دم توڑتی پرانی قدریں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

دم توڑتی پرانی قدریں

ناصرالدین مظاہری
استاذمظاہرعلوم (وقف) سہارنپور

جیسے جیسے نئے زمانے اور نئے افق کی یافت اور دریافت ہوتی جارہی ہے، پرانی روایات اور پرانی قدریں پامال ہوتی جارہی ہیں،پہلے زمانے میں گھروں کے باہر ایک چوپال ہوا کرتی تھی ، اس چوپال میں کچھ چارپائیاں، میزیں تپائیاں اور کرسیاں وغیرہ رکھی رہتی تھیں ، ایک خاص وقت میں ملنے والے آتے تھے، ملاقات و ضیافت ہوتی تھی، حالات حاضرہ اور پرانے قصے کہانیاں بیان ہوتی تھیں، بڑے بوڑھے اپنے چھوٹوں کو پرانی قدریں بتاتے تھے ،ہرانسان کی ا چھائیاں اور برائیاں زیربحث آتی تھیں ، بڑے اپنے چھوٹوں کا اور چھوٹے اپنے بڑوں کا خو ب اکرام و احترام کرتے تھے، ان بیٹھکوں سے بہت کچھ سیکھنے کا مو قع ملتا تھا۔ حقہ اس مجلس کی جان بلکہ شان ہوا کرتاتھا، جو حقہ نوشی نہیں کرتے ان کے لئے پان ہوا کرتاتھاا ور جو لوگ ان دونوں سے رغبت نہیں رکھتے ان کے لئے شربت یاا ور کوئی چیزہوا کرتی تھی یہ چیزیں ضیافت کی پہچان ہوتی تھیں، حقہ بجھنے سے پہلے ہی تازہ دم ہوکر آتاتھا، دیردیر تک جمنے والی یہ مجلسیں اپنے آپ میں تجربات کی درسگاہیں ہوا کرتی تھیں۔ کس کو چارپائی کے سرہانے بٹھانا ہے، کس کے پیروں کی طرف جمنا ہے، کون کس کے لئے جگہ چھوڑے گا اور کون حقہ و پان کی ذمہ داریاں انجام دے گا، اس چوپال میں کم عمروں کو بولنا کم سننا ز یادہ ہوتا تھا کیونکہ ابھی ان کی عمر بو لنے کی نہیں سننے کی ہوتی تھی۔ ملکی اور ملی مسائل بھی زیربحث آتے تھے اور اتفاق رائے سے طے پاتاتھا کہ کس کو قوت پہنچانی ہے اور کس کو نہیں۔ ریڈیو بھی ہوتا تھا جس میں خاص خاص اوقات میں ملکی اور بین الاقوامی خبریں نشر ہوتی تھیں، پورے انہماک اور توجہ سے لوگ خبریں سنتے تھے اور ذہین لوگ ان خبروں سے اردو ادب بھی سیکھتے تھے ، معاشرتی گفتگو بھی ہوتی تھی ، جہاں کہیں کسی کے گھر میں کچھ نیاہوا تو ا س کی گونج چوپال تک سنائی دیتی تھی۔ غریبوں کی مدد کی آواز بھی یہیں سے اٹھتی تھی اور کسی کے ظلم کازور بھی یہیں سے ٹوٹتا تھا ۔
اب نہ وہ قدریں رہیں ، نہ وہ لوگ رہے، نہ وہ زمانہ رہا ا ور نہ ہی چوپال رہی ، ہرجگہ تبدیلیاں رونما ہو گئیں اور اتنی رونما ہوگئیں کہ اب آپ جہاں کہیں چار لوگوں کو بیٹھے پائیں گے سب کو خاموش ہی دیکھیں گے ، سب اپنے اپنے موبائل میں مست ہیں ، موبائل سے بہت کم لوگ ہیں جو زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ سیکھتے ہیں اکثر لوگ تو بس اپنے اپنے ’’شوق‘‘ ہی پورے کرتے ہیں، جن کو گیم سے دلچسپی ہے وہ گیم میں لگے پڑے ہیں ، جن کو فلموں اور ڈراموں کا شوق ہے وہ فلمیں اور ڈرامے دیکھ رہے ہیں، جن کو دیگر فضولیات کی ’’ لت‘‘ لگی ہوئی ہے وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ اچھی چیزیں ، کتابیں، ویب سائٹس، مضامین، بلاگ اور کیا کچھ نہیں ہے انٹرنیٹ پر، اچھائیاں بھی ہیں برائیاں بھی ہیں جیسے ہمارا اپنا نفس ہے اسی میں نفس امارہ بھی ہے جو برائیوں پر ابھارتا ہے، نفس لوامہ بھی ہے جو انسان کو نیک کام کرنے سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور جب انسان باز نہیں آتا اچھا کام کر گزرتا ہے تو نفس لوامہ لعنت ملامت شروع کردیتا ہے ۔ نفس مطمئنہ بھی ہے جو برے کاموں کا تقاضا ہی نہیں کرتا ، ہمیشہ اچھائیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ جیسے دریا ہے یہاں بیش قیمت چیزیں بھی ہیں، مچھلیاں اور دیگر کارآمد جانور بھی ہیں، لکڑیاں اور موتی اور جواہرات بھی ہیں ساتھ ہی خوفناک موجیں اور ہولناک مناظر بھی ہیں، غواص کوغواصی کے ذریعہ بہت سی نادر چیزیں مل جاتی ہیں لیکن جن کو غواصی اور تیراکی نہیں آتی ان کے لئے مشورہ دیا جاتا ہے کہ دریا سے دور ہی رہیں چنانچہ حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں:

