارا دامن سیراب ہے جوئے یثرب سے
کہسار یہاں دب جاتے ہیں طوفان یہاں رک جاتے ہیں
اس کاخِ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں
ہر بوند ہے جس کی امرت جل، یہ بادل ایسا بادل ہے
سو ساگر جس سے بھر جائیں یہ چھاگل ایسا چھاگل ہے
مہتاب یہاں کے ذرّوں کو ہر رات منانے آتا ہے
خورشید یہاں کے غنچوں کو ہر صبح جگانے آتا ہے
یہ صحنِ چمن ہے برکھارُت، ہر موسم ہے برسات یہاں
گلبانگِ سحر بنجاتی ہے ساون کی اندھیری رات یہاں
اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی
اس بامِ حرم سے گونجی ہے سوبار اذاں آزادی کی
اس وادیٴ گل کا ہر غنچہ ، خورشیدِ جہاں کہلایا ہے
جو رند یہاں سے اٹھا ہے وہ پیرِ مغاں کہلایا ہے
جو شمعِ یقیں روشن ہے یہاں، وہ شمعِ حرم کا پرتو ہے
اس بَزمِ ولیُّ اللّٰہِی میں تنویر نبوّت کی ضو ہے
یہ مجلسِ مے وہ مجلس ہے ، خود فطرت جس کی قاسم ؔہے
اس بزم کا ساقی کیا کہیے جو صبحِ ازل سے قائم ہے
جس وقت کسی یعقوبؔ کی لے، اس گلشن میں بڑھ جاتی ہے
ذرّوں کی ضیا خورشیدِ جہاں کو ایسے میں شرماتی ہے
عابدؔ کے یقیں سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل
آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا اخلاص کا ایسا تاج محل
یہ ایک صنم خانہ ہے جہاں محمودؔ بہت تیار ہوئے
اس خاک کے ذرّے ذرّے سے کس درجہ شرر بیدار ہوئے
ہے عزمِ حسینؔ احمد سے بپا ہنگامہٴ گیر و دار یہاں
شاخوں کی لچک بن جاتی ہے باطل کے لیے تلوار یہاں
رومیؔ کی غزل، رازیؔ کی نظر، غزّالیؔ کی تلقین یہاں
روشن ہے جمالِ انورؔ سے پیمانہٴ فخرالدؔین یہاں
ہر رند ہے ابراہیمؔ یہاں، ہر میکش ہے اعزازؔ یہاں
رِندانِ ہدیٰ پر کُھلتے ہیں تقدیس طلب کے راز یہاں
ہیں کتنے عزیزؔ اس محفل کے انفاسِ حیات افروز ہمیں
اس سازِ معانی کے نغمے، دیتے ہیں یقیں کا سوز ہمیں
طیبہ کی مئے مرغوبؔ یہاں، دیتے ہیں سفالِ ہندی میں
روشن ہے چراغِ نعمانیؔ، اس بزمِ کمالِ ہندی میں
خالقؔ نے یہاں ایک تازہ حرم اس درجہ حسیں بنوایا ہے
دل صاف گواہی دیتا ہے ، یہ خلدِ بریں کا سایہ ہے
اس بزمِ جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے، دیوارِ چمن سے زنداں تک
سوبار سنوارا ہے ہم نے، اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہلِ جنوں بتلائیں گے، کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
جو صبحِ ازل میں گونجی تھی، فطرت کی وہی آواز ہیں ہم
پروردئہ خوشبو غنچے ہیں ، گلشن کے لیے اعجاز ہیں ہم
اُس برقِ تجلّی نے سمجھا ، پروانہٴ شمعِ نور ہمیں
یہ وادیِ ایمن دیتی ہے ، تعلیم کلیمِ طور ہمیں
دریائے طلب ہوجاتاہے، ہر میکش کا پایاب یہاں
ہم تشنہ لبوں نے سیکھے ہیں مے نوشی کے آداب یہاں
بلبل کی دعا جب گلشن میں فطرت کی زباں ہوجاتی ہے
انوارِ حرم کی تابانی ، ہر سَمت عیاں ہوجاتی ہے
امداؔدؔ و رشیدؔ و اشرفؔ کا یہ قلزمِ عرفاں پھیلے گا
یہ شجرئہ طیّبؔ پھیلا ہے تا وسعتِ امکاں پھیلے گا
خورشیدؔ یہ دینِ احمدؔ کا ، عالم کے افق پر چمکے گا
یہ نور ہمیشہ چمکا ہے ، یہ نور برابر چمکے گا
یوں سینہٴ گیتی پر روشن ، اسلاف کا یہ کردار رہے
آنکھوں میں رہیں انوارِ حرم ، سینہ میں دلِ بیدار رہے
اب آتے ہیں مظاہرعلوم کے ترانے پر،جی ہاں یہاں کے بھی کئی ترانے لکھے گئے ہیں، مثلاً ایک ترانہ مشہور شاعر وصف الرحمن واصف نظامی نے مرتب کیاہے جوان کی کتاب دینی مدارس میں موجود ہے اور ناشرین نے چھاپابھی ہے۔لیکن ابھی کچھ سال پہلے مشہورادیب وشاعرمولاناولی اللہ ولی بستوی نے دو خوبصورت ترانے مرتب کیے ہیں جوبڑی تعداد میں مظاہرعلوم وقف کی طرف سے فریم کے لئے شائع بھی ہوئے اورلوگوں نے پسند بھی خوب کیا،ایک ترانے کاپہلا شعر ہے:
یہ علم وہنرکاگہوارہ ،انوارکااک مینارہ ہے
ہرپھول یہاں کااک گلشن،ہرغنچہ روشن تارہ ہے
دوسرا ترانہ اس سے بھی زوردار ہے اس کا پہلا شعر یہ ہے:

