زبان کی حفاظت

Akbar Aurakzai

وفقہ اللہ
رکن

تمام الوهيت كي تعريفيں اس ذات کےلیے جس نے هميں بے شمار نعمتوں سے نوازا,اگرهم اس كا شمار كرنے لگ جائيں تو شمار نهيں كر پائيں گے یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے. ان بےشمار نعمتوں میں زبان بہت بڑی نعمت ہے جو انسانی قلوب اور ازہان کی ترجمان ہے اس کا صحیح استعمال حصول ثواب اور غلط استعمال پر عذاب کی وعید ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اصلاحِ زبان کو ضروری قرار دیا ہے چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ،( وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ) (صحیح بخاری:۶۰۱۸، صحیح مسلم: ۴۷/۷۴)​

جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے(اسے چاہئے یا تو) وہ بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رہے اھل ایمان کی گفتگو پر تاثیر اور بہترین اخلاق پر مبنی ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ فضولیات سے احتراز کرتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا
"من حسن اسلام المرء ترکه مالا یعنیه" (مؤطا امام مالک:۹۰۳/۲ ح ۷۳۷ ا وسندہ حسن )
فضول باتوں کو چھوڑ دینا ، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے ۔ موطا امام مالک اور اسی طرح ایک اچھے بہترین مسلمان کی زبان سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں ۔چنانچہ سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!مسلمانوں میں سے کون افضل ہے ؟آپﷺ نے فرمایا: "من سلم المسلمون من لسانه ویدہ" جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (بخاری : ح ۱۱، مسلم ۴۲/۶۶)کہتے ہیں کہ زبان کا نشتر (لوہے کے) نیزے سے زیادہ گہرا زخم کرتا ہے لہذا بہترین مسلمان بننے کے لئے اپنی زبان پر کنٹرول اور دوسرے مسلمان کی عزت نفس کا خیال بہت ضروری ہے ، ،اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، الخ")بخاری: ۶۷)
یعنی ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کا خون، مال اور اس کی عزت آبرو قابل احترام ہیں۔ جو بھی مسمان اپنا زبان اپنے کنٹرول میں رکھے ان کے بارے میں آُپ ﷺ نے فرمایا ( مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الجَنَّة ) جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ )بخاری : ۶۴۷۴(جس طرح زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بنا پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ٹھیک اسی طرح ان دونوں کی حفاظت کی کوتاہی کرنے والوں کے لئے تنبیہ بلیغ یہی ہے ، چنانچہ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" أتدرون ما أکثر ما یدخل الناس النار ؟ الأجوفان: الفم و الفرج ۔۔ (سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ ) ( اسنادہ صحیح( کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کثرت کے ساتھ کون سی چیز جہنم میں داخل کرے گی؟ وہ دو کھوکھلی چیزیں ، زبان اور شرمگاہ ہیں۔ زبان کے خطرات: سیدنا سفیان بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم مجھے ایسی بات بتلایئے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں، آپﷺ نے فرمایا" قل ربی اللہ ثم استقم" تم کہو میرا رب اللہ ہے، پھر اس پر جم جاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ خطرے والی چیز جس کا آپ کو مجھ سے اندیشہ ہو کیا ہے؟
"فأخذ بلسان نفسه ثم قال هذا" آپﷺ نے اپنی زبان پکڑی ، پھر فرمایا: یہ(زبان) ہے۔ (سنن ترمذی: ح۲۴۱۰واسنادہ صحیح(ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوچھنے پر نما ز، زکوۃ ، روزہ، حج بیت اللہ اور جہاد کے متعلق بالتفصیل بیان فرمایا: آخر میں فرمایا: ألا أخبرک بملاک ذلک کله؟ کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں جس پر ان سب کا دار ومدار ہے؟ میں نے کہا : بلی یا رسول اللہ، اے اللہ کے رسول کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا :"کف علیک هذا" اس کو روک کے رکھ، میں عرض کیا، کیا ہم زبان کے ذریعے جو گفتگو کرتے ہیں اس پر بھی ہمار ی گرفت ہوگی؟ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں تجھے گم پائے لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (گفتگو) کے سوا اور کیا ہے!؟ (سنن ترمذی: ح ۲۶۱۶وسندہ حسن(
معلوم ہوا کہ زبان کا غلط استعمال آدمی کے اعمال(نماز ، روزہ، زکوۃ، حج، جہاد) وغیرہ کو برباد کرسکتا ہے اور جنت کی بجائے جہنم کا ایندھن بنا سکتا ہے۔ أعاذنا اللہ منھا
پہلے تولو۔۔۔پھر بولو: ہمیشہ دوران گفتگو تدبر و تفکر کو ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ زبان کی ذرا سی بے اعتدالی انسان کو دنیا و آخرت کے آلام و مصائب سےدو چار کر سکتی ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ )سورۃ ق آیت 18(ترجمہ: انسان جو لفظ بھی بولتا ہے تو اس کے پاس ہی ایک نگران موجود ہوتا ہے۔
یعنی انسان کی ہر بات ریکارڈ ہوتی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آدمی ایک بات کرتاہے اس میں غور و فکر نہیں کرتا اور وہ اس بات کی وجہ سے مشرق و مغرب کے درمیان مسافت سے بھی زیادہ جہنم کی طرف گر جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری: ۶۴۷۷، صحیح مسلم:۲۹۸۸/۴۹(نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء زبان کی منت سماجت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:"اتق اللہ فینا" ہمارے بارے میں تجھے اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ بلاشبہ ہمارا معاملہ تیرے ساتھ وابستہ ہے، اگر تو درست رہے گی تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تجھ میں ٹیڑھا پن آگیا تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔)سنن ترمذی: ۲۴۰۷ وسندہ حسن(یعنی پہلے زبان درازی ، گالی گلوچ ہوتی ہے پھر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے، تو مار جسم کو ہی برداشت کرنی پڑتی ہے اسی لئے جسم کے سارے اعضاء زبان کے سامنے منت سماجت کرتے ہیں، ہر دو احادیث سے زیادہ واضح ہوگیا ہے کہ زبان کا استعمال صحیح نہ کرنے کی وجہ سے دونوں جہانوں میں خسارے کا سامنا ہے۔
خاموشی میں نجات : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:"من صمت فقد نجا"جو شخص خاموش رہا وہ نجات پاگیا(سنن ترمذی : ۲۵۰۱ وسندہ حسن مزید تحقیق کے لئے دیکھئے "أضواء المصابیح" رقم ۳۸۳۶)مزید ارشاد فرمایا: لا تکثروا الکلام بغیر ذکر الله فإن کثرة الکلام بغیر ذکر الله تعالی قسوۃ للقلب! وإن أبعد الناس من الله القلب القاسي" (سنن ترمذی: ح۲۴۱۱ و سندہ حسن )اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو اس لئے کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں دل کی سختی ہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل (والا آدمی) ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جاننا چاہئے کہ ہر مکلّف انسان کے لئے مناسب ہے کہ وہ ہر قسم کی گفتگو سے اپنی زبان کی حفاظت کرے، صرف وہ گفتگو کرے جس میں مصلحت واضح ہو، اور جہاں مصلحت کے اعتبار سے بولنا اور خاموش رہنا برابر ہوں تو پھر خاموش رہنا سنت ہے۔ اس لئے کہ بعض دفعہ جائز گفتگو بھی حرام یا مکروہ تک پہنچا دیتی ہے اور ایسا عام طور پر ہو تا ہے اور سلامتی کے برابر کوئی چیز نہیں (ریاض الصالحین: ۳۸۹/۲ طبع دار السلام)اور اخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
طالب دعا : اکبر حسین اوركزئي
 
Top