بہ دریا در منافع بے شمار
اگر خواہی سلامت برکنار

یہی حال موبائل ہے ، موبائل کی رنگینیاں، رعنائیاں ، دل فریبیاں برائیوں کی طرف کھینچتی ہیں ، انسان کی عمدہ تربیت اور اچھی نگہداشت کی گئی ہو تویہی ’’پرزہ‘‘ دینی ویب سائٹوں، آن لائن دارالافتاؤں، شاندار قسم کے اسلامی بلاگوں، نادر و نایاب کتابوں اور تقریروں و خطبوں تک پہنچا دیتا ہے۔

کم بولنے کی تو اسلام میں تعلیم اور ہدایت بھی ہے لیکن اپنے قیمتی اوقات کو گناہوں میں برباد اور ضائع کرنے کی وعیدیں بھی موجود ہیں۔چنانچہ میں کہہ سکتا ہوں کہ موبائل کی شکل میں یہ ننھا سا پرزہ اچھے انسان کے لئے اچھا بھی ہے اور برے انسان کے لئے برا بھی ہے ، بس اس کی برائیاں اس کی خوبیوں پر حاوی ہیں۔ بہت کم لوگ فیس بک، واٹسپ ، ٹیوٹر، یوٹیوب وغیرہ سے اچھے کام کرتے ہیں اور ایک بڑی تعداد ہے جو ان چیزوں کو گناہوں اور غلط کاریوں میں ضائع وبرباد کرکے خود ضائع وبرباد ہورہی ہے۔

عرصہ پہلے امیتابھ بچن نے ٹی وی کی زہرناکی اور خطرناکی پر بیان دیا تھا اور کہاتھا کہ اچھا ماحول اور معاشرہ چاہتے ہوتو ٹی وی سے خود بھی دور رہو اور اپنی اولاد کو اس سے دور رکھو لیکن جس نے بیان دیا تھا وہ خود فلمیں بناتاہے، نہ ہی وہ فلمیں بنانے سے باز آیا نہ ہی لوگوں نے اس کی بات پر عمل کیا۔

نشے کی ہر پڑیا اور ہر سگریٹ کے ہر پیکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ اس کے استعمال سے کینسر ہوسکتا ہے پھر بھی ایک دنیا کھائے جارہی ہے ، مرے جارہی ہے اور کمپنیاں امیر سے امیر ہوتی جارہی ہیں۔

