بد انتظامی

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
یہاں پر ہو رہی بد اِنتظامی
جہاں دیکھو وہاں خامی ہی خامی

ہمارا خُون پی کر، چاہتے ہیں
نہ ہو گی اِن رذِیلوں کی غُلامی

ہمارے شعر پڑھنا مانگتے ہیں
ہیں اِن میں عام کُچھ، کُچھ ہیں عوامی

ہمیں بھی لَوٹ جانا ہے کِسی دِن
یہاں سے اُٹھ گئے نامی گِرامی

بنا مجذُوب کوئی اِس میں کھو کر
ہُؤا ہے عِشق میں کوئی سوامی

تقاضہ دِل کا اُس نے یُوں کِیا تھا
ہمیں بھرنی پڑی ہر حال حامی

بنایا مُشکلوں سے ہم نے خیمہ
طنابیں کھینچ کے ہے چوب تھامی

کِیا ہے ترک ہم نے آنا جانا
کرے بے کل تِری جادُو خرامی

اگر شعروں میں تھوڑا دم ہے حسرتؔ
تو مُرشد بھی تو ہیں سعدیؔ و جامیؔ


رشِید حسرتؔ
 
Top