لبرل ازم

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آزاد روی یعنی Liberalization مغربی استعمار کا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے سامنے ہمارے بڑے بڑے دانشمند اور نظریاتی قائدین بھی ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ انہیں جب بنیاد پرست، کٹر اور ضدی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو وہ فورًا لبرل، روشن خیال، ترقی پسند اور Forward Looking ہونے کا دعویٰ فرما دیتے ہیں۔ اور اس طرح پورے معاشرے کو آزاد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس عمل میں حقوق نسواں کی NGOs مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ خصوصًا بیگمات کی NGOs جو مغربی دنیا سے مالی امداد لیتی ہیں، آزادی میں اور کبھی اشاروں میں اور کبھی کھل کر خاندانی بندھنوں کو ڈھیلا کرنے اور توڑنے کی تاکید کرتی ہیں۔ بزرگوں کی شفقت اور محبت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ خاندانی نظام سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل گنوائے جاتے ہیں۔ مسلسل حمل کو عورت کی پسماندگی اور ذلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی بے راہ روی کو جرات مندانہ اقدام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ شوہروں سے وفا کو غلامی اور قید سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رشتوں ناطوں کے تقدس کو پامال کرنے کے ڈرامے رچائے جاتے ہیں۔
دوسری طرف شناخت کو میڈیا کے ذریعے آزاد اور لبرلائز کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ رقص و سرور کی محفلوں کو ثقافت اور معقول تفریح کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اسلامی معاشرے کی روایتی اور نظریاتی جڑوں کو کھوکھلا کیا جاتا ہے۔ اور مسلمان نوجوان عورتوں کو بے لنگر جہاز کی طرح ذہنی انتشار کے سمندر میں لڑھکنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
حقوق نسواں کا مسئلہ اعلیٰ طبقہ کی خواتین کا مسئلہ ہے۔ وہ خواتین جن کی سردیاں مشرق میں اور گرمیاں مغرب میں گزرتی ہیں۔ جن کا مغربی تہذیب سے اختلاط روز کی بات ہے۔ جن کا ذہن ہر دم مشرق و مغرب کے فائدوں کو جمع کرنے میں الجھا رہتا ہے۔ جن کو ماں بننے اور خاندان سے وفاداری نبھانے کی بجائے اپنی خواہشات کی بے لگام تکمیل سے دلچسپی ہے۔
تحریک آزادی نسواں کے نام پر اگر یہ آزادی کی لہر خاندانوں میں جنم لے رہی ہے تو یہ مغرب کی حریت فکر کی تحریک سے متاثر ہے۔ اس کے رجحانات اور اس کے میلانات ہماری جدید تعلیم کا شاخسانہ ہیں۔ انہوں نے عقیدے کو مجرد نظیرے سے بدل دیا ہے۔ یہ کامل وحی چھوڑ کر ناقص انسانی سوچ پر قانع ہو چکی ہیں اور انہوں نے ناقص کی محبت میں کمال کے دروازے اپنے اوپر بند کر لیے ہیں۔ ایجابیت کی بجائے سلبیت کے پیچھے پڑ چکی ہیں اور الحاد کی یہ شکل جدت کے لباس میں ظہور پذیر ہو گئی ہے۔
جیسا کہ مغرب ہدایت کی بجائے کفر وضلالت پر ایمان لایا ہے اور حق کی طلب سے بے نیاز ہو کر حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ وہ اس کام میں اپنی ساری کوشش مرکوز کر کے حق سے مستعفی ہو گیا ہے۔ اس نے عقائد پر نظریات کو ترجیح دی پھر ہوائے نفس کو نظریات پر ترجیح دی، کیونکہ خود مادی نظریات انسانی ضمیر کو زندگی و تازگی سے بہرہ یاب کرنے میں کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ صرف ضمیر ہی کی حکمرانی ہوائے نفس کو اعتدال پر رکھ سکتی ہے۔
مغربی ذہن کے زیر اثر حقوق نسواں کی جدید فکر آزادی کے افق پر سیر کرتی ہے ان کے دلوں میں اراده و عزم کو حرکت میں لانے والی طاقت بھی مفقود ہو چکی ہے۔ ارادے و عزم میں طاقت اس وقت ابھرتی ہے جب دلوں کے سامنے کوئی نصب العین ہو۔ ان کے ذہن عزم، ارادے سے خالی اور نفسیاتی بحران کا شکار ہیں۔ دور حاضر میں مغرب کا فکری بحران ان کے اندر سرایت کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پردہ و حجاب جیسے احکامات ان کی طبع نازک پر گراں ہیں۔ مردوں کی حفاظت کو قید سے تعبیر کرنا عام ہے۔ اپنے بطن میں حمل ٹھہرانا اپنے آپ کو مصلوب کرنا ہے۔
لبرل ازم میں فرد کے حقوق اس کے اجتماعی فرائض پر غالب آ جاتے ہیں حقوق و فرائض کا رشتہ خود ذمہ داری سے منسلک ہے اور ذمہ داری پابندی کے تحت عائد ہوتی ہے۔ یہ پابندیوں سے باغی فکر ہے۔ لیکن آزادیوں کی خواہاں ہے۔ اسلام میں آزادی ایک فرد کا حق ہے۔ اور یہ آزادی معاشرے کے اندر بھی بروئے کار آتی ہے۔ عورت خاندان کے اندر ہی اپنا صحیح فریضہ ادا کر سکتی ہے۔ اسلام میں آزادی فرد کا حق ضرور ہے لیکن آزادی کا محور صرف ایک فرد نہیں ہے۔ اسلام میں آزادی ایک منظم عمل ہے۔ جو انسان کی ذات اور انسانی سوسائٹی کی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر اس کے لیے حقوق و فرائض تشکیل دیتی ہے اور خاندان کو با مقصد حرکت میں جاری و ساری رکھتی ہے۔ اسی سے عورت اور خاندان اپنا صحیح کردار ادا کرتے ہیں۔
عورت کی آزاد روی سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے معاصر عباسی مدنی کا خیال ہے "لبرل ازم (آزاد روی) میں عورتوں کے حقوق ان کے اجتماعی فرائض پر غالب آ جاتے ہیں یہاں تک کہ خاندان کے افراد کا استحصال ہونے لگتا ہے۔ جس کے نتیجے میں خاندان کے دیگر افراد کے آزادی کے افق بہت تنگ ہو کر رہ جاتے ہیں"۔
ڈاکٹر عباسی مدنی مغرب کے جدید نظریہ لبرل ازم پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: لبرل ازم کے بحران سے فرار حاصل کرنے کے لیے لبرل ازم کا متبادل ڈھونڈنا ہو گا لیکن لبرل علم نے اب تک کوئی متبادل پیش نہیں کیا۔ درحقیقت لبرل علم کا کوئی وجود ہی نہیں یہ تو ہوائے نفس کا راستہ ہے کیونکہ جو علم تلاش حقیقت کا راستہ چھوڑ کر خود مصدر حق نہیں بنتا وہ کوئی دینی عقیده یا فلسفیانہ آئیڈیالوجی تشکیل نہیں دے سکتا، حق کمال کا نام ہے۔ اور کمال کا حصول ذات کامل سے ہی ہو سکتا ہے۔ اور وہ ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور علم وہ راستہ ہے جس پر ناقص ہستی چل کر ذات کمال سے کمال حاصل کرتی ہے"۔
حقوق نسواں کے نام پر لبرل ازم کے ماننے والوں کی حالت وہی ہے جو اشتراکی مفکرین کی ہے۔ یہ لوگ بھی مذہب سے اس گمان کے تحت جان چھڑاتے رہے کہ فلسفہ ہی ان کی ضروریات پوری کر دے گا۔ اور عورت کے ہر سوال کا جواب اور ہر مشکل کا حل مل جائے گا۔ یوں عورت کو کندھوں پر مذہب کا بوجھ بھی نہیں اٹھانا پڑے گا۔
جب ہر قسم کے فلسنے عورت کو خوشی دینے میں ناکام ہو گئے تو پھر یہ فکر سائنس کی طرف مائل ہوا اور یہ جانا کہ انہیں وہ چیز مل گئی جو نہ تو مذہب میں تھی نہ فلسفہ میں اب وہ انسانی نفس کو وجدان اور اطمینان دے سکیں گی۔ اور انسانی خواہشات بحسن وخوبی تشکیل پاسکیں گی۔
مگر افسوس اس کی یہ تدبیر بھی الٹی ثابت ہوئی۔ کہاں ہے وہ علم جو دین کا متبادل بن جائے؟ کہاں ہے وہ خوشی جو ہوائے نفس کی اتباع سے اور آزادی کے افق کی سیر کرنے سے ملتی ہے؟ جو خوشی انسان کو برتر اقدار سے بے نیاز کر کے حاصل ہوتی ہے وہ غموں کا ڈھیر ہوتی ہے جس نے خوشی کا لبادہ اوڑھا ہوتا ہے۔
اصل خوشی دین حق کی جستجو اور اس کی اتباع ہے جو عقیدہ اور اعلی اقدار میں پائی جاتی ہے۔ اس میں ایمانی یقین اور وجدانی سکون اس حد تک ہوتا ہے کہ انسانی ضمیر کو زندہ و بیدار رکھتا ہے۔ انسانی بصیرت کو روشن و فروزاں اور پاکیزہ خواہشات کو نشوونما دیتا ہے۔ اور خون پسینہ کے ساتھ سر انجام دینے والی کوششوں کو نتیجہ خیز بناتا ہے۔ یہ کوششیں وسیع تر انسانی دائرے میں اعلیٰ تر تہذیبی معیار اور تاریخ کے طویل تر اور دائمی تر عرصے کے لیے کارآمد ہیں۔ یہ کوششیں مقدار اور کیفیت دونوں لحاظ سے تہذیبی ارتقا کی ضامن ہیں۔ ان کے اندر نہ تو تضادات ہیں نہ افراط و تفریط ہے۔ وہ ذہنی طاقت جو ان کوششوں کی پشت پر ہے اس کا تعلق اصل ماخذ ہدایت سے ہے اس کے اصول و فروع بھی اسی سے ماخوذ ہیں اور آئندہ انسانی تاریخ میں ضروریات کے تحت انسان کے جو نئے نئے مسائل ابھریں گے ان کے حل کی صلاحیت بھی اسی اسلامی ذہن میں ہے۔
علامہ محمد اقبال کے افکار توازن پسندی اور اعتدال جوئی پر دلالت کرتے ہیں۔ آپ مسلمانوں میں پیدا ہونے والی آزادی کی روش کو سراہتے ہیں لیکن انتہائی احتیاط کی تلقین کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں: "بہر حال ہم اس تحریک کا جو حریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے دل سے خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے آزاد خیالی کی یہ تحریک اسلام کا نازک ترین مرحلہ ہے۔ آزاد خیالی کا رجحان باہم تفرقے اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔
اگرچه مسلمان عورتوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حریت فکر سے آزاد نہ ہوں مگر یہ حریت فکر وہ ہو جو عقیدے کی صحت و سلامتی، شریعت کی وسعت و رواداری، اخلاق کے اعتدال و توازن اور اقتدار کی فضیلت و کاملیت کے لیے بہتر سے بہتر راہنمائی کرتی ہو۔ عقل انسانی کو محبت و سلامتی کی تعلیم دے۔ عورتوں کے نفوس میں اعتدال ابھارے اور اقدار و معیارات کو عقیده و شریعت اور اخلاق و عمل کے شعور کے تحت جلا بخشے۔ کامل دین اور آزاد فکر دونوں ہماری ضرورت ہیں مگر یہ دونوں ہمیں علم سے بے نیاز نہیں کرتے۔ عورتیں اگر حقوق اور آزادی کی خواہش میں اپنے قدم اس راہ پر ڈال لیتی ہیں جو ذمہ داریوں کی راہ ہے۔ اور وہ حقوق اور آزادی بھی چاہتی ہیں اور فرائض اور ذمہ داریوں سے مفر بھی، تو یہ آزادی نہیں صرف سفلیت و حیوانیت ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
لبرل ازم ایک ناکام فلسفہ ہے
آزاد خیالی روشن خیالی در اصل قید و بند اور تاریک خیالی ہے
اسلام کے شرعی احکامات کے فوائد لبرل ازم کے نقصانات رو نما ہونے والے واقعات کا جائزہ لینے سے آشکار ہوتے ہیں
مثال کے طور پر پردہ لے لیجیے
اس کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ اپنے معاشرے میں ہی آپ لے سکتے ہیں
اور پھر سب کچھ عیاں ہوگا کہ یہ لبرل ازم ایک ڈھونگ ہے ایک بے کار تخیل ہے
 
Top