دامن کو ذرا دیکھ...........

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

دامن کو ذرا دیکھ...........

(ناصرالدین مظاہری)
8/ربیع الثانی 1444ھ جمعہ

علم :
اگرآپ صاحب علم ہیں تواس کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ خود کو تمام لوگوں سے برترسمجھنے لگیں بلکہ علم کی دولت سے مالامال ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے اندر تواضع پیدا ہوجائے،تعلیم کا اثر آپ کی ذات اور بات سے ظاہرہو،اپنے سے کم پڑھے لکھے لوگوں یا ان پڑھ افراد و اشخاص کو اگر آپ نے اپنے سے کمتر اور کہتر سمجھنے کی غلطی کی تو یاد رکھیں اسی دنیا میں آپ سے بھی زیادہ اعلیٰ دماغ اور اعلیٰ تعلیم سے لیس لاکھوں لوگ بے کارگھوم رہے ہیں۔

خود کو ممتاز بنانے کی دلی خواہش میں

دشمن جاں سے ملی میری انا سازش میں

عبادت :

اگرآپ کو عبادت کی توفیق مل جاتی ہے تو اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ توصرف اس ذات کا کرم ہے جس نے آپ کو اپنی عبادت کے لئے قبول کیا ہوا ہے ورنہ آپ ہی کے گھر اور گھرانے میں، آپ ہی کے محل اور محلہ میں، آپ کے شہر اور قریہ میں کتنے ہی لوگ ایسے نظر آجائیں گے جن کے پاس کوئی عذر نہیں ہے،کوئی وجہ نہیں ہے،کوئی شغل اور مصروفیت نہیں ہے ،کوئی موانع اور مشاغل نہیں ہیں پھر بھی کہیں کسی سڑک پر،کسی کے گھرمیں،کسی کے گھیر اور چوپال میں ،کسی کی مجلس اور میٹنگ میں خواہ مخواہ وقت کوضائع کررہے ہیں،عوامی مجالس میں کیا ہوتا ہے سبھی جانتے ہیں ،کسی کی برائی ہوتی ہے، کسی کو رسوا کرنے کے تانے بانے بنے جاتے ہیں،کسی کونیچا دکھانے کی منصوبہ بندیاں ہوتی ہیں، کسی کی غیبت اور چغل خوریاں ہوتی ہیں،کسی کو مطعون اورمتہم کیا جاتا ہے، گویا شیطان اپنے تمام ترحربوں اور ضربوں کے ساتھ وہاں موجود ہوتا ہے ،کھل کر شیطانی اعمال و افعال انجام دئے جاتے ہیں۔اگر آپ کے دہن و دماغ میں یا دل کے کسی حاشیے اور بین السطورمیں یہ خیال آگیا کہ آپ ان لوگوں سے افضل ہیں توسمجھو کہ اپنے کئے کرائے پر پانی پھیردیا، آپ رات دن عبادتیں کیجئے،فرض نمازوں کے علاوہ اشراق، اوابین، چاشت ، تہجد، تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد اور دیگرنفلی عبادات کیجئے ،تلاوت قرآن اور صیام رمضان سے اپنے آپ کو صیقل کیجئے ،اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کیجئے یہ سب کچھ بہت محمود اورمستحسن ہے لیکن بس اتنی بات اپنے دل میں نہ آنے دیجئے کہ آپ کسی سے افضل ہیں۔

دولت :

دولت اگر اتنی ہی ضروری ہوتی تواللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں خاص کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسب سے زیادہ دولت عطا فرماتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے کے غریب ترین لوگوں میں شامل تھے، خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی دولت کو پسند نہیں فرمایا،غریبوں سے محبت کی اور فرمایا کہ غریب شخص امیر آدمی سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائے گا۔اس لئے اگر آپ کے پاس دولت ہے اور حلال ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے تو اس پرغرہ اور طرہ نہیں بلکہ اس کا شکر اداکیجئے کہ اس نے دنیاکے غریبوں کی مدد اور نصرت کے لئے آپ کو دولت عطا فرماکرآپ کو ایک ’’امتحان‘‘ میں مصروف فرمادیاہے کہ آپ اپنی دولت کو کس طرح اور کس چیز خرچ کرتے ہیں۔

قارون ،فرعون،شداد،نمرود،یہ سب اپنے وقت کے اتنے امیر تھے کہ خدائی کادعویٰ کربیٹھے لیکن پھرخدائے تعالیٰ نے ان کا جو حشر کیا وہ سب ہمارے سامنے ہے۔آپ بے شک حلال دولت کے لئے سعی وکوشش کیجئے، دولت ملنے پراللہ تعالیٰ کا خوب شکر ادا کیجئے ،جتنا زیادہ آپ کو شکر کی توفیق ہوگی دولت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا، ناشکری کامزاج بنے گاتو دولت ضائع اور برباد ہوتی چلی جائے گی۔

صحت :

اگر آپ صحت مند ہیں،جسمانی نظام بڑا چاق و چوبندہے،بدن کسرتی ہے ، لوگ آپ کے جسم اور متناسب اعضاء کو دیکھ کر تعریفیں کرتے ہیں تویہ بھی کبر اور گھمنڈمیں مبتلا ہونے کا وقت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا بہترین موقع ہے ورنہ آپ اسپتالوں میں جاکر دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ گویا پوری دنیا بیمار ہے،جیلوں میں جاکر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پوری دنیا جیل میں ہے،اگر آپ کواللہ تعالیٰ نے مشغولی عطافرما رکھی ہے تو بھی اس کاشکر ادا کیجئے ورنہ لاکھوں کروڑوں لوگ مصروفیت کی تلاش میں سرگرداں اور حیران پھررہے ہیں۔

شہرت :

اگر آپ شہرت کی بلندیوں پرپہنچ چکے ہیں تو بھی غرہ اور غرور کا مقام نہیں شکر کا مقام ہے ورنہ کتنے ہی لوگ اپنے مکان سے باہر پہچانے نہیں جاتے، جانے نہیں جاتے۔

عہدہ:

اگر آپ صاحب منصب وجاہ ہیں، کسی عہدے پر فائز اور کسی مرتبہ پر متمکن ہیں تو اپنے ماتحتوں کے درمیان انصاف کیجئے ،اپنے منصب اور عہدے سے اپنے ذاتی اغراض وابستہ مت کیجئے