حضرت امام اعظم پر عمل با لرائے کی تہمت

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر عمل با لرائے کی تہمت​

محدث خوارزمی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ جامع المسانید میں بھی خطیب کا رد کرتے ہوئے مختصر علمی پیرایہ میں چند اچھے جوابات پیش کئے ہیں . مثلا فر مایا کہ حدیث کے مقابلہ میں ''عمل با الرائے'' کا طعن امام صاحب کو وہی شخص دے سکتا ہے جو فقہ سے نا بلد ہو ،اور جس کو فقہ سے کچھ بھی مناسبت ہو گی اور ساتھ ہی انصاف کرنا چاہے گا تو اس کو اس امر کا اعتراف سے ہر گز چارہ نہیں کہ امام صاحب سب سے زیادہ احادیث کے عالم اور ان کا اتباع کرنے والے تھے اور ان لوگوں کو زعم با طل پر چند دلائل حسب ذیل ہیں .
(1) امام صاحب حدیث مرسلہ کو حجت قرار دیتے ہیں اور ان کوقیاس پر مقدم کرتے ہیں جب کہ امام شافعی رحمۃ اللہ کا عمل اس کے بر عکس ہے ( پھر بھی بد نام حنفیہ کو کیا جاتا ہے)

(2) قیاس کی چار قسمیں ہیں . قیاس مؤثر . قیاس مناسب . قیاس شبہ ، قیاس طرد

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے اصحاب نے قیاس شبہ ومناسب کو با طل قرار دیا . قیاس طرد میں امام صاحب اور آپ کے بعض اصحاب کا اختلاف ہے کہ بعض اصحاب نے اسکو بھی رد کردیا ہے .اب صرف ایک قسم قیاس مؤثر کی رہی جس کو سب نے حجت کہا . حالانکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ قیاس کی چاروں قسمیں مذکورہ حجت ہیں اور قیاس شبہ کا استعمال تو وہ بکثرت کرتے ہیں ( پھر بھی بد نام ومطعون حنفیہ ہیں )

(3) امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ احادیث ضعیفہ کو بھی قیاس کے مقابلہ میں حجت سمجھتےہیں جیسے نماز میں قہقہ کو انہوں نے ضعیف حدیث کی وجہ سے نا قض وضو کہا حالانکہ خلاف قیاس ہے اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بر عکس قیاس پر عمل کرتے ہیں ( پھر بھی خطیب وغیرہ نے استعمال قیاس کا طعنہ امام صاحب وغیرہ کو دیا )

(4) بہت سے مسائل میں مخالفین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ امام صاحب نے قیاس کی وجہ سے احادیث کو ترک کر دیا . حالانکہ یہ بھی ایک مغالطہ ہے کیونکہ وہاں امام صاحب نے قیاس کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسری رائج احادیث کی وجہ سے مر جوح احادیث پر عمل ترک کیا ہے اس کی بہت سی مثالیں بھی ًحدث خوارزمی نے لکھی ہیں .

پھر آخر میں لکھا ہے کہ امام صاحب اور آپ کے اصحاب پر ''حدیث کو ترک کرکے عمل بالقیاس والرائے کا الزام'' سراسر بہتان وافتراءہے . یہ حضرات اس الزام سے قطعا بری ہیں اور یہ حضرات قیاس پر عمل صرف اس وقت کرتے ہیں جب کسی مسئلہ میں فیصلہ کے لئے حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم با لکل موجود نہ ہو.
( جامع المسانید) بحوالہ مقدمہ انوار الباری شرح بخاری ص 6تا 7جلد 1)
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
ابن بشیر الحسینوی نے کہا ہے:
اس مضمون میں بھی کئی ایک باتیں قابل مواخذہ ہیں جن کو پہلی فرصت میں واضح کیا جائے گا ان شا ء اللہ

جناب ابن بشیر .این المفر؟
پہلے میرا مطالبہ تو پورا کردو .امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ پر جرح ثابت کرو .اللہ واسکے رسول کے قول سے.کیونکہ امتی یہاں تک کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول آپ کے یہاں حجت نہیں.
میں چلنے نہیں دوں گا جب تک تم سب میرے مطالبہ پورا نہیں کردیتے .
اسکے بعد قابل مواخذہ کو پہلی فر صت میں واضح کرو. اس فورم کو موڈریٹر جناب اسد اللہ شاہ سے عرض ہے ابن بشیر کو پابند کریں.
 
Top