خوشی کا راز

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آج تک ریکارڈ تاریخ میں جس نے بھی خوشی ڈھونڈی ہے اسے سات پوائنٹس میں ملی ہے۔
خوشی میٹریل ازم کے بازار میں نہیں ملے گی۔ یہ مادی اشیا کے بازار میں نہیں ملتی۔ کوئی بھی ہو، خوشی ہمیشہ ان سات نکات میں ہی ملے گی۔
1: اللہ کے نظام میں اللہ نے انسان کے لیے خوشی رکھی ہے معاف کرنے میں، "فارگیونیس" میں۔ مجھے ایک بات بتائیں میرے سامنے ایک کتاب ہے، میں اسے چھوڑوں تو یہ کہاں جائے گی، اوپر یا نیچے؟ نیچے ہے ناں۔ اس کو قانون کی شکل میں کس نے بتایا؟ گریویٹی کے لاء پر کتنا یقین ہے؟ یہ جو الیکٹرک شو ہوتے ہیں اس کے اندر کرنٹ ہوتا ہے اس پر ہاتھ لگے تو جھٹکا لگتا ہے کسی سائنسدان نے آپ کو بتایا تھا۔ ایسا ہی ہے ناں۔ یا آپ کا تجربہ ذاتی ہو سکتا ہے۔ ایمان ہے کہ اس کے اندر ہاتھ نہیں دینا، ہاتھ دیا تو کیا ہو گا؟ کرنٹ لگ جائے گا۔ سر مجھے ایک لمحے کے لیے بتائیں کہ اس دنیا کے سارے دانشور، عقل اکٹھی کر لی جائے تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ان کی حیثیت کیا ہے؟ بونے بھی نہیں ہیں، قدموں کی خاک بن جائیں تو بڑی بات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس (اللہ) سے معافی چاہتے ہو تو دوسروں کو معاف کر دو۔ کیا یہ قانون نہیں ہے؟ میرا نبی کہہ دے تو کیا یہ قانون نہیں ہے؟ اب قانون سے اوپر ہو گئی بات۔ خوشی کا راز معاف کر دینے میں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کی گاڑی مرسیڈیز ہے۔ دو سو کلو میٹر پر آور کی سپیڈ سے بھاگ سکتی ہے مگر آپ نے رسی باندھی ہوئی ہے اس کے ساتھ اور ریس دیئے جارہے ہیں، دیئے جا رہے ہیں۔ وہ رسی کاتیں۔ رسی کاٹنے کا مطلب کیا ہے؟ معاف کر دینا
2: خوشی کا راز "بھول" جانے میں ہے۔ بڑی بڑی نعمتوں میں ایک نعمت کیا ہے؟ بھول جانا۔ بچے کے پاس کیا کمال کی چیز ہوتی ہے؟ بھول جانا۔ خوش رہنے کے لیے کیا ضروری ہے؟ بھول جانا۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ مجھے یاد رہے گا، میری نسلیں یاد رکھیں گی، اور ان کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی، آپ خوش نہیں ہو سکتے۔ در اصل آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اگر اس کی ٹرانسلیشن کی جائے کسی کتاب پہ تو کیا ہے؟ خوشی نہیں ملے گی۔ اللہ نے نیند کیوں بنائی ہے؟ بھولنے کے لیے۔ غم عجیب چیز ہے۔ اشفاق احمد کا جملہ ہے "غم آتا ہے پہاڑ ہوتا ہے اور آنے والے دنوں میں چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔ یہ ہمارے گھر کے قریب قبرستان ہے۔ ہزار دو ہزار بندہ یہاں دفن ہے۔ دفن کرتے وقت دھاڑیں مار کے رو رہے ہوتے ہیں۔ پھر آتے ہی نہیں ہے، سالوں سال پڑے رہتے ہیں۔ قبریں کھلی پڑیں ہوئیں ہیں۔ پھول، اگربتی لگانے والا کوئی نہیں۔ کیوں؟ غم اتنا بڑا تھا جب آیا، اب کیا ہوا؟ بھولتے بھولتے اتنا چھوٹا ہو گیا بلکہ ختم ہو گیا۔ کتنی خوشیاں تھیں، کتنی خوشیاں آئيں آپ کی زندگی میں۔ کہاں گئیں؟ بھول گئی۔ خوشی ختم ہو گئی۔ سو بھولنا، اس کو درگزر کہتے ہیں۔ اس کو نظر انداز کہتے ہیں۔ اس کو رب پر چھوڑنا کہتے ہیں۔ اس کو کچھ رب پر ڈال دینا کہتے ہیں۔
