آواز اور اس کی اقسام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آواز اور اس کی اقسام


عربی میں ہر قسم کی آواز کے لیے صوت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ وہ خواہ بولنے سے پیدا ہو یا چیزوں کے ٹکرانے سے۔ صوت کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے
"منہ سے نکلی ہوئی شے اگر الفاظ اور حروف پر مشتمل نہ وہ تو وہ صوت ہے"
یہ تعریف قابل اعتبار نہیں۔ قرآن میں ہے:
یٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِىِّ
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو (سورۃ الحجرات آیت 2)​
ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی حضور اکرمﷺ سے بامعنی کلام ہوتی تھی۔ بے معنی آوازیں نہ ہوتی تھیں۔ البتہ ابن فارس سے صوت کی جامع تعریف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں
" ہر وہ کچھ جو سننے والے کے کان سے ٹکرائے وہ آواز (صوت) ہے''
قرآن کریم میں کچھ تو جانداروں کی آوازیں مذکور ہیں اور کچھ بے جان چیزوں کی۔ ہم اسی ترتیب سے انہیں بیان کرتے ہیں۔
جانداروں کی آوازیں:
صَدّ، صرخ، ھَمْس، حَسِیْس، مُکَاءً، تَصْدِیَۃ، ضَبَح، خُوَار، زَفِیْر، شَھِیْق، لھث
1) صَدّ (یَصِدُّ صَدِیْدًا):

