لوگوں کے رنگ تجارت کے سنگ

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
30 سال جاب کرنے کے بعد جب سے تجارت کے میدان میں اترا ہوں روازنہ ایک نیا تجربہ ہوتا ہے، ایک نئی دنیا دیکھتا ہوں۔

لوگوں کے اتنے رنگ ہیں جاب کرتے ہوئے کبھی معلوم ہی نہیں ہوا کیونکہ جاب کے دوران مدتوں ایک ہی کمپنی میں وہی گنے چنے لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑتا رہتا ہے جبکہ تجارت میں، وہ بھی ایسی تجارت جس میں پبلک ڈیلنگ کرنی پڑتی ہو روزانہ نت نئے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے لوگوں کے رنگ تجارت کے سنگ ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔

تجارت میں آکر اس قوم کی حقیقی اخلاقی گراوٹ کا پتہ چلا۔

روزانہ کیسے کیسے خبیث صفت، شاطرو چالاک ، مکار و عیار، فریبی و متفنی، چال باز و دغا باز اور دھوکے باز لوگوں سے پالا پڑتا ہے کہ الامان الحفیظ۔

لوگ کس طرح تھوڑے سے پیسوں کیلئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، اپنی چالاکی، مکاری و عیاری سے لوگوں کو فریب و مکر کی جال میں پھنساتے ہیں، دھوکا دیتے ہیں اور اپنی ایمان کا سودا کرتے ہیں، یہ سب اب صاف نظر آتا ہے۔

آج کے مسلمانوں کو کچھ آئے یا نہ آئے لیکن اپنی مفاد کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچانا اور دھوکا و فریب دینا خوب آتا ہے۔

ذراسوچئے! کیا کوئی مسلمان کسی کو دھوکہ دینے کے بعد اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کا امتی کہہ سکتا ہے؟ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے امتی سے خارج قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کسی کو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ (سنن ابي داود: 3452)

اتنی سخت تنبیہ کرنے کے ساتھ ساتھ نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی امت کو دھوکا دہی کی تمام أقسام، متعدد صورتوں اور مختلف شکلوں سے خبرداربھی کر دیا ہے۔

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا (یعنی سب کو اس کی دغا بازی کا حال معلوم ہو جائے گا)"۔ (صحيح البخاري: 6966)

اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ شخص ملعون (یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یا اس کو دھوکہ دیا“۔ (سنن ترمذي:1941)

کسی کو دھوکا دینے کیلئے جھوٹ بولنا ضروری ہوتا ہے اور جھوٹوں پر اللہ تعالٰی کی لعنت برستی ہے، لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (61)‏ سورة آل عمران

افسوس! آج کے مسلمان دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے کھانے میں بہت زیادہ حریص ہوگئے ہیں۔

پہلے صرف سرکاری اداروں میں رشوت چلتی تھی ، مگر اب تو پرائیویٹ اداروں میں بھی رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ پہلے صرف تاجر حضرات خریداروں (عوام الناس) کو دھوکا دیتے تھے، اب تو خریدار بھی تاجروں کو دھوکا دینے کا فن جانتے ہیں۔ پہلے سرمایہ دار مزدوروں کا استحصال کرتے تھے اب مزدور کام میں سستی اور دھوکا دہی کا مظاہرہ کرکے سرمایہ داروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

آج کے مسلمانوں کیلئے جھوٹ بولنا، دھوکا دینا، فراڈ و جعل سازی کرنا کوئی گناہ کا کام نہیں رہا بلکہ ان عملِ بد کرکے وہ خوش ہوتے ہیں، کہ "فلاں کو چونا لگا دیا" جبکہ حقیقتاً وہ اپنے نیک اعمال پر چونا پھیر رہے ہوتے ہیں۔

افسوس صد افسوس! آج کا مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچانے اور دھوکا دینے کے عمل کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے جبکہ حقیقت میں اپنے اس عمل سے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہو کر ہمیشہ کیلئے ناکام و نامراد ہو جاتا ہے۔

جو لوگ ان گناہوں کو معمولی سمجھ کر آج اپنی دنیا بنا رہے ہیں، وہ خوب سمجھ لیں کہ وہ عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتے۔

ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے، اگر وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اللہ سے ملاقات اور آخرت میں جزا و سزا کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
لیکن یہ باتیں تو آج اکثر مسلمانوں کے حلق سے نیچے اتری ہی نہیں، آخرت کا عقیدہ تو کب کا دم توڑ چکا ہے اور اللہ پر ایمان بھی برائے نام ہے،

لوگوں جان لو! نبی کریم ﷺ کی ہر بات سچی ہے، آپ ﷺ نے ہم تک سچی باتیں ہی پہنچائی ہیں۔

آپ ﷺ نے یوم آخرت میں جزا و سزا کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے سب کچھ ویسا ہی ہونے والا ہے۔

جس گناہ کا جو وبال ہے وہ گناہ کرنے والے کو مل کر رہے گا، سوائے اس کے جو اپنی اصلاح کرلے، توبہ کرلے اور اس پر قائم بھی رہے۔

لیکن کسی کو دھوکا دینا، کسی کے ساتھ جعل سازی و فراڈ کرنا حقوق العباد کی پامالی ہے، تو جن کے حقوق غصب کئے گئے ہیں یا جنہیں دھوکا دیا گیا ہے، ان کی تلافی کئے اور ان سے معافی مانگے بغیر یہ گناہیں معاف نہیں ہوتا۔

لوگوں جان لو! یہ دنیا کی چھوٹ بہت تھوڑے دنوں کی ہے۔

اس دنیا میں اپنی چالاکی و عیاری اور جھوٹی باتوں سے تم دوسروں کو نقصان پہنچا سکتے ہو، دھوکا دے سکتے ہو لیکن اللہ تعالی کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ اس کے فرشتے تمہارے ہر عمل کو لکھ رہے ہیں، تمہاری ہر عمل کی ویڈیوز بنارہے ہیں جس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاتی اور وہ کوئی خیانت نہیں کرتے۔ یوم قیامت ساری ویڈیوز چلا دی جائے گی، وہاں تم کسی کو دھوکا نہیں دے پاؤگے اور سیدھا جہنم میں چلے جاؤگے، الا من رحم اللہ

گناہ کو گناہ نہیں سمجھنا یا گناہ کو معمولی سمجھنا سب سے بڑی بدقسمتی ہے، کیونکہ گناہ کو گناہ نہیں سمجھنے والا یا گناہ کو معمولی سمجھنے والا نہ ہی گناہوں پر نادم و شرمندہ ہوتا ہے اور نا ہی توبہ کرتا ہے اور نہ ہی اس سے گناہ چھوٹتی ہے۔

افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہی ہے۔

سوائے ان کے جن کے دلوں میں ایمان کا نور ہے، جو اللہ سے ڈرتے ہیں، اللہ تعالٰی سے ملاقات کو برحق جانتے ہیں، جن کے دلوں میں آخرت میں جزا و سزا کا عقیدہ بہت پختہ ہے، جو عذاب الٰہی کا سوچ کر کانپ اٹھتے ہیں اور جن کی آنکھیں خوف الٰہی سے تر رہتی ہیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں ایسے لوگوں میں شامل فرمائے۔ آمین۔

تحریر: انجنئیر محمد اجمل خان
۔
 
Top