سچی خوشی

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
*سچی خوشی*
چاچا! سموسہ کتنے
کا ہے؟
پچیس روپے بچے۔
بچے نے جیب میں ہاتھ مار کر شاید پاتال تک ٹٹولا اور (تھوڑا اداس ہو کر ) آٹومیٹک دھیمی ہوتی ہوئی آواز میں پوچھا
اور پکوڑے؟
نوے روپے پاؤ.
حلوائی نے تازہ اور خستہ سموسے پکوڑے کڑاھے سے نکال کر نُچڑنے کے لئے جالی دار تھال میں رکھے۔
اب کے بچہ بُسی ہوئی شکل کے ساتھ واپس مڑنے لگا۔ بچے کا چھوٹا بھائی اس کا بازو کھینچنے لگا۔
"بائی ! او بائی ۔۔۔۔۔ لے لے ناں پکوڑے۔ بھوک لگ رئی آ۔"
سکول سے چھٹی ہوئی تھی۔ بڑا بغیر کچھ بولے ننھے ننھے مگر ڈھائی ڈھائی من کے پیر اٹھاتا خود کو پکوڑوں کی دکان سے آگے گھسیٹ رہا جبکہ چھوٹا اسے واپس کھینچ رہا تھا۔حلوائی کا پکوڑے بناتا ہاتھ یک لخت رک گیا۔
اوئے بچے ! اوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔او سکولی !
گلی کے شور میں اس کی آواز بکھر گئی۔ ایک دوسرے بچے کو اشارہ کرکے اس نے دونوں بھائیوں کو واپس بلایا
کیا ہوا؟
سموسے پکوڑے لئے نہیں؟
بچہ شرما سا گیا۔ چاچا پیسے پورے نی ہیں۔
اوئے چل کوئی بات نہیں۔ جتنے ہیں اتنے دے جانا ۔ چھوٹے کے منہ پر رونق آئی۔ چار گرما گرم سموسے اور پاؤ بھر پکوڑے اس نے تھیلے میں ڈالے ۔

کیچپ چٹنی ڈالوں؟
ہاں چاچا وہ میٹھی والی بھی۔
ایک تھیلی میں بھر کر وہ بھی ڈال دی۔
"اے لو ۔ لے جاؤ میرا پُتر ۔ "
بچے نے جیب سے بیس روپے نکال کر دے دیے۔
حلوائی نے چپ چاپ رکھ لئے۔
لوگ پوچھتے ہیں سچی خوشی کیا ہے؟
دوسرے اس کے جواب میں الف لیلے تا میں ہوں مغرور لیلے تک کا فلسفہ بیان کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں سچی خوشی فقط اسی طرح کی ہوا کرتی ہے۔ جس سے دینے والا ، لینے والے اور دیکھنے والے تک ہر شخص مستفید ہو۔
سکون اور خوشی حاصل کرنے کے لئے آپ کا کوئی بڑا آدمی بننا ضروری نہیں۔ سکون اور خوشی تو ایک پکوڑے والا بھی حاصل کر سکتا ہے۔..
 
Top