کسی انسان کے گرنے کے وقت کی چیخ و پکار اور کراہنے کی آواز۔ لیکن یہ لفظ قرآن کریم میں محض چیخنے چلانے کے معنوں میں آیا ہے۔
وَلَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡيَمَ مَثَلاً اِذَا قَوۡمُكَ مِنۡهُ يَصِدُّوۡنَ‏۝
اور جب (عیسٰی) ابنِ مریم (علیہما السلام) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ چلا اٹھتے تھے۔ (سورۃ زخرف آیت 57)​
2) صرخ:
مصیبت اور گھبراہٹ میں چلانے کی آواز، فریاد، ارشاد باری تعالی ہے۔
وَهُمۡ يَصۡطَرِخُوۡنَ فِيۡهَا ‌ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَـعۡمَلۡ صَالِحًـا غَيۡرَ الَّذِىۡ كُـنَّا نَـعۡمَلُؕ
اور وہ اس دوزخ میں چِلّائیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں (یہاں سے) نکال دے، (اب) ہم نیک عمل کریں گے ان (اَعمال) سے مختلف جو ہم (پہلے) کیا کرتے تھے۔ (سورۃ فاطر آیت 37)​
3) ھَمْس:
انسان کی کسی بھی حرکت کی آواز، کھسر پھسر یا کانا پھوسی کی آواز (منجد)۔ گویا اس سے مراد انسان کی کوئی بھی دھیمی اور قابل محسوس آواز ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَوۡمَٮِٕذٍ يَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِىَ لَا عِوَجَ لَهٗ‌ؕ وَخَشَعَتِ الۡاَصۡوَاتُ لِلرَّحۡمٰنِ فَلَا تَسۡمَعُ اِلَّا هَمۡسًا‏۝
اس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلتے جائیں گے اس (کے پیچھے چلنے) میں کوئی کجی نہیں ہوگی، اور (خدائے) رحمان کے جلال سے سب آوازیں پست ہوجائیں گی پس تم ہلکی سی آہٹ کے سوا کچھ نہ سنوگے۔ (سورۃ طہ آیت 108)​
4) حَسِیْس:
قدموں کی آہٹ، چاپ، خفیف سی آواز (منجد) آگ بھڑکنے کی آواز۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَا يَسۡمَعُوۡنَ حَسِيۡسَهَا‌ۚ وَهُمۡ فِىۡ مَا اشۡتَهَتۡ اَنۡفُسُهُمۡ خٰلِدُوۡنَ‌ۚ‏۝
وہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور وہ ان (نعمتوں) میں ہمیشہ رہیں گے جن کی ان کے دل خواہش کریں گے (سورۃ انبیاء آیت 102)​
5) مَکَاءً:
منہ سے سیٹی بجانا (منجد) اور اس میں موسیقی کے تمام سر تال بھی شامل ہیں۔
6) تَصْدِیَۃ:
دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجانا اور اس میں تمام ساز و مضراب شامل ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً‌ ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏۝
اور بیت اللہ (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (نام نہاد) نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، سو تم عذاب (کا مزہ) چکھو اس وجہ سے کہ تم کفر کیا کرتے تھے ( سورۃ انفال آیت 35)​
7) ضَبَحَ:
گھوڑے کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اس کے ہانپنے کی آواز۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَالۡعٰدِيٰتِ ضَبۡحًا۝
(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں (سورۃ العادیات آیت 1)​
8) خُوَار:
بیل، گائے یا بچھڑے کی آواز۔ قرآن کریم میں ہے:
وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰى مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ حُلِيِّهِمۡ عِجۡلاً جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ
اور موسٰی (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا (جو) ایک جسم تھا، اس کی آواز گائے کی تھی، (سورۃ الاعراف آیت 148)​
9) زَفِیْر:
زفر بمعنی لمبا سانس باہر نکالنا اور زفیر بمعنی گدھے کے رینگنے کی ابتدائی آواز جو آہستہ آواز سے اونچی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
10) شَھِیْق:
گدھا جب رینگنے کو ختم کرنے لگے تو آخر کی آواز جو اونچی آواز سے پست ہونا شروع ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَمَّا الَّذِيۡنَ شَقُوۡا فَفِىۡ النَّارِ لَهُمۡ فِيۡهَا زَفِيۡرٌ وَّشَهِيۡقٌۙ‏
سو جو لوگ بدبخت ہوں گے (وہ) دوزخ میں (پڑے) ہوں گے ان کے مقدر میں وہاں چیخنا اور چلّانا ہوگا ( سورۃ ھود آیت 106)​
یہ آوازیں یا تو جہنم کی آگ سے پیدا ہوں گی جو انہیں سننا پڑیں گی یا گرمی اور پیاس کی شدت سے خود ان کے اندر سے منہ کے راستہ ایسی آوازیں نکلیں گی۔
11) لھث:
کتے کے ہانپنے کی آواز جس کی وجہ گرمی یا پیاس کی شدت ہوتی ہے اور وہ زبان باہر نکال کر ہانپنے یا ہونکنے لگتا ہے (منجد)۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰهُ بِهَا وَلٰـكِنَّهٗۤ اَخۡلَدَ اِلَى الۡاَرۡضِ وَاتَّبَعَ هٰوٮهُ‌ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الۡـكَلۡبِ‌ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ اَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَث
اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان (آیتوں کے علم و عمل) کے ذریعے بلند فرما دیتے لیکن وہ (خود) زمینی دنیا کی (پستی کی) طرف راغب ہوگیا اور اپنی خواہش کا پیرو بن گیا، تو (اب) اس کی مثال اس کتے کی مثال جیسی ہے کہ اگر تو اس پر سختی کرے تو وہ زبان نکال دے یا تو اسے چھوڑ دے (تب بھی) زبان نکالے رہے۔ ( سورۃ الاعراف آیت 17)​
بے جان چیزوں کی آوازیں:
12) رِکْز:

خفیف اور دھیمی آواز اور بعض کے نزدیک بھنک، مکھی کی بھنبھناہٹ، ارشاد باری تعالی ہے:
وَكَمۡ اَهۡلَكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍؕ هَلۡ تُحِسُّ مِنۡهُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَوۡ تَسۡمَعُ لَهُمۡ رِكۡزًا‏۝
اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے، کیا آپ ان میں سے کسی کا وجود بھی دیکھتے ہیں یا کسی کی کوئی آہٹ بھی سنتے ہیں (سورۃ مریم آیت 98)​
13) صَیْحَۃً:
آواز پھاڑ پھاڑ کر چلانا، صور پھونکنے کی آواز، ایسی آواز جس سے دل دہل جائیں، گرج دار آواز، دھماکہ، یعنی جب کسی بھی آواز میں شدت پیدا ہو جائے۔ ہر بے معنی اور بلند آواز کو صیحۃ کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَخَذَتۡهُمُ الصَّيۡحَةُ مُشۡرِقِيۡنَۙ‏۝
پس انہیں طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی سخت آتشیں کڑک نے آلیا (سورۃ الحجر آیت 73)​
14) صَاخّۃ:
ایسی کرخت آواز جو کانوں کو بہرا کر دے۔ کان پھوڑنے والی آواز، سخت قسم کا شور و غل۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ۝
پھر جب کان پھاڑ دینے والی آواز آئے گی (سورۃ عبس آیت 33)​
15) تَغَیُّظ:
جوش غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ (منجد) مجازًا جہنم کی آگ میں تیز اور جوش کی وجہ سے پیدا شدہ آوازیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
اِذَا رَاَتۡهُمۡ مِّنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ سَمِعُوۡا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيۡرًا‏۝
جب وہ (آتشِ دوزخ) دور کی جگہ سے (ہی) ان کے سامنے ہوگی یہ اس کے جوش مارنے اور چنگھاڑنے کی آواز کو سنیں گے (سورۃ الفرقان آیت 12)​
16) ھَدّ:
کسی عمارت یا دیوار یا ستون وغیرہ کے گرنے کی آواز، دھڑام کی آواز، ارشاد باری تعالی ہے:
تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡهُ وَتَـنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَتَخِرُّ الۡجِبَالُ هَدًّاۙ‏۝
کچھ بعید نہیں کہ اس (بہتان) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں (سورۃ مریم آیت 90)​
17) غَلْی:
ہنڈیا کے ابلنے اور جوش مارنے کی آواز، کھولنے کی آواز۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
كَالۡمُهۡلِ يَغۡلِىۡ فِىۡ الۡبُطُوۡنِۙ‏۝
پگھلے ہوئے تانبے کی طرح وہ پیٹوں میں کَھولے گا (سورۃ الدخان آیت 45)​
18) صَلصَال:
خشک اور پختہ مٹی کے کھنکنے کی آواز، اصل میں یہ صلّال تھا۔ ایک لام ص سے بدل گیا۔ خشک مٹی جو لوہے کی طرح بجے (منجد) یعنی وہ آواز جو کسی چیز میں میخ یا کیل کے ٹھونکنے سے پیدا ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ كَالۡفَخَّارِۙ‏۝
اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا (سورۃ الرحمن آیت 14)​
19) قَارِعَۃ:
قرع کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر مارنا، قرع الباب بمعنی دروازہ کھکھٹانا (منجد) یعنی جب اس کے ایک پٹ کو دوسرے پٹ سے ٹکرائے یا ہاتھ مار کر یا کسی اور چیز سے آواز پیدا کی جائے۔ قیامت کو اللہ تعالی نے قارعۃ کہا ہے کہ اس وقت ایک دوسرے سے ٹکرا کر آوازیں پیدا ہوں گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اَلۡقَارِعَةُۙ‏۝ مَا الۡقَارِعَةُ‌ۚ‏۝
کھڑکھڑا ڈالنے والی۔ کیا ہے وہ کھڑکھڑا ڈالنے والی (سورۃ القارعۃ آیت 1،2)​
ماحصل:
1. صوت: عام ہے، ہلکی ہو بلند جاندار کی ہو یا بے جان کی ہو، بے معنی ہو یا بامعنی ہو۔
2. صدّ: چیخنا چلانا یا کراہنا۔
3. صرخ: فریاد کی صورت میں چلانے کی آواز
4. ھمس: انسان کی کسی بھی حرکت کی ہلکی سی آواز
5. حسیس: قدموں کی آہٹ کی طرح خفیف آواز
6. مکاء: سیٹی کی قسم کی آواز
7. تصدیۃ: تالی کی قسم کی آواز
8. ضبح: دوڑتے وقت ہانپنے کی آواز
9. خوار: بچھڑے کی آواز
10. زفیر: گدھے کے رینگنے کی ابتداء
11. شھیق: گدھے کے انتہا
12. لھث: کتے کے ہونکنے کی آواز
13. رکز: مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی ہلکی آواز
14. صیحۃ: بلند اور بے معنی آواز
15. صاخّۃ: کان پھوڑنے والی کرخت اور بلند آواز
16. تغّیظ: غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ
17. ھدّ: دھڑام کی آواز
18. غلی: ہنڈیا کے ابلنے کی آواز
19. صلصال: پختہ مٹی کے کھنکنے کی آواز
20. قارعۃ: کھڑکھڑانے کی آواز


