ہم خاندانی لوگ ہیں؟

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

ہم خاندانی لوگ ہیں؟

ناصرالدین مظاہری

غریب ونادارتھا،اپنی بیٹی کی شادی کولے کرپریشان تھا،اس کویہ سوچ کر نیندنہیں آرہی تھی کہ باراتیوں اور مہمانوں کی ضیافت کیسے ہوگی،کہاں ہوگی،اسی الجھن میں اپنے کچھ بے تکلف دوستوں سے مشورہ کیا،انہوں نے مذاق میں کہہ دیاکہ نواب صاحب کی کوٹھی بالکل نئی تیارہوئی ہے ، صفائی کاکام باقی ہے ،نواب صاحب سے بات کرو،وہ سیدھاساداانسان تھا،نواب صاحب کے پاس پہنچ گیا، اپنی پریشانی بتائی ، نواب صاحب نے اس غریب کی پوری بات سنی اورکہا کہ میں اس شرط کے ساتھ تمہیں اپنی کوٹھی میں شادی کی اجازت دوں گاکہ صبح سے شام تک تمام مہمانوں اورباراتیوں کاکھاناخرچہ میری طرف سے ہوگا،یہ غریب انسان مشکل کی اس گھڑی میں نواب صاحب کی اس دریادلی سے کس قدرخوش ہواہوگااندازہ کیاجاسکتا ہے۔شادی ہوگئی،نواب صاحب نے بچی کاتمام خرچہ برداشت کیا۔

خود مہمانوں سے ملاقات کی،شادی کے بعدغریب شخص نہایت ہی ممنونیت کے عالم میں جب کوٹھی کی چابی دینے پہنچا تو نواب صاحب نے پوچھا کہ یہ کیاہے ؟غریب نے جواب دیا کہ آپ کی کوٹھی کی چابی ہے ،نواب صاحب نے کہاکہ میں کوئی چیز دے کرواپس نہیں لیاکرتا، یہ کوٹھی بھی تمہاری ہے۔

یہ کوئی افسانہ اورمن گھڑت کہانی نہیں بلکہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے جدمحترم نواب مظفرخان کاواقعہ ہے ،یوپی کاشہرمظفرنگران ہی کے نام پرآبادہے۔خاندانی لوگوں کی شناخت اور پہچان یہی ہوتی ہے ،وہ ریا،نام ونمود،دکھاوا،سستی شہرت اوربناوٹ کے چکرمیں نہیں پڑتے ہیں۔خاندانی شرافت ان کے کردار سے محسوس ہوجاتی ہے ،جوخاندانی لوگ ہوتے ہیں ان کی شیریں گفتاری لوگوں کے قلوب کوموہ لیتی ہے،ان کے انداز، عادات، اطوار، کردار،گفتار،معاشرت اورطرززندگی کو دیکھ کرپہچاناجاسکتاہے کہ یہ خاندانی شخص ہے۔
زیادہ پڑھ لکھ جانے سے انسان اپنے معاشرے میں باعزت مقام نہیں پاتاہے،عزت کاتعلق تربیت سے ہے ،خاندانی لوگ تربیت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں،ان کے یہاں تعلیم اتنی اہم نہیں ہوتی جتنی خاندانی روایات اورتربیت اہم ہوتی ہیں۔ایک بڑی مشہورکہاوت ہے :

’’انسان پرکھنے کی ایک یہ بھی نشانی ہے،گفتگو بتادیتی ہے کہ کون خاندانی ہے‘‘۔

یہ سچ ہے جولوگ خاندانی ہوتے ہیں ان کی صحبت میں چندمنٹ بیٹھ کرہی پتہ چل جاتاہے کہ اس کے بڑوں نے اس کی تربیت پرخاصی محنت کی ہے۔