یاد رکھیں تھکنے کے لیے بنیادی چیز، میں ہیلتھ کے لیے نہیں کہہ رہی، تھوڑا الٹا ہے، تھکنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی اوقات اور ذات سے زیادہ بوجھ اپنے اوپر ڈال لیں۔ اور اس کا مطب کیا ہے؟ اینٹی توکل۔ اس ( اللہ) پر بھروسہ چھوڑ دیں۔ جب بھی توکل کرو گے تو کیا ہو گا؟ بوجھ کم ہو جائے گا۔ دعا کا مطلب کیا ہے؟ آپ اس اللہ کو طاقتور مان کر دعا کرتے ہیں کہ باری تعالی تو مہربانی فرما دے۔ تو آپ خود بتائیے کہ آپ کسی کو کہہ دیں، چلیں وزیر اعظم کو کہہ دیں کہ سر یہ میرا کام ہے اور آپ کا یقین ہو کہ وہ سنتا ہے تو اس بعد فکر رہے گی؟ نہیں رہتی۔ ہماری حالت کیا ہوتی ہے؟ دعا کرنے کے بعد بھی ہمیں فکر ہوتی ہے۔ وجہ کیا ہے؟ اس پر بھروسہ نہیں ہوتا، توکل نہیں ہوتا۔
3: سب سے ضروری چیز، اللہ نے خوشی بانٹنے میں رکھی ہے، آسانی پیدا کرنے میں رکھی ہے۔ سخی لوگوں کی ہیلتھ زیادہ اچھی ہوتی ہے، بانٹنے والوں کی ہیلتھ زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ کنجوس بیمار ہو جاتا ہے۔ واصف علی واصف کا ایک جملہ ذہن میں آیا کہ غریب وہ ہے جسے مزید کی تمنا ہو۔ ہے بڑا کچھ مگر پھر بھی کہتا ہے اور چاہیے۔ ہے بہت کچھ مگر اور بھی چاہیے تو آپ بیمار ہیں۔ بانٹنے کا تعلق مال کے ساتھ نہیں ہے۔ سخاوت کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ مگر ہم کیا کرتے ہیں؟ چل معاف کر، اے چک کے دے دیو جی۔ خراب، باسی کھانے ملازموں کو دے دیتے ہیں۔ پھٹے کپڑے دے رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں خوشی نہیں ہے۔ بانٹنے کا مطلب کیا ہے؟ اپنی ہر وہ چیز جو آسانی کی صورت میں ملی ہو اس میں دوسروں کو شامل کر لینا۔
4: اللہ نے خوشی اپنی یاد میں رکھی ہے۔ خوشی از ناٹ آ پلیژر۔ پلیژر ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کو یاد کر کے دکھ ہوتا ہے۔ اس وقت بڑا اچھا لگتا ہے۔ خوشی، اطمنان قلب ایک ایسی چیز ہے جس کو یاد کر کے بھی خوشی ہوتی ہے۔ بات سمجھ میں آئی یا نہیں؟ کبھی غور کیا آپ نے اللہ کی یاد کیا ہے؟ اللہ کی یاد بھروسہ ہے۔ اللہ کی یاد ہے کہ ہے میرا بھی کوئی۔ اللہ کی یاد کیا ہے، ایک ایئرپورٹ پر جائیں ناں آپ یا کسی بس سٹیشن پر لاوارث بیگ پڑا ہو تو ڈھڈے پڑ رہے ہوتے ہیں اس کو۔ اس کا وارث آ جائے تو کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ ایک پاؤں بھی مار دے۔ سر آپ کا اگر وارث ہے تو پھر فکر کس چیز کی؟ یہ یقین ہو ناں کہ میرا کوئی ہے، میرا رب ہے جو ماں کے پیٹ میں پالتا رہا ہے، جو بن مانگے پالتا رہا ہے، جو بغیر تقاضے کے پالتا رہا ہے، جو میری حیثیت اور اوقات سے زیادہ پالتا رہا ہے جب ایمان اور یقین ہوتا ہے ناں تو پھر یہ چوتھا کام "یاد" شروع ہو جاتا ہے۔ ذکر۔