مترادفات القرآن سے انتخاب


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
آواز اور اس کی اقسام


عربی میں ہر قسم کی آواز کے لیے صوت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ وہ خواہ بولنے سے پیدا ہو یا چیزوں کے ٹکرانے سے۔ صوت کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے
"منہ سے نکلی ہوئی شے اگر الفاظ اور حروف پر مشتمل نہ وہ تو وہ صوت ہے"
یہ تعریف قابل اعتبار نہیں۔ قرآن میں ہے:
یٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِىِّ
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو (سورۃ الحجرات آیت 2)​
ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی حضور اکرمﷺ سے بامعنی کلام ہوتی تھی۔ بے معنی آوازیں نہ ہوتی تھیں۔ البتہ ابن فارس سے صوت کی جامع تعریف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں
" ہر وہ کچھ جو سننے والے کے کان سے ٹکرائے وہ آواز (صوت) ہے''
قرآن کریم میں کچھ تو جانداروں کی آوازیں مذکور ہیں اور کچھ بے جان چیزوں کی۔ ہم اسی ترتیب سے انہیں بیان کرتے ہیں۔
جانداروں کی آوازیں:
صَدّ، صرخ، ھَمْس، حَسِیْس، مُکَاءً، تَصْدِیَۃ، ضَبَح، خُوَار، زَفِیْر، شَھِیْق، لھث
1) صَدّ (یَصِدُّ صَدِیْدًا):

کسی انسان کے گرنے کے وقت کی چیخ و پکار اور کراہنے کی آواز۔ لیکن یہ لفظ قرآن کریم میں محض چیخنے چلانے کے معنوں میں آیا ہے۔
وَلَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡيَمَ مَثَلاً اِذَا قَوۡمُكَ مِنۡهُ يَصِدُّوۡنَ‏۝
اور جب (عیسٰی) ابنِ مریم (علیہما السلام) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ چلا اٹھتے تھے۔ (سورۃ زخرف آیت 57)​
2) صرخ:
مصیبت اور گھبراہٹ میں چلانے کی آواز، فریاد، ارشاد باری تعالی ہے۔
وَهُمۡ يَصۡطَرِخُوۡنَ فِيۡهَا ‌ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَـعۡمَلۡ صَالِحًـا غَيۡرَ الَّذِىۡ كُـنَّا نَـعۡمَلُؕ
اور وہ اس دوزخ میں چِلّائیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں (یہاں سے) نکال دے، (اب) ہم نیک عمل کریں گے ان (اَعمال) سے مختلف جو ہم (پہلے) کیا کرتے تھے۔ (سورۃ فاطر آیت 37)​
3) ھَمْس:
انسان کی کسی بھی حرکت کی آواز، کھسر پھسر یا کانا پھوسی کی آواز (منجد)۔ گویا اس سے مراد انسان کی کوئی بھی دھیمی اور قابل محسوس آواز ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَوۡمَٮِٕذٍ يَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِىَ لَا عِوَجَ لَهٗ‌ؕ وَخَشَعَتِ الۡاَصۡوَاتُ لِلرَّحۡمٰنِ فَلَا تَسۡمَعُ اِلَّا هَمۡسًا‏۝
اس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلتے جائیں گے اس (کے پیچھے چلنے) میں کوئی کجی نہیں ہوگی، اور (خدائے) رحمان کے جلال سے سب آوازیں پست ہوجائیں گی پس تم ہلکی سی آہٹ کے سوا کچھ نہ سنوگے۔ (سورۃ طہ آیت 108)​
4) حَسِیْس:
قدموں کی آہٹ، چاپ، خفیف سی آواز (منجد) آگ بھڑکنے کی آواز۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَا يَسۡمَعُوۡنَ حَسِيۡسَهَا‌ۚ وَهُمۡ فِىۡ مَا اشۡتَهَتۡ اَنۡفُسُهُمۡ خٰلِدُوۡنَ‌ۚ‏۝
وہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور وہ ان (نعمتوں) میں ہمیشہ رہیں گے جن کی ان کے دل خواہش کریں گے (سورۃ انبیاء آیت 102)​
5) مَکَاءً:
منہ سے سیٹی بجانا (منجد) اور اس میں موسیقی کے تمام سر تال بھی شامل ہیں۔
6) تَصْدِیَۃ:
دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجانا اور اس میں تمام ساز و مضراب شامل ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً‌ ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏۝
اور بیت اللہ (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (نام نہاد) نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، سو تم عذاب (کا مزہ) چکھو اس وجہ سے کہ تم کفر کیا کرتے تھے ( سورۃ انفال آیت 35)​
7) ضَبَحَ:
گھوڑے کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اس کے ہانپنے کی آواز۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَالۡعٰدِيٰتِ ضَبۡحًا۝
(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں (سورۃ العادیات آیت 1)​
8) خُوَار:
بیل، گائے یا بچھڑے کی آواز۔ قرآن کریم میں ہے:
وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰى مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ حُلِيِّهِمۡ عِجۡلاً جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ
اور موسٰی (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا (جو) ایک جسم تھا، اس کی آواز گائے کی تھی، (سورۃ الاعراف آیت 148)​
9) زَفِیْر:
زفر بمعنی لمبا سانس باہر نکالنا اور زفیر بمعنی گدھے کے رینگنے کی ابتدائی آواز جو آہستہ آواز سے اونچی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
10) شَھِیْق:
گدھا جب رینگنے کو ختم کرنے لگے تو آخر کی آواز جو اونچی آواز سے پست ہونا شروع ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَمَّا الَّذِيۡنَ شَقُوۡا فَفِىۡ النَّارِ لَهُمۡ فِيۡهَا زَفِيۡرٌ وَّشَهِيۡقٌۙ‏
سو جو لوگ بدبخت ہوں گے (وہ) دوزخ میں (پڑے) ہوں گے ان کے مقدر میں وہاں چیخنا اور چلّانا ہوگا ( سورۃ ھود آیت 106)​
یہ آوازیں یا تو جہنم کی آگ سے پیدا ہوں گی جو انہیں سننا پڑیں گی یا گرمی اور پیاس کی شدت سے خود ان کے اندر سے منہ کے راستہ ایسی آوازیں نکلیں گی۔
11) لھث:
کتے کے ہانپنے کی آواز جس کی وجہ گرمی یا پیاس کی شدت ہوتی ہے اور وہ زبان باہر نکال کر ہانپنے یا ہونکنے لگتا ہے (منجد)۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰهُ بِهَا وَلٰـكِنَّهٗۤ اَخۡلَدَ اِلَى الۡاَرۡضِ وَاتَّبَعَ هٰوٮهُ‌ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الۡـكَلۡبِ‌ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ اَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَث
اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان (آیتوں کے علم و عمل) کے ذریعے بلند فرما دیتے لیکن وہ (خود) زمینی دنیا کی (پستی کی) طرف راغب ہوگیا اور اپنی خواہش کا پیرو بن گیا، تو (اب) اس کی مثال اس کتے کی مثال جیسی ہے کہ اگر تو اس پر سختی کرے تو وہ زبان نکال دے یا تو اسے چھوڑ دے (تب بھی) زبان نکالے رہے۔ ( سورۃ الاعراف آیت 17)​
بے جان چیزوں کی آوازیں:
12) رِکْز:

خفیف اور دھیمی آواز اور بعض کے نزدیک بھنک، مکھی کی بھنبھناہٹ، ارشاد باری تعالی ہے:
وَكَمۡ اَهۡلَكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍؕ هَلۡ تُحِسُّ مِنۡهُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَوۡ تَسۡمَعُ لَهُمۡ رِكۡزًا‏۝
اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے، کیا آپ ان میں سے کسی کا وجود بھی دیکھتے ہیں یا کسی کی کوئی آہٹ بھی سنتے ہیں (سورۃ مریم آیت 98)​
13) صَیْحَۃً:
آواز پھاڑ پھاڑ کر چلانا، صور پھونکنے کی آواز، ایسی آواز جس سے دل دہل جائیں، گرج دار آواز، دھماکہ، یعنی جب کسی بھی آواز میں شدت پیدا ہو جائے۔ ہر بے معنی اور بلند آواز کو صیحۃ کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَخَذَتۡهُمُ الصَّيۡحَةُ مُشۡرِقِيۡنَۙ‏۝
پس انہیں طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی سخت آتشیں کڑک نے آلیا (سورۃ الحجر آیت 73)​
14) صَاخّۃ:
ایسی کرخت آواز جو کانوں کو بہرا کر دے۔ کان پھوڑنے والی آواز، سخت قسم کا شور و غل۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ۝
پھر جب کان پھاڑ دینے والی آواز آئے گی (سورۃ عبس آیت 33)​
15) تَغَیُّظ:
جوش غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ (منجد) مجازًا جہنم کی آگ میں تیز اور جوش کی وجہ سے پیدا شدہ آوازیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
اِذَا رَاَتۡهُمۡ مِّنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ سَمِعُوۡا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيۡرًا‏۝
جب وہ (آتشِ دوزخ) دور کی جگہ سے (ہی) ان کے سامنے ہوگی یہ اس کے جوش مارنے اور چنگھاڑنے کی آواز کو سنیں گے (سورۃ الفرقان آیت 12)​
16) ھَدّ:
کسی عمارت یا دیوار یا ستون وغیرہ کے گرنے کی آواز، دھڑام کی آواز، ارشاد باری تعالی ہے:
تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡهُ وَتَـنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَتَخِرُّ الۡجِبَالُ هَدًّاۙ‏۝
کچھ بعید نہیں کہ اس (بہتان) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں (سورۃ مریم آیت 90)​
17) غَلْی:
ہنڈیا کے ابلنے اور جوش مارنے کی آواز، کھولنے کی آواز۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
كَالۡمُهۡلِ يَغۡلِىۡ فِىۡ الۡبُطُوۡنِۙ‏۝
پگھلے ہوئے تانبے کی طرح وہ پیٹوں میں کَھولے گا (سورۃ الدخان آیت 45)​
18) صَلصَال:
خشک اور پختہ مٹی کے کھنکنے کی آواز، اصل میں یہ صلّال تھا۔ ایک لام ص سے بدل گیا۔ خشک مٹی جو لوہے کی طرح بجے (منجد) یعنی وہ آواز جو کسی چیز میں میخ یا کیل کے ٹھونکنے سے پیدا ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ كَالۡفَخَّارِۙ‏۝
اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا (سورۃ الرحمن آیت 14)​
19) قَارِعَۃ:
قرع کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر مارنا، قرع الباب بمعنی دروازہ کھکھٹانا (منجد) یعنی جب اس کے ایک پٹ کو دوسرے پٹ سے ٹکرائے یا ہاتھ مار کر یا کسی اور چیز سے آواز پیدا کی جائے۔ قیامت کو اللہ تعالی نے قارعۃ کہا ہے کہ اس وقت ایک دوسرے سے ٹکرا کر آوازیں پیدا ہوں گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اَلۡقَارِعَةُۙ‏۝ مَا الۡقَارِعَةُ‌ۚ‏۝
کھڑکھڑا ڈالنے والی۔ کیا ہے وہ کھڑکھڑا ڈالنے والی (سورۃ القارعۃ آیت 1،2)​
ماحصل:
1. صوت: عام ہے، ہلکی ہو بلند جاندار کی ہو یا بے جان کی ہو، بے معنی ہو یا بامعنی ہو۔
2. صدّ: چیخنا چلانا یا کراہنا۔
3. صرخ: فریاد کی صورت میں چلانے کی آواز
4. ھمس: انسان کی کسی بھی حرکت کی ہلکی سی آواز
5. حسیس: قدموں کی آہٹ کی طرح خفیف آواز
6. مکاء: سیٹی کی قسم کی آواز
7. تصدیۃ: تالی کی قسم کی آواز
8. ضبح: دوڑتے وقت ہانپنے کی آواز
9. خوار: بچھڑے کی آواز
10. زفیر: گدھے کے رینگنے کی ابتداء
11. شھیق: گدھے کے انتہا
12. لھث: کتے کے ہونکنے کی آواز
13. رکز: مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی ہلکی آواز
14. صیحۃ: بلند اور بے معنی آواز
15. صاخّۃ: کان پھوڑنے والی کرخت اور بلند آواز
16. تغّیظ: غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ
17. ھدّ: دھڑام کی آواز
18. غلی: ہنڈیا کے ابلنے کی آواز
19. صلصال: پختہ مٹی کے کھنکنے کی آواز
20. قارعۃ: کھڑکھڑانے کی آواز


مترادفات القرآن سے انتخاب


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ بہت خوب جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا
 
Top