آپ اپنے گرد و پیش میں بہت سے ڈگری یافتہ لوگوں کواخلاق باختہ حالت میں دیکھتے ہیں توآپ سوچنے لگتے ہیں کہ اتنا پڑھ لکھ کربھی یہ اس حالت میں ہے ،اس کی اس حالت کی ذمہ دارکتابیں نہیں ہیں،اس نے اپنی تربیت کے لئے کسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں،کسی بزرگ کی جوتیاں سیدھی نہیں کی ہیں، اس نے اپنے سینے کو کبراور گھمنڈ سے اس قدربھرلیاہے کہ تربیت کی گنجائش ہی نہیں رہی ہے۔تعلیم گاہوں میں صرف تعلیم ہوتی ہے تربیت تواپنے اکابرکی خدمت میں ہوتی ہے۔اکابرکی ڈانٹ ڈپٹ سے نسلیں سدھرتی ہیں اور اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ سے عقلیں درست ہوتی ہیں۔خاندانی لوگ تعلقات کابھرم رکھتے ہیں۔یہ لوگ کبھی بھی آپ کو ایسے حالات میں نہیں ڈالیں گے جہاں آپ کواپنی انا،اپنی سچائی اور اپنی عزت کوداؤپرلگاناپڑے۔خاندانی شخص کتناہی غریب ہو ذلت اور خواری کوقریب نہیں آنے دیتاہے اورغیرخاندانی کتناہی رئیس ہوبدزبان وبدکلام وبدقماش وبدمعاش ہی رہتا ہے،نئے نئے رئیس اوردولت مند خودکوخاندانی دکھانے اورثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کی گفتگو کی کاٹ،ان کے لہجہ کی بناوٹ، ان کے طوراورطریقے سے دومنٹ میں ہی اس کی اصلیت کاپتہ چل جاتاہے ۔

کہاجاتاہے کہ روپے پیسوں سے عزت نہیں بنتی،خاندانی لوگوں کے طورطریقے الگ ہوتے ہیں،کم ظرف ہوتے ہیں وہ لوگ جوپیسہ آتے ہی ماش کےآٹے کی طرح اینٹھ جاتے ہیں۔نسلی اور خاندانی انسان کوعزت دوتووہ شرماکرعاجزی اورمخلصی سے پیش آئے گا،کم نسل نیچ اورگھٹیا انسان کوعزت دو تو وہ تکبراور گھمنڈ سے مزیداکڑجائے گا۔یہ بھی مشہور ہے کہ خاندانی لوگوں میں نفاق کے جراثیم نہیں ہوتے ہیں،اگرآپ کسی ایسے شخص کودیکھیں جوخودکوخاندانی کہلاتاہواورنفاق کے اثرات اس کے کردارسے ظاہرہوتے ہوں توایساشخص خاندانی نہیں شیطانی ہے۔

جوخاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا

تمہارالہجہ بتارہاہے تمہاری دولت نئی نئی ہے

مذہب اسلام نے ذات،پات، چھوت چھات،امتیازمن وتو،سماجی نابرابری کوبرابرکیاہے ،اگرکوئی مسلمان ہواور پھربھی اونچ نیچ کا قائل ہوتوسمجھ لیجئے کہ یہ شخص بے شک اسلام میں داخل تو ہوگیاہے لیکن ابھی آثار کفرباقی ہیں،لوگوں کوعہدے مناصب،جاگیریں عزت نہیں دیتی ہیں،گھٹیاانسان کسی بھی عہدے پرپہنچ جائے اس سے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت سرزدہوہی جاتی ہے کہ عالم میں رسوااو رخوارہوجاتا ہے۔ شاعرنے کتنے دردسے التجاکی ہے:

یہ کس دیار کے ہیں کس کے خاندان سے ہیں
اسیر ہو کے بھی جو لوگ اتنی شان سے ہیں
ملے عروج تو مغرور مت کبھی ہونا
بلندیوں کے سبھی راستے ڈھلان سے ہیں
تم اپنے اونچے محل میں رہو مگر سوچو
تمہارے سائے میں کچھ لوگ بے نشان سے ہیں
زمین کرب کی ہر فصل کا جو مالک ہے
ہمارے درد کے رشتے اسی کسان سے ہیں
مہک رہے ہیں گل، زخم، آرزو، ہر پل
مری حیات کے سب رنگ زعفران سے ہیں
سنا رہے ہیں وہی داستان ظلم و ستم
ہماری آنکھ میں آنسو جو بے زبان سے ہیں
کہاں تک آپ چھپائیں گے داستان ستم
کتاب جسم پہ اب بھی کئی نشان سے ہیں

کسی نے کتناخوبصورت جملہ کہاہے کہ ’’خاندان سے میرے حالات نہیں ملتے خون ملتاہے مگرخیالات نہیں ملتے‘‘ چنانچہ اگرکوئی خودکوخاندانی ظاہر کرے اورپھربھی دروغ بیانی، بخل، غبن، حرام کاری، احسان فراموشی، گندگی، ناانصافی، بے غیرتی، بدقماشی، عیاری اورمکاری کی صفات رکھتاہو تویہ خاندانی نہیں ہوسکتاہے۔

