ایک مکان

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
جِیون بھر کے ارمانوں کا حاصِل ایک مکان
قطعہ، پانی، گارا آدھی سِی سِل ایک مکان

معمُولی سی مانگ ہے میری پُوری ہو سکتی ہے
مانگ رہا ہے مولا میرا بھی دِل ایک مکان

میں نے جو اِک خواب بُنا تھا خوابوں میں بستا ہے
ہو گا میرا عِشق سوایا، ساحِل، ایک مکان

بُوڑھے ہو کر عُہدے سے تو ہٹ جاتے ہیں ہم
لے پانا اِس مائے سے ہے مُشکِل ایک مکان

روتے رہتے تو ہیں لیکِن چُپ رہتے ہیں
میں نے خُود دیکھا ہے دُکھ سے بِسمل ایک مکان

تھا یاروں کا حلقہ، پِھر بھی میں تنہا تھا
وہ بے فیض سے کُوچے، گلیاں، سنگدِل ایک مکان

اب تک ماضی مارا ماری کر لیتا ہے
دو چُبھتی سی آنکھیں، بابُو، فائِل، ایک مکان

اپنے مالک کی کرتُوتوں سے تنگ آیا
سو پہلُو میں آ کر رویا گھائِل ایک مکان

ماضی کے ملبے سے نِکلا لاشہ گھبرو کا
جو دوشی ہے چُپ ہے حسرتؔ قاتِل ایک مکان



رشِید حسرتؔ
 
Top