یہ علم وحکم کاہے مخزن فردوس کااک نظارہ ہے
ہرپھول یہاں کا اک گلشن ہرغنچہ روشن تاراہے

شاعرمولاناولی بستوی نے ترانۂ مظاہرعلوم میں مظاہرعلوم کی تاریخ،قیام کاپس منظر،اس کی لازوال خدمات،اہم اورمؤقرشخصیات کاتذکرہ نہایت ہی ذوق وشوق اورفرط عقیدت ومحبت میں کیاہے،ان کے سیال قلم سے جوبھی شعرنمودارہواہے وہ ادب بھی ہے،تاریخ بھی ہے،عشق ومحبت کی داستان ہے،خدمات اورقربانیوں کاعنوان بھی ہے،درداورکرب بھی ہے،شوق اورذوق بھی ہے،رجزاورعجزبھی ہے،پڑھتے پڑھتے ایسامحسوس ہوتاہے جیسے لق ودق صحرامیں کوئی ساربان دی خوانی کررہاہواوراس کے اونٹ کیف اورلذت سے سرشارہوکراپنے سروگردن ہلاہلاکردادتحسین وآفرین پیش کررہے ہوں۔مولاناولی بستوی اپنے عہدکے بڑے شاعرتھے بلکہ ان سے زیادہ زودنویس شاعرمیں نے نہیں دیکھا،کبھی بھی غزل کاایک شعرنہیں کہا،ان کامجموعۂ کلام ’’کلیات ولی‘‘کے نام سے اشاعت کی تیاریاں چل ہی رہی تھیں کہ عین جوانی میں مولائے حقیقی کابلاواآگیا۔

بہترسمجھتاہوں کہ علم وادب کایہ شاہکارترانہ بھی پیش کردوں :

ترانہ مظاہرعلوم:

یہ علم و حکم کا ہے مخزن ، فردوس کا اک نظَّارہ ہے
ہر پھول یہاں کا اک گلشن ، ہر غنچہ روشن تارہ ہے
یہ رشد و ہدایت کا مرکز ، تعلیم کی وادئِ ایمن ہے
عرفان و یقیں کا سرچشمہ ، فیضانِ خدا کا ساون ہے
تبلیغ کی سچی خدمت میں یہ مرکزِ دیں ممتاز ہوا
تعلیمِ کتاب وسنت کادنیا میں عجب انداز ہوا
انوارِ حرم کی کاہکشاں ، تاروں سے سجی بارات ہے یہ
ہر طالبِ صادق کے حق میں ، جلوؤں سے سجی سوغات ہے یہ
اسلاف و اکابر کی محنت سے رشکِ جناں گلزارہوا
اخلاصِ عمل کی برکت سے ہرنقش یہاں ضوبار ہوا
گلزارِ سہارنپور میں ہے ، یہ یُمْن و سعادت کا مظہر
احمد کی دعا کی برکت سے صفَّہ کا یہاں پر ہے منظر
فیضانِ رشیدی کے چشمے سیراب چمن کو کرتے ہیں
انوار کے روشن شہ پارے جو سرووسمن کو کرتے ہیں
مدت سے اکابر کا علمی ، دریائے سخاوت جاری ہے
اشرفؔ کی دعاؤں سے اس میںفیضانِ عنایت جاری ہے
اس مرکزِ علمی سے زندہ ، تحریکِ ولی اللہّٰی ہے
یہ مسکن ، شیخِ زَکریا کا ، گلزارِ خلیل اللّٰہی ہے
جو رِند یہاں پر آتے ہیں وہ لعل وگہر پاجاتے ہیں
فیضان سے عبدِ رحماں کے وہ فتح و ظفر پاجاتے ہیں
انعام و لطیف و یحییٰ سب ، یاں یوسفِ دوراں کہلائے
اس باغِ نبوت کے غنچے ، سب لعلِ بدخشاں کہلائے
اس محفلِ مے کے دیوانے ، مسعود ہوئے ، محمود ہوئے
باطل کے سبھی رستے آخر اس مرکز سے مسدود ہوئے
اس گلشنِ دیں کا ہر مالی ، محبوب و مظفر ہوتا ہے
الیاس وسعید واسعدسے ہر غنچہ اطہرہوتا ہے
فیضانِ محمدمدت سے اک موج کی صورت جاری ہے
اس بحرِ مظاہرؔ میں ہرسوٗ ، عرفانِ مشیّت جاری ہے
اس شہرِ وفا کا ہر کوچہ ، بازارِ اِرَمْ کہلاتا ہے
گلزارِ مظاہرؔ بھارت میں ، گلزارِ حرم کہلاتا ہے
انوارِ حرم کی کرنوں سے ، معمور یہاں ذرّات ہوئے
تنویرِ رسالت کی ضو سے ، پُر نور یہاں دن رات ہوئے
ہر شام یہاںکے گلشن میں طیبہ کی بہاریں آتی ہیں
ہر صبح جگانے رندوں کو حوروں کی قطاریں آتی ہیں
معمور دیارِ ہندی میں صفَّہ کی حسیں تصویر ہے یہ
جو ذاتِ خدا کو بھائی ہے اخلاص کی وہ تعمیر ہے یہ
فردوسِ بریں کے جھونکوں سے گلزارِ ہدایت لہکے گا
خوشبوئے ریاضِ جنت سے یہ بابِ نبوت مہکے گا
فیضانِ سعیدی دنیا میں ، سیلاب کی صورت پھیلے گا
عرفانِ محمدؐعالم میں ، خورشید کی صورت چمکے گا
مولیٰ سے ’’ولیؔ‘‘ کی ہے یہ دعا ، یہ گلشنِ دیں شاداب رہے
انوار و کرم کی بارش سے تا روزِ جزا سیراب رہے

جن شخصیات کے کمالات اوران کی خدمات سے مظاہرعلوم کے دروبام روشن ومنورہیں ان میں سے تقریباً۲۴؍شخصیات کے نام اس ترانے میں آئے ہیں۔
مظاہرعلوم کے ترانے کوابھی تک کوئی آوازکا جادوگرنہیںملا جواس قیمتی ترانے کوآوازدے سکے۔
 
Top