مغلوں نے اپنوں کے علاوہ کسی کوبھی مناسب مناصب نہیں دئے نتیجہ یہ ہواکہ ان کے اپنے عیش وعشرت میں ڈوبے رہے اورباکمال لوگوں کے کمالات کوگھن لگتارہا،اسی لئے ستم رسیدوں کے نظریئے بدل گئے،ان کی مروتیں دم توڑگئیں،ان کی فوجوں کے قابل ترین ،قدیم ترین اور ماہرترین افرادنے مشورے دینے بندکردئے ،ملک میں جوبھی دشمن داخل ہواداخل ہونے دیاگیا، جس نے بھی جوکچھ کیاکرنے دیااور اس طرح پیروں کے نیچے سے ریت کھسکتی رہی،برف بگھلتی رہی، ذہنیتیں بدلتی رہیں یہاں تک کہ ایسٹ انڈیاکمپنی نے اپنے بال وپرنکالے،تاج وتخت پانے کی حکمت عملی مرتب کی،انگریزکوپتہ ہے کہ کسی بھی تخت کو پانے کے لئے تاخت وتاراج ضروری ہے ،تاخت وتاراج کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہے،منصوبہ بندی کے لئے ضمیرفروش ضروری ہیں،ضمیرفروشی کے لئے ڈالر و پونڈاورروپے پیسے ضروری ہیں بس انگریزوں نے جسمانی محنت اتنی نہیں کی جنتی انھوں نے دماغی محنت کی اوریوں انھوں نے کچھ ہی سالوں میں سات آٹھ سوسال تک برسراقتدار رہے مغلوں اورمسلم حکمرانوں کوپابند سلاسل کردیا،کچھ دن پہلے تک جن کی حکومت میں برما،بنگلہ دیش ،بھارت، پاکستان، لنکا، افغانستان تک شامل تھے اورکہاں ایک وقت ایسابھی آیاکہ لال قلعہ سے پالم تک حکومت سمٹ کررہ گئی ،عیش اورعیاشی نے مغل حکمرانوں کوکہیں کانہیں چھوڑا یہاں تک کہ آخری مغل حکمراں بہادرشاہ ظفرکے عہدمیں ایک بھی جنگ نہیں ہوئی،کوئی بھی ملک فتح نہیں ہوا،سلطنت دہلی صرف شاعروں اورمشاعروں تک محدود ہوگئی ،تمام ترسرگرمیان لطیفوں، قصہ خوانوں اورکہانیوں پرمشتمل ہوگئیں، نوابوں نے اپنے اپنے علاقوں کی بندربانٹ کرلی،راجاؤں اورمہاراجاؤں سے اکادکا جھڑپیں ہوئیں بھی لیکن بادشاہ کی فوجوں نے پیٹھ دکھائی اورنوبت یہاں تک آئی کہ خودبہادر شاہ کے سامنے ان کے اپنے صاحب زادگان کے سرقلم کردئے گئے ،پیرانہ سالی میں بہادرشاہ ظفر کوجلاوطنی اختیارکرنی پڑی اوربرماکی کال کوٹھری میں سسک سسک کرجان جان آفریں اس طورپر سپرد کی کہ کوئی کلمہ کی تلقین کرنے والانہیں تھا،پیاس کی شدت سے حلق خشک ہوچکاتھااورکوئی دوبوندپانی ان کے حلق میں ٹپکانے والانہیں تھا۔

قارئین معاف فرمائیں میراقلم بہک گیا،تاریخ کے ریلے میں میراذہن بھٹک گیا،بات چل رہی تھی خاندانی وضع کی،خاندانی روایات کی،خاندانی رسم ورواج کی،ضروری نہیں ہے کہ بادشاہ کابیٹابادشاہ ہی پیداہو،ممکن ہی نہیں ہے کہ فقیہ کے گھرمیں فقیہ ہی پیداہو، کیاایساممکن ہے کہ جرنل کابیٹا جرنل ہو؟نہیں ،کمالات اور اوصاف ماحول سے آتے ہیں،تعلیم سے آتے ہیں،محنت سے آتے ہیں،تربیت سے آتے ہیں، شاہ عالم جیسے بادشاہ کسی بدقسمت ملک کو ڈبونے کے لئے کافی ہیں،جاہل حکمراں کی حکمرانی میں تعلیم کاگلا گھٹ جاتاہے،عیاش حکم رانوں کے عہد میں محنت کشوں کی نیا ڈوب جاتی ہے،اوباشوں کی جماعت میں شریف انسان خود کو احساس کمتری میں مبتلاپاتا ہےاوراس طرح ذہن، ذہنیت،مزاج ،ماحول سب کچھ حکمرانوں کے تابع ہوجاتاہے ،اسی لئے ہمارے نبی نے فرمایاکہ الناس علی دین ملوکہم۔لوگ اپنے حکمرانوں کے چشم ابروکے اشاروں پر تھرکتے ہیں،عوام جانوروں کے مانندہوتی ہے جیساحکمراں ہوگاویسی ہی عوام ہوگی،حکمراں پڑھالکھا تربیت یافتہ تہذیب یافتہ ہوگا تو رعایابھی اسی کے نقش قدم پرچلے گی۔