سرکاریں بھی عجیب ہیں ایک ہی ملک ہے لیکن اس کے قانون کہیں نافذ ہیں کہیں نافذ نہیں ہیں ، کہیں شراب پر پابندی ہے تو کہیں اس کے لئے باقاعدہ وزارتیں قائم ہیں، کہیں افیون کی تجارت پر پابندی ہے اور کہیں خود سرکار کے اشاروں پر اس کا با زار زوروں پر ہے، چھوٹا انسان کرے تو غلط ہے بڑا آدمی کرے تو اس کا شوق ہے، ہم کریں تو جرم ہے آپ کریں تو مصلحت ہے۔ بر دہ فروشی، عصمت فروشی، جرائم اور کرائم ، غداری اور قانون شکنی سب کے پیمانے بدل گئے ہیں، گنا ہ کو نہیں گناہ گار کو دیکھا جانے لگا ہے ، عدالتیں اسی کے گن گاتی ہیں، انصاف کا ترازو قصوروار کی طرف جھکتاہے، پارلیامنٹ اسی کے گن گاتی ہے، اسمبلیاں اسی کی ترجمانی کرتی ہیں دکھائی دیتی ہیں، نشریاتی اور اطلاعاتی اسٹیشنوں سے ان ہی کی حمایت میں گلا پھاڑا جاتا ہے ۔

پرانی قدریں ہی ٹھیک تھیں مجرم مجرم ہوتا تھا کوئی بھی ہو، جرم کو جر م کہا جاتا تھا کسی نے بھی کیاہو، اُس زمانے میں کوئی اپنا پرایا نہیں تھا سب انسان تھے ، انسانی بنیادوں پر مخالفت اور موافقت ہوتی تھی۔

جب سے کالجوں ،یونیورسٹیوں، مخلوط تعلیم گاہوں اور گھرگھر’’دکانوں‘‘ میں خطاکاروں، غلط کاروں، رشوت دے کر ڈگری پانے والوں نے ’’پڑھانا‘‘ شروع کردیا ہے تو ملک کا پو ر اسسٹم بدل کر رہ گیا ہے ۔اب مرض سے نہیں مریض سے نفرت کی جانے لگے ہے۔ ججوں پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے من مانی کرانے کو ملک سے غداری قرار دینا چا ہئے ، وہاں کسی بھی قسم کی رشوت اور لین دین کو ناقابل معافی جرم قرار دینا چاہئے۔ بے قصوروں اور ناکردہ گناہوں کی سزائیں جھیل رہے لوگوں کے حالات اور ان کی کیفیات اور تحقیق حال کے لئے ادارے قائم ہو نے چاہئیں۔

جب عدالتوں کو آمدنی کا، قانون شکنی کو تعلیم کا، نقض امن کو سیاست کامہرہ بنایا جانے لگے تو قانون قانون نہیں رہے گا، عدالتوں کا تقدس پامال ہوجائے گا، منصفوں کا کورٹ میں دم گھٹنے لگے گا، مجرم کی نظروں میں جرائم اور کرائم ’’شوق ‘‘ بن کر رہ جائے گا۔ جیلیں پکنک پوائنٹ بن جائیں گی، انارکی اور افراتفری کے اس ماحول میں کون کس کی سنے گا اور کس کی مانے گا۔
 

عبدالروؤف

وفقہ اللہ
رکن
چشم کشا حقائق بلکہ حقائق کی ہولناک منظر کشی کی ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو چشمِ بینا عطاء فرمائے۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
چشمِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں
اللہ کرے ہمیں وہ آنکھ نصیب ہو جو دیکھنے والی ہو۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے لطیف پیرائے میں فرمایا تھا کہ ہمارا ضمیر/نفس ہمیں برائی سے روکتا نہیں بس مزا کرکرا کر دیتا ہے۔ شاید اب وہ مزا کرکرا کرنے والی کیفیت بھی کہیں پیچھے چھوٹ گئی ہے۔
 
Top