سجاتا بھی مُجھے ہے

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
ناز اُس کے اُٹھاتا ہُوں رُلاتا بھی مُجھے ہے
زُلفوں میں سُلاتا بھی، جگاتا بھی مُجھے ہے

آتا ہے بہُت اُس پہ مُجھے غُصّہ بھی لیکِن
پیار اُس پہ کبھی ٹُوٹ کے آتا بھی مُجھے ہے

در پے ہے مِری جان کے، جو پِیچھے پڑا ہے
وُہ دُشمنِ جاں دوستو بھاتا بھی مُجھے ہے

انجان بنا رہتا ہے، بیزار دِکھے، پر
وحشت میں، وہ تنہائی میں پاتا بھی مُجھے ہے

گر آئے جفا کرنے پہ، تَوبہ مِری تَوبہ
وُہ قِصّے وفاؤں کے سُناتا بھی مُجھے ہے

جنّت کی کوئی سیر کراتا ہے رفِیقو
دوزخ میں مگر کھینچ کے لاتا بھی مُجھے ہے

میں اُس کی دُعا بن کے مچلتا ہُوں لبوں پر
دِن رات وُہ ہونٹوں پہ سجاتا بھی مُجھے ہے

جو اسپ سمجھتا ہے لگاموں کو پکڑ کر
پِھر شخص وُہی ایڑھ لگاتا بھی مُجھے ہے

وُہ جِیت کی اسناد مِرے نام لگا کر
خنجر سے کوئی گھاؤ لگاتا بھی مُجھے ہے

آتا ہے مِرے گھر کو سجانے کے لِیئے بھی
جب نِیند کُھلے چھوڑ کے جاتا بھی مُجھے ہے

پہلے تو بُلاتا ہے بڑے شوق سے حسرتؔ
پِھر ڈانٹ کے محفِل سے اُٹھاتا بھی مُجھے ہے



رشِید حسرتؔ
 
Top