جن لوگوں نے شریف اور رزیل کاخط کھینچاتھاانہوں نے عہدوں سے لے کرپیشوں اورکاروبارتک سب کوتقسیم کی چھری سے ذبح کردیا، محنت والے تمام پیشے اپنے ایسے ماتحتوں کوسپردکئے جن کووہ ذلیل سمجھتے تھے ۔آج کی حکومتیں بھی یہی کررہی ہیں سارے منافع بخش عہدے اپنے پاس رکھتی ہیں غیر منافع بخش عہدے ایسے لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں جوچاپلوس قسم کے ہوتے ہیں مشن،تحریکات، تنظیمات، ادارے ،ممالک سبھی کی بربادی میں چاپلوسوں کی سوفیصدحصہ داری رہی ہے۔آج بھی ماحول کچھ زیادہ بدلا نہیں ہے ہنرمندوں کوآج بھی ذلیل تصور کیا جاتا ہے،جولوگ خودکو شرفاء سمجھتے ہیں وہ کسی بھی لائق نہیں ہوتے ہیں یہاں تک وہ جوتے پہننے کے لئے بھی نوکروں کے محتاج ہوتے ہیں۔

نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے دیکھو یہی کہتا ہے ہم بے کار بیٹھے ہیں

جواعلیٰ ظرف ہوتے ہیں،جوصاحبان شان وشوکت ہوتے ہیں،جوشاہان مملکت ہوتے ہیں،جواعلیٰ دماغ کے حاملین ہوتے ہیں ، جو تربیت کی چکی میں پس کرکندن بنتے ہیں ان کے اندرظاہری رکھ رکھاؤ اتناہوتاہے کہ خودبھوکے رہتے ہیں اورساتھی کے آرام وراحت کاخیال رکھتے ہیں ، خودسادہ لباس ہوتے ہیں لیکن ماتحتوں کوخوش لباس دیکھناچاہتے ہیں،جوخود فاقہ کی حالت اورپوزیشن میں ہوتے ہیں اوراپنے ملازموں کوآسودہ حال دیکھنا چاہتے ہیں،یہ لوگ کسی کے منہ سے نوالہ چھنتے نہیں نوالہ رکھتے ہیں،کسی کی آنکھوں میں آنسولاتے نہیں پونچھنے کاکام کرتے ہیں،کسی کوگراتے نہیں گرتوں کوتھامتے ہیں نتیجہ یہ ہوتاہے کہ انسان اپنے بڑوں کے احسانات تلے دب جاتاہے ،وفاداری اس کی رگ رگ میں سرایت کرجاتی ہے ، کوئی گھوڑا اس وقت تک وفادار نہیں ہوتاجب تک مالک اس کی غذا کا خیال نہ رکھے،کوئی کتا وفادار نہیں ہوتا جب تک اس کاپیٹ نہ بھرے،کوئی انسان وفادار کیسے ہوسکتا ہے حال یہ ہے کہ اس کے پیٹ میں بھوک کی وجہ سے چوہے دوڑ رہے ہوں،اس کے بچے بھوک سے بلبلارہے ہوںاوراس کے گھرسے دھواں اٹھناموقوف ہوچکاہو۔

خودکو’’خاندانی ‘‘کہنابہت آسان ہے خاندانی بننابہت مشکل ہے ،جس نے بھی کہاہے زبردست کہاہے:

میں نہیں مانتاکاغذپہ لکھاشجرہ نسب

بات کرنے سے قبیلہ کاپتہ چلتاہے

کیا خاندانی اسی کو کہا جاتا ہے کہ آپ کے گھروں میں ڈیگیں کھنک رہی ہوں اورآپ کے پڑوس میں فاقہ ہورہاہو،کیااسی کونجابت کہتے ہیں کہ آپ ہرسال وماہ گاڑیاں بدل رہے ہوں اور آپ کے پڑوسی کی پیدل چلتے چلتے ایڑیاں پھٹ گئی ہوں؟ کیا خاندانی اسی کوکہتے ہیں کہ آپ کے گھرمیں شادیانے بج رہے ہوں اورفقیرکے گھرمیں فاقے کی وجہ سے نوحہ وزاری ہو؟کیاخاندانی اسی کو کہتے ہیں کہ آپ کی شادی کابچاہوا کھاناٹرکوں کے ذریعہ پھینکاجارہا ہو اورغریب کے بچوں کوشادی ہال کے اندرگھسنے بھی نہیں دیاگیا؟کیا خاندانی شرافت اسی کوکہتے ہیں کہ آپ روزانہ کپڑے بدل رہے ہوں اورغریب پڑوسی کی نوجوان بچیاں ناکافی کپڑوں کی وجہ سے باہرنہ نکل سکتی ہوں؟

ہم جانتے ہیں کہ آپ خودکوخاندانی سمجھتے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ ہی کے گھرکی بہو بیٹیاں کتنا میک اپ کرکے گھرسے نکلتی ہیں، آپ پراللہ کاخوف نہیں زمانے کاڈرمسلط ہوچکاہے، اللہ سے شرم نہیں زمانے سے شرم محسوس کررہے ہیں، آپ نے اپنے اسٹینڈر کواللہ کی وجہ سے نہیں زمانے کی وجہ سے بدلاہے، آج آپ زمانے سے ڈرتے ہیں کل کو زمانہ آپ سے عبرت پکڑے گا، آپ نے اپنے گھروں میں آہنی دروازے لگارکھے ہیں کھڑکیوں پر دبیز پردے لٹکائے ہوئے ہیں، گھر میں پرندہ پر نہیں مارسکتاہے، خاندانی کہلاتے ہیں، لوگ آپ کی مثالیں دیتے ہیں،لیکن یہ خاندانی روایات اس وقت کہاں چلی جاتی ہیں جب آپ ہی کے کسی دوست یا اس کے لڑکے یا لڑکی کی شادی ہوتی ہے، بارات گھروں میں دعوتیں ہوتی ہیں، مخلوط نظام ہوتاہے، کئی لوگ آپ کی جوان بیوی کو تک رہےہوتے ہیں کئی نوجوانوں کو تمہاری نوجوان بیٹی تک رہی ہوتی ہے اور آپ دقیانوس بنے ڈیگوں اور میزوں کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے کھانے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں، آپ نے پوری دنیا کو اپنے جیسا شریف نیک اور دیندار سمجھ رکھاہے، کتنے ہی لوگ آپ کے گھر کے حسن کو گھوررہے ہیں، اڑنے والے کیمرے آپ کی بہو بیٹیوں کی فلمیں بنارہے ہیں، ایک دنیا آپ کے گھر کی خواتین کو دیکھ دیکھ کر سرد آہیں بھررہی ہے اور آپ دیوث بنے دنیا ومافیہاسے بے فکروبے خبر بیٹھے ہوئے ہیں یہ ویڈیوگرافی، یہ فوٹوگرافی، یہ تانک جھانک، یہ مخلوط نظام آپ کی پیشانی کو داغدار کر چکاہے، کچھ نظریں آپ کے گھر کے اندر تک جھانک چکی ہیں اور آپ خوش ہیں کہ ’’ہم خاندانی لوگ‘‘ ہیں. یہ شادی ہال،بارات گھراور نکاح ہاؤس،عشق ومعاشقے کے مراکز ہیں، عہد و پیمان کے اڈے ہیں،بے حیائی کے فارم ہاؤس ہیں اور آپ خوش ہیں کہ ’’ہم خاندانی لوگ‘‘ ہیں۔

خدارا! اپنی اہمیت پہچانئے، اپنی حیثیت پہچانئے، اپنے آپ کواپنی حفاظت کے لئے تیارکیجئے،آپ کے بازوؤں میں اگر دم نہیں رہا،قوت وطاقت نہیں رہی تودنیاکی کوئی طاقت آپ کا سہارااورآسرانہیں بن سکتی ،دوسروں پرتکیہ اوربھروسہ چھوڑکراللہ اوراس کے رسول کے احکامات وارشادات پرغوروفکرکریں ورنہ پھرکسی بہادرشاہ کے سامنے پھرکوئی کمینہ میجر ہڈسن کھڑا ہوگا اور ہمارے دین،ہماری تہذیب،ہماری شریعت،ہماری کتاب اورہمارے نبی کی کھلم کھلا توہین کرے گااور کہتا دکھائی دے گا:

دم دمے میں ہم نہیں اب خیر مانگو جان کی

اے ظفر! ٹھنڈی ہوئی اب تیغ ہندوستان کی
 
Top