دینی مدارس:پانی کہاں مر رہاہے؟

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

دینی مدارس:پانی کہاں مر رہاہے؟

ناصرالدین مظاہری

مجھ سےبعض خیرخواہوں، متعلقین اور نادیدہ اہل تعلق تحریری سوال کرتے ہیں کہ میں دینی مدارس کو درپیش چیلنجز اور مشکلات کے تعلق سے کچھ لب کشائی یاگرہ کشائی کروں، آپ خود ہی بتائیں میں کیاکہوں اور کیانہ کہوں، کون ساعلاج تجویز کروں اور کون سا چھوڑدوں؟ کس درد کامداوا بیان کروں اورکس کوخوبی تصور کرلوں؟ ع

تن ہمہ داغ داغ شدپنبہ کجاکجانہم

جس رسی کومضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنے اور تھامے رہنے کی تاکید خود خدائے لم یزل ولایزال نے فرمائی ہے ہم سے وہ رسی ہی چھوٹ گئی ہے…جس اعتصامِ کتاب کی ہمیں تلقین کی گئی ہم اس میں غافل ہوگئے…جس تقویٰ اور تدین پرہمیں ڈالا گیاہم منحرف ہوگئے…جس شریعت کاہمیں خوگربنایا گیا ہم جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے …جس اسوہ کوحسنہ فرمایا گیاہم نے اس کی طرف سے غفلت برتی… جس توکل کو ہمیں اختیار کرنا چاہئے تھاہم سے کوتاہی ہوئی…وہ زمانہ دوسراتھاجب علامہ اقبال نے کہاتھا:

’’ان مکتبوں اورمدرسوں کویوں ہی رہنے دو‘‘

آج نہ وہ مکتب ہیں،نہ وہ مدارس ہیں، نہ وہ حوصلے ہیں،نہ وہ تقویٰ ہے ، نہ وہ سادگی ہے، نہ وہ شفافیت ہے،نہ خوف خدا ہے نہ وہ ذکرالٰہی ہے،نہ وہ دعائیں ہیں نہ مناجات ہے،نہ شب بیداریاں ہیں نہ جگرسوزیاں ہیں،نہ منکرات پرنکیر ہے نہ مرفوعات پرعمل ہے،نہ دین سے عشق ہے نہ مسلک سے محبت ہے۔ہمارے دینی تعلق کایہ عالم ہے کہ اگرہمیں کوئی گالی دیدے تو ہم اس کا گلادبادیں گے ،ہماری طرف کوئی آنکھ اٹھاکر دیکھ لے توہم اس کی آنکھ پھوڑدیں گے، ہمیں کوئی طمانچہ ماردے توہم اس کاہاتھ توڑدیں گے،ہمیں کوئی کچھ کہہ دے توہم اس کی زبان کھینچ لیں لیکن ہمارے نبی کی شان میں گستاخیاں ہوتی رہتی ہیں،امہات المؤمنین کی شان میں نازیبا کلمات بکے جاتے رہے، صحابۂ کرام پرسب وشتم کیا جاتا رہا،قرآن کریم پر اعتراضات شروع ہوگئے، ہمارے دین پر انگلیاں اٹھنے لگیں ، ہمارے ائمہ کی توہین کی جانے لگی، ہمارے شعائرمقدسہ پرکیچڑ پھینکا جانے لگا، ہمارے نظام زندگی اورہمارے کردار پرتھوکا جانے لگا اورہم اتنے سردمہر،چکنے گھڑے، دیوث،بزدل، ناخواندہ، کندہ ناتراش، مصلحت پسند اور اتنے کھڑوس ہوگئے کہ ہمارے کانوں پرجوں نہیں رینگی، ہماری آنکھیں تر نہیں ہوئیں،ہمارے جسم پرلرزہ طاری نہیں ہوا،ہمارے اندرون میں کوئی اضطرابی کیفیت پیدا نہیں ہوئی ۔

کہتے ہیں کہ مدارس دین کے قلعے ہیں،پاورہاؤس ہیں،عقیدہ وعمل کی چھاؤنیاں ہیں ذرا پیچھے مڑکرتو دیکھئے کیاہورہاہے؟

مدارس چلانے کے لئے چندے کی ضرورت لابدی ہے چندے کے لئے سفراء اورمحصلین کی ضرورت ہے،تحصیل کے لئے اصحاب خیرکی ضرورت ہے۔

تجارت اور صنعت ،زراعت اور ملازمت ہرجگہ کوتاہیوں پر کوتاہیاں ہورہی ہیں ،ملازمین کام چوری کرتے ہیں، انجینئر بددیانتی کرتے ہیں،تجار و کاشتکار سبھی نے تقویٰ کوخیربادکہہ دیاہے،حلال میں حرام مل چکاہے، بلکہ اب حلال پرحرام کی حکمرانی ہے،حرام کی کل آمدنی میں حلال کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے آٹے میں نمک کی ہوتی ہے ۔سودی کاروبار پر پورانظام چل رہاہے، گویا ہمارے سفراء چندہ کے نام پرجو کچھ لارہے ہیں اس میں حرام کی آمیزش سے انکارنہیں کیا جاسکتاہے دوسری طرف سفراء کی حالت دیکھئے اگر مدرسہ میں بچے سوہیں تو تعداد دوسو بتائی جاتی ہے،سالانہ خرچہ ایک لاکھ ہے تودو لاکھ بتایا جاتا ہے،مدرسین وملازمین دس ہیں تواس میں بھی جھوٹ بولاجاتا ہے اورتعداد بڑھا چڑھا کربتائی جاتی ہے کیونکہ چندہ دینے والو ں کوبھی شاید سچ پسندنہیں ہے اس لئے وہ خودمجبورکرتے ہیں کہ جھوٹ بولو،جھوٹ بولو، جھوٹ بولو۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہماری بنیاد ہی جھوٹ پرقائم ہوچکی ہے ،آج یہ عام ابتلا ہے، کتابیں ،کتابچے، پمفلٹ، رودادیں،اجمالی گوشوارے ہر جگہ یہی عمل کارفرماہے ،کسی بھی ادارے کے پمفلٹ دیکھ لیجئے، اچانک بلااطلاع تصدیق کے لئے پہنچ جائیے سچ اورجھوٹ واضح ہوجائے گا۔

حرام اوراورمشکوک مال کھاکر کون رازی اورغزالی بناہے، کون نانوتوی اورتھانوی بناہے؟ریت پرکون سی عمارتیں قائم اورمقیم رہی ہیں،کعبہ کے اندرسے کفرپرورش پارہاہے اورہم سمجھتے ہیں کہ سب کچھ اچھاہے۔

پڑھانے والے حضرات نے تنخواہوں کے لئے پڑھاناشروع کردیا ہے، توکل کہاں ہے مجھے نہیں معلوم؟درسگاہوں میں وقت پر حاضری خوف خدا کی وجہ سے نہیں کٹوتیٔ مشاہرہ کی وجہ سے ہورہی ہے یعنی ہماری نیت میں فتورپیدا ہوچکا ہے ، طلبہ کو دیکھئے گھروالے زکوۃ دے رہے ہیں اوران کابچہ یہاں مدرسہ میں زکوۃ کھا رہاہے،جیب میں مہنگاموبائل ہے، اے ٹی ایم ہے،فون پے اورپے ٹی ایم کی سہولت ہے، اب توآدھار کارڈ سے ہی بینک سے پیسے نکالنے کی آسانی ہے پھربھی امیرطالب علم مال کامیل کھاکرخوش ہے کہ وہ دینی تعلیم حاصل کررہاہے، اگرپتہ چل جائے کہ آج درسگاہ میں حاضری ہوگی توتمام درگاہیں طلبہ سے کھچاکھچ بھرجاتی ہیں کیوں؟تاکہ کھانانہ بند ہوجائے، اخراج نہ ہوجائے ۔

تعلیم میں محنت اور دلچسپی روزگار کے لئے نہیں اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت کی ترویج پیش نظررہنی چاہئے روزی تواللہ تعالیٰ دیتاہی ہے اس کاذمہ اسی نے لیاہواہے وہ ہر ایک کو روزی دیتاہے ،اٹھارہ ہزار مخلوق میں صرف انسان کماتا ہے باقی تمام کورزق کون دیتاہے ؟

دینی مدارس کے حالیہ سروے کی بات آئی توبے چینی پیدا ہوگئی حالانکہ یہ بے چینی تب پیداہونی چاہئے تھی جب فتنہ نے سرابھارنے کی پہلی بار کوشش کی تھی، شریعت میں مداخلت ہوتی رہی،مدارس پر قدغن لگتی رہی،عبادت گاہوں پر پابندیاں لگتی رہیں، عقائد پرشب خون ماراجاتارہا، آزادی کے بعدسے ہی ایسے ایسے قانون بنتے اورنافذ ہوتے رہے جن کا مقصد اور ہدف صرف اور صرف دین اورمسلمان تھے اور اب جب ہماری طاقتوں کا کفرنے خوب اندازہ کرلیا، ہمارے ایمان کوخوب پرکھ لیا،ہماری غیرت کو خوب جانچ لیا، ہماری بزدلی کاپورا یقین ہوگیا تواب وہ جوکچھ بھی کرے کرنے کاحوصلہ بھی ہے اورنفاذ کی قوت بھی ۔

کل قیامت کے دن مجرموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعرف المجرمین بسیمٰہم فیؤخذبالنواصی والأقدام۔مجرم لوگ اپنے چہرے کے نشانات سے پہچانے جائیں گے پس پیشانی کے بالوں اورپاؤں سے پکڑے جائیں گے۔

یہ دھڑپکڑ توکل قیامت کی ہے دنیا بھی ایک امتحان گاہ ہے ، دارلامتحان میں رہ کربھی جب ہم جرم پرجرم کر رہے ہیں حال یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہے کہ ہم اُس لائن اورقطارمیں کھڑے ہیں جورفتہ رفتہ حساب اور کتاب کی طرف بڑھ رہی ہے اورہم اِس قطارسے باہرجانہیں سکتے ،بھاگ نہیں سکتے۔

بے شک جن لوگوں نے جرم نہیں کیاہے ان کے قدم جج کے سامنے کانپتے نہیں ہیں، لڑکھڑاتے نہیں ، ان کی نظریں احساس جرم کاشتکار نہیں ہوتیں، ان کی نظریں جھکتی نہیں ہیں ،ان کا سینہ تنا رہتاہے اور جن لوگوں کے دامن داغ دار ہوتے ہیں،جن کے حساب کتاب میں کمی ہوتی ہے ،جنہوں نے جرم کاارتکاب کیاہوتا ہے ،جن کے اعمال نامے میں سیاہیاں ہی سیاہیاں ہوتی ہیں تووہ کانپتے بھی ہیں ، خوف زدہ بھی ہوتے ہیں، لرزتے بھی ہیں اوران کی زبان لڑکھڑاتی بھی ہے۔شیخ سعدی نے کیاخوب کہاہے :

’’آں را کہ حساب پاک است ازمحاسبہ چہ باک است‘‘

’’جن لوگوں کاحساب وکتاب صاف وشفاف ہوتاہے انھیں محاسبہ کاکوئی خوف وخطرنہیں ہواکرتا‘‘

تالاب کی ساری ہی مچھلیاں خراب نہیں ہوتی ہیں لیکن بدنام سبھی ہوجاتی ہیں، سارے ہی مدارس کایہ حال نہیں ہے کچھ ہی مدارس ہیں جنھوں نے گڑبڑی پیدا کررکھی ہے لیکن جھیلناسبھی کوپڑرہا ہے ۔

یہ گھڑی محشرکی ہے توعرصۂ محشرمیں ہے

پیش کرغافل ،عمل کوئی اگردفترمیں ہے

حکمراں ہمارے اعمال کاعکس اور پرتوہوتے ہیں ہم خود کو تو کچھ نہیں کہتے اور حکمرانوں پرانگلی اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ابھی توسروے شروع ہواہے ، آگے کیاہوتاہے ہمیں خبرنہیں البتہ اتنا ضرورہے کہ یہاں کی رسوائی وہاں کی رسوائی سے بہت کم ہے ۔

خدارا! اپنی زندگی کے ہرحصہ میں دین کو لازم اور لازب کر لیجئے۔
 
Top