انسان کے اندر کا ڈر

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جنھیں ڈر ہے کہ میں فیل ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جنہیں ڈر ہے کہ نمبر اچھے نہیں آئے تو کیا ہو گا۔ جنہیں ڈر ہے کہ اگر جاب نہیں ملی تو آگے کیا ہو گا۔ جنہیں ڈر ہے کہ آگے شادیاں نہ ہوئیں تو کیا ہوگا۔ جنہیں ڈر ہے کہ اپنے علاقے، برادری میں نام نہ بنا سکا تو کیا ہو گا۔ جنہیں ڈر ہے کہ فلاں کے چاچے کے، تائے کے، پھوپھی کے پتر کے ساتھ میرا مقابلہ چل رہا ہے اور امتحان کے اندر اگر میری بی ڈویژن آگئی تو میرا کیا ہو گا۔ جنہیں ڈر ہے کہ شاید میں ظاہری لحاظ سے خوبصورت نہیں ہوں کہیں کوئی انگلی نہ پوائنٹ کر دے۔ جنہیں ڈر ہے کہ کہیں کوئی پیسے کا طعنہ نہ مار دے۔ جنہیں ڈر ہے کہ کوئی اوقات نہ یاد دلا دے۔ جنہیں ڈر ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ تجھے فلاں نہیں آتا، یوں نہیں آتا، فوں نہیں آتا، شوں نہیں آتا۔ جنہیں ڈر ہے کہ کوئی ذلیل نہ کر دے کہ تجھے ویسٹرن کلچر کی پہچان نہیں۔ جنہیں ڈر ہے کہ کوئی ذلیل نہ کر دے کہ تجھے پنڈوں دیہاتوں کی پہچان نہیں۔
یہ ڈر جو لوگ صدیوں سے ڈالتے آئے ہیں اپنے جھوٹ کو جسٹیفائے کرنے کے لیے کہ کہیں یہاں پر ایک بڑا لیڈر نہ پیدا ہو جائے۔ کہ کہیں ان کے اندر کا جھوٹ کل کو ان کے سر پر کھڑا نہ ہو جائے کہ اگر ایک امام کھڑا ہو گيا۔ تو لوگ اصل میں معاشرہ، سوسائٹی اس لیے نہیں ڈرا رہا ہوتا کہ وہ خود ڈرے ہوئے ہوتے ہیں وہ اس لیے ڈرا رہا ہوتا ہے تا کہ انہیں اپنے آپ کو یہ نہ کہنا پڑ جائے کہ "یہ کیسے کر گیا"۔ تو زندگی بیٹا ،بچھو، سانپ، کتوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ بچھو یہ سانپ اور یہ کتے بلے زندگی میں رہیں گے بیٹا مگر شیر کی شان دس کتوں میں جو میرے بابا نے مجھے ایک دفعہ کہا تھا کہ پتر! دس کتے بھونک رہے ہوئے تو گیارہواں نہ بنیں۔ شیر شیر ہوتا ہے، بیٹا وہ اپنی خاموشیوں سے رام کرتا ہے سلطنتوں کو، وہ اپنی خاموشیوں سے مزاج دیتا ہے لوگوں کو۔
ایک بڑا انسان جو معاشروں کو ایک معاشرہ دے کر چلا جاتا ہے، جو کائنات کو اپنی ایک کائنات دے کر چلا جاتا ہے۔ جو فلسفوں کو ایک تحریر بخشتا ہے اور انسانیت کو ایک تقریر بخشتا ہے بیٹا اس کی سب سے بڑی چیز ہوتی ہے اس کی "خودی"۔ اس کی "میں"۔ تکبر والی نہیں میں بلکہ اعتماد والی میں کہ میں میں ہوں تمہارے ہاتھ کا کھلونا نہیں ہوں۔ یو کانٹ ڈیفائن می۔ یو کانٹ لمٹ مائی پوٹنیشئل۔ یو کانٹ لمٹ مائی ڈریمز۔ میری جیت بھی میری، میری ہار بھی میری، میں اڑاؤں گا اپنا مذاق تو کون ہوتا ہے میرا مذاق اڑانے والا۔ میں برباد کروں گا اپنے آپ کو تو کیا برباد کرے گا مجھے۔ میں برباد کر دیتا ہوں اپنے آپ کو۔
جب ایک انسان اپنے آپ سے مل لیتا ہے بیٹا۔ وہ لمحے جب انسان اپنے آپ سے ملتا ہے۔ اس ورژن سے نہیں جو لوگوں نے بنایا ہوتا ہے۔ دا کاسمیٹک یو۔ جب تم اپنے آپ سے ملو گے اور اپنے گند کو ایکسپٹ کرے گا، اپنی حیثیت کو قبول کرے گا۔ اپنے اندر کی ہر چیز کو قبول کرے گا۔ اچھے کو بھی قبول کرے گا۔ برے کو بھی قبول کرے گا۔ تو پھر دنیا کیوں میٹر کرے؟ تمہیں کیوں چاہیئیں لوگوں کی محتاجیاں؟ تجھے کیوں چاہیئیں لوگوں کے سجدے؟ تجھے کیوں چاہیئں لوگوں کی ایپریسئیشن؟ تجھے کیوں چاہیں ایسے لوگ جو بیٹھ کر تیری تعریف کریں؟ کیوں چاہیئیں تمہیں پبلک ریکگنیشن؟ کوئی چیز میٹر نہیں کرتی۔ تو خود اہم ہے اپنے لیے، میں بھی اہم نہیں۔ میری باتوں سے بھی کیوں فرق پڑنا چاہیے؟
ڈر ایک نیچرل پارٹ ہے اور خوف ایک پاور فل سورس ہے کہیں پہنچانے کا۔ ہم نہیں کہتے خوف نکال کے، مائنس کر کے کوئی سرجری کر کے نکال دیں۔ خوف اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے، کبھی کبھی۔ ایک انسان کی تیزی کو لگام لگانے کے لیے خوف اچھی چیز ہے۔ کسی کو چڑھی ہوتی ہے ناں کہ میں فورا فیصلہ کر دوں، وہاں ڈر اچھی چیز ہے۔ وہ اس کے قدم کو روکتی ہے۔ وہ اس کی جذباتیت کو لگام لگاتی ہے۔ وہ خوف اس کی دو روپے کے اندر دو منٹ کی کامیابی کی سیڑھی پر چلنے کو لگام لگاتی ہے۔ خوف بری چیز نہیں ہے۔ خوف تو تمہارے بے ڈھنگے پن کو لمٹ کرتا ہے۔ خوف آپ کی بد تہذیبی، بدتمیزیوں کو لمٹ لگاتا ہے یہاں تو اچھا ہے۔
مگر وہ خوف جو شک پیدا کر دے۔ وہ خوف جو قدم اسٹریٹیجکلی نہیں پیچھے روکے، اس لیے پیچھے روک دے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ میرا اپنا آپ کیا کہے گا؟ میں معاشرے کو فیس کیسے کروں گا؟ میں اس ایکسیلنس کے لیے قدم بڑھانے میں ریوڑ سے ہٹ کے، اگر میں ہٹ گیا پیچھے تو لوگ کیا کہیں گے؟ دنیا کیا کہے گی؟ بڑا خوف یہی ہوتا ہے۔
اس کے بعد ایک اور خوف کہ میرا اپنا آپ مجھے کیا کہے گا اگر میں نے یہ کام کر دیا۔ آج اگر میں وقت ضائع کرنا بند کر دیا، پارٹی کرنی بند کر دی اور فضول میں ٹائم ویسٹ کرکے فلاں دوست کو خوش کرنا بند کر دیا، وہ کیا کہے گا؟ اس لیے دنیا میں سب سے بڑا خوف ایک انسان انسان کو نہیں دے سکتا، دنیا میں سب سے بڑا خوف انسان خود اپنے آپ کو دیتا ہے۔
دو جنگیں تمہارے اندر ہوتی ہیں۔ دو جنگیں چل رہی ہیں تمہارے اندر۔ ایک تیرے اندر کا وہ امام ہے جس کے ساتھ اللہ نے تجھے پیدا کیا تھا۔ ایک تیرے اندر کی وہ حیثیت ہے جس کے ساتھ تجھے اللہ نے پیدا کیا تھا۔ ایک تیرے اندر وہ پہاڑ وہ آتش فشاں ہے، وہ آگ ہے، وہ طوفان ہے، وہ ہوائیں ہیں تیرے اندر۔ تو بنا تھا وہاں اوپر جانے کے لیے۔
اور دوسرا تیرے اندر کا آپ ہے:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوءِ
کے تحت وہ تجھے لمٹ کرتا رہے گا، ڈراتا رہے گا، ذلیل کرتا رہے گا۔ اپنی اوقات، اپنی حیثیتیں، لوگ، معاشرہ، سوشل کنفرمٹی، سسٹم وہ تجھے بتاتا رہے گا، اوقات میں رہ اپنی، حیثیت میں رہ اپنی۔ جو لوگ ہیں وہی کرنا ہے۔ اور وہ تیری زندگی میں کامیابی کو ڈگری، جابز، کارپوریٹس، کمپنیز، گاڑیاں، دو کنال، چار کنال، ایک ایکڑ، یہی دکھاتا رہے گا، کہ یہ نہیں ہے تو تو ختم ہو جائے گا۔ کامیابی کی تعریف انسان کے کردار کا ارتفع نہیں ہے، کامیابی کی ڈیفینیشن حسی فزیولوجیکل لحاظ سے گاڑیاں، دولت، پیسہ، سوسائٹی، سوشل سرکل۔
دنیا کے سب سے بڑے لوگ سب سے زیادہ وقت اپنے آپ کے ساتھ گزارتے ہیں بیٹا اور تو لوگوں کی پرواہ کر رہا ہے۔ اپنے آپ سے ملاقات کر۔ کیوں کہ شروعات میں بھی کوئی نہیں ہو گا اور سفر میں بھی تجھے بازو نہیں ملنے۔ یہ بے وفائیوں کا سفر ہے بیٹا۔ لائف از دا ون آف دا موسٹ وینیمس جرنیز فرام ون پوائنٹ ٹو این ادر پوائنٹ۔ لوگوں کو قائل کرنا بند کر۔ ایک بڑا لیڈر، ایک بڑا آدمی وہ آواز نہیں کرتا تیری زندگی کے اندر تیرے ارد گرد اللہ کی مخلوق ہونی چاہیے جو تیرے حق میں مقدمہ لڑے۔
اپنی زبان سے لوگوں کو قائل کرے گا ارے تیرا اپنا آپ نہیں قائل ہو گا اور تو لوگوں کو کہہ رہا ہے میں یہ کر سکتا ہوں۔ تو لوگوں کو کہہ رہا ہے "آئی مینٹ فار سمتھنگ" دیٹس ناٹ ہیپننگ مین۔ لڑنے دے کائنات کو تیرا مقدمہ۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے تجھے بہت مثبت، پوزیٹو، اسٹرانگ، فوکسڈ، سیلف پیوریفیکیشن، سیلف آگمینٹیشن، نفس کی پاکیزگی، اپنے اندر کی سیاست، اپنے نفس کی گلاٹیاں، اپنی پرسپنل ڈسٹورشنز، اپنے جذبات، اپنے احساسات، اپنی محبتیں، اپنی امید، اپنا خوف، اپنا غصہ اسے ٹون ڈاؤن کرنا سیکھ پتر۔ اسے سنبھالنا سیکھ اور اسے بنانا سیکھ۔ آج کرے گا تو کہیں بیس بائیس سال میں سنبھال لے گا اپنے آپ کو۔ تجھے پتا ہو گا کہ تیرا نفس کہاں سے دو روپے کی چیز لے کے آتا ہے تیرے اندر۔ کہاں سے ڈر پیدا کرتا ہے۔ کہاں سے شک دیتا ہے۔ کہاں سے ڈیزائر دیتا ہے۔
مگر، اگر آج سے ہمارے یہاں یہ ٹریننگز نہیں ہوئیں سیلف ڈویلپمنٹ کی۔ تو بیٹا آگے تجھے برباد کرنے کے لیے توپیں اور ٹینک نہیں چاہیئے ہوں گے، تیرا اپنا آپ مار دے گا تجھے، تیرا اپنا آپ روکے گا تجھے اور ساحل پہ بیٹے، بزدل اور کائر کاش اگر مگر، کنویں میں بیٹھا ہوا مینڈک کاش اگر مگر کے ساتھ ہی رہے گا۔ کہ کاش، کاش، کاش کر لیا ہوتا، کاش میں نے چھلانگ لگائی ہوتی۔ کاش سمندر اور دریا کے اس پار کے لیے میں نے ایک بار اپنے آپ کو ایک موت دیتا ہی دیتا شاید دس ہزار حیات دے دیتا اللہ مجھے آگے۔ کاش میں مر جاتا وہاں پر تو اچھا تھا۔ اور کاش میں جی جاتا وہاں پر تو اچھا تھا۔ تو یہ کاش کے ساتھ بیٹا زندگی، فیصلہ تیرا ہو گا۔ اللہ تجھے بھی وہ گمنامیاں نصیب کرے جس کے بعد صرف نام ہی نام ہو گا تیرا۔ اللہ تجھے وہ گمنایاں نصیب کرے پتر جب تیرا اتنا نام ہو گا کہ لوگ صرف تیرے دیکھنے کے لیے قیمت دے رہے ہوںگے اور تو ڈر کے بیٹھا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ تیری جیت بھی تیری بچے، تیری ہار بھی تیری، تو تیرا ہو گیا تو گل ختم۔ لوگ کیا کہتے ہیں کیا فرق پڑتا ہے؟
اگر یہ سوچ لائے گا تبھی تو تو قوموں کے ریوڑ کو اپنی طرف موڑ سکتا ہے۔ تیری آواز میں وہ درد، تیری تقریر میں وہ سوز، تیرے کلیجے میں وہ دھڑکن تب پیدا ہو گی بیٹا، جب تو سچائی کو قبول کرے گا اپنے ساتھ اور پھر یہ فیلئیر، یہ شکست کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بی لائیک آ ٹری، وہن ورلڈ ہٹس سٹون آن یو، گیو دیم بیک ایپلز۔ لوگ جب تجھ پتھر ماریں پتر، پتھر نہ ماریں پھل دیں قوم کو، کٹ جائیں، مر جائیں لوگوں کے لیے۔
ایک بڑا آدمی، ایک بڑا انسان بدلے باز نہیں ہوتا۔ وہ اپنی جیت بھی دے جاتا ہے، اپنی ہار بھی دے جاتا ہے لوگوں کو۔ بیٹا اتنے چھوٹے ظرف کے ساتھ اگر میدانوں میں اترے گا زندگی میں، ذلیل ہو جائے گا۔ لوگوں کو میرے نبی ﷺ کی طرح جانڑ دے، دے کے چلا جا۔ بڑا بن، اپنی حیثیت سے بڑا بن۔ کھانا کھلایا کر لوگوں کو۔ غربت میں فقیری میں کھانا کھلایا کر پتر لوگوں کو۔ بربادی میں مسکراہٹ ہونی چاہیے، تیری شخصیت میں وہ دم ہونا چاہیے کہ جب کچھ نہ بکے کردار بک جائے یا روسٹرم پر تیرا درد بک جائے آگے سے بیٹا۔ اپنا درد بیچ دیں بیٹا۔ اپنے آپ کو اتنا بڑا کرنا ہے تو نے کہ لوگ تیرے درد میں اپنا درد بھول جائیں۔ دا ہارڈسٹ واک یو کین از دا واک یو میک الون بیٹا۔ زندگی کے سب سے بڑے سفر، سب سے میننگ فل سفر، سب سے ریسورس فل سفر، سب سے یادگار سفر اکیلے ہوتے ہیں بیٹا۔ لوگ نہیں ہونگے تیرے ساتھ، اکیلا ہوگا بچے تو یاد رکھیں گھبرائیں نا۔ بڑے بڑے قبیلے تیرے ساتھ جڑیں گے لیکن شروع میں نہیں ہو گا یہ گھبرائیں نا پتر۔ میں تجھے کہہ رہا ہوں گھبرائیں نہیں۔ وہ دل جو رات کو دھڑکے گا ناں تنقیدوں کی وجہ سے، وہ سینہ جو چھلانگیں مارے گا بیڈ کے اوپر گھبراہٹ کے اندر، وہ لوگوں کی باتیں جو تیرے کلیجے کے چیر چیر کے ٹکڑے کر دے گی بیٹا، وہ لوگوں کی انگلیاں، وہ تنقیدیں جو تیرے نیچے سے تیری ٹانگیں کاٹ دیں گی بچے، گھبرائیں نہیں پتر۔ میں تجھے کہتا ہوں تھوڑا سا وقت دے، تھوڑی صدیاں دے، اپنے آپ کو ایک صدی بنانے کے لیے کچھ صدیاں تجھے گھولنی پڑیں گی بیٹا۔ چلتا رہیں، سیکھتا رہیں۔ گرتا جا، لڑتا جا اور اللہ سے رشتہ نہ توڑیں۔ بیٹا اس پورے سفر میں جب دنیا تیرے ساتھ نہیں ہوگی تیرا اللہ کل بھی تھا، آج بھی ہے اور انتہاء میں بھی ہوگا۔ اور یہ جملہ اپنے اندر لے کے آ کہ لوگوں کو تو یہ کہہ سکے کہ میں کوئی پیچھے سے نہیں لے کے آیا تھا جو بھی بنایا ہے میں نے آج اللہ کی دنیا تھی
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ
کے تحت یہیں بنایا ہے میں نے یہ سب چلا بھی گیا تو میں، آخر میں اپنا اللہ لے کے چلا جاؤں گا اور اگر بیٹا اللہ ہے تو دنیا کی سب سے بڑی دولت تیرے پاس ہے۔ یہ تیرا کیا چھین لیں گے تجھ سے اس لیے تو ایک بڑے عالم دین نے سات سو سال پہلے کہا تھا لوگ میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں، اگر تم جیل میں ڈالو گے تو خود سے ملاقات اور رب سے ملاقات کی پرائیویسی مل جائے گی، اگر تم مجھے باہر نکال دو گے شہروں سے تو ہجرت کا ظرف اور شرف مل جائے گا اور اگر تم مجھے مار دو گے تو اپنے خواب تک پہنچنے کی راہ میں اگر شہید کا درجہ ہی ملنا ہے تو اس بڑی زندگی کیا ہو سکتی ہے۔
بیٹا زندگی کے اندر جب ڈر لگے اللہ کو یاد کریں، جب ڈر لگے ڈر کو ڈرا دیں اس ٹائم پر، ڈر کو ایک ڈر بخش جا، خوف کو ایک خوف بخش جا، زندگی کو ایک فلسفہ بخش جا بیٹا۔ کنارے پر بیٹھ کے کاش اگر مگر کی زندگی سے بہتر ہے، کم ان دا وار، سامنے آ۔ ڈوب گیا تو بھی تاریخ بن جائے گا گزر گیا تو بھی تاریخ بن جائے گا۔ فیصلہ تیرا ہے بیٹا۔
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

(تقریر: شیخ عاطف احمد)
 
Top