5: خوشی کے لیے "سیکھنا" بہت ضروری ہے۔ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں۔ کچھ نیا، کچھ نیا۔ میرا چھوٹا بھائی ہے، جواد حیدر، لاسٹ ٹائم تو کہا دیکھو میں نے نئی چیز سیکھی ہے۔ میں نے پوچھا کیا سیکھا ہے؟ اس نے کہا میں نے شرٹ استری کرنا سیکھی ہے۔ مجھے بھی نہیں آتی تھی، ٹیکنکلی بہت سارے کام ہوتے ہیں جو ہمیں نہیں آتے۔ ہمیں بہت سارے کام اصول کے تحت نہیں آتے۔ ہمیں ویسے ہی آتے ہیں جیسے ہم نے سیکھے ہوتے ہیں۔ دیکھیں اتنا چھوٹا سا کام کسی نے سکھایا ہی نہیں ہے، اس لیے نہیں آتا۔ کیا خیال ہے؟ اس لیے ہمیں سیکھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
6: اللہ نے خوشی رشتوں میں رکھی ہے۔ کس میں رکھی ہے ؟ رشتوں میں۔ میں خود سے نہیں کہہ رہی، ریسرچ کہتی ہے کہ اکیلے رہنے والے جلدی مر جاتے ہیں۔ جو لوگ چلتے گئے، چلتے گئے، بندے پیجھے رہتے گئے، اکیلے ہوجاتے ہیں۔ اور اکیلا بندہ سب کچھ بھی ہو غریب ہوتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا تمہارا دوست کوئی نہیں تو تم غریب ہو۔ اسے اکثر آرگینک موٹیوشن کہا جاتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ اماں کا " میں صدقے واری"۔ یہ کیا ہے؟ والد کا "دیٹس لائک مائی ڈاٹر"۔ یہ کیا ہے؟ چھوٹے بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنا " کوئی گل نہیں میں تیرے نال آں"۔ یہ کیا ہے؟ ناراض بہن کو راضی کر لینا۔ یہ (آرگینک موٹیوشن) کیا ہے؟ کبھی تحفہ لے کر اس کی طرف چلے جانا۔ مگر ہمیں تحفہ دینا، سرپرائز دینا نہیں آتا۔ ہمیں آتا ہے "تراح" نکالنا۔ "واووو" کرنا آتا ہے۔ ہمیں خوش کرنا نہیں آتا۔
7: خوشی کا بڑا گہرا تعلق اپنی زندگی کو قبول کرنے سے ہوتا ہے۔ جب تک چاہے،کوئی خوشی ہے، غم ہے، زندگی ہے آپ مانتے نہیں ہو کہ میرا ہے، میں نے جی کر جانی ہے، موت میری ہونی ہے۔ ہم ناں اپنی مائنڈ کی لائف جیتے ہیں۔ ہم اپنی اصل زندگی جی ہی نہیں رہے ہوتے۔ بتاؤں کیسے؟ آپ اپنے گھر کے باہر کھڑے ہو کر کیا کہتے ہیں؟ میرا گھر ہے۔ کیا آپ کا گھر آپ ہے؟ آپ اپنی گاڑی کو کہتے ہیں میری گاڑی ہے۔ کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ کی گاڑی آپ ہے؟ نہیں ہے۔ آپ کیا ہیں؟ آپ ایک روح ہیں، جس کے پاس صرف آج کا لمحہ ہے، زندہ جاوید لمحہ، آج کے لمحے میں رہتے ہوئے سوچیئے ایک ماضی ہے، ایک مستقبل ہے اور ایک آج ہے۔ جو آج میں نہیں جیتا تو ایک بات بتادوں وہ دو چیزوں میں رہے گا یا ماضی کے پچھتاوں میں یا مستقبل کے خوفوں میں۔ اللہ کے دوستوں کو دو تحفے کیا ملتے ہیں؟ ایک خوف نہیں (مستقبل کا) اور دوسرا نو فرسٹریشن (ماضی کی)۔ اللہ کے دوست سچی توبہ سے ماضی کو ختم کر دیتے ہیں اور بھروسے اور توکل سے مستقبل بنا لیتے ہیں۔ ا سکے بعد آپ کے پاس صرف حال بچتا ہے۔ اور آج کے لمحے میں جیسے ہی رہنا شروع کرتے ہیں جسے مائند فلنیس کہتے ہیں تو پھر آپ کو پتا چلتا ہے کہ ہمارا دماغ ہائیجیک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ ہم کچھ سجمھ رہے ہوتے ہوتا کچھ اور ہے، پرسپشنز پر جیتے ہیں، میں اپنی مثال دیتی ہوں، برین کینسر کی سرجری ہوئی، کوئی ایسا بندہ جس نے نہ کہا ہو کہ "لگتا نہیں ہے یہ بچے گی"۔ کیوں؟ زندگی موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ماضی کو بدل نہیں سکتے، مستقبل کو جان نہیں سکتے تو پھر جو پاس ہے اسے کیوں خراب کر رہے ہیں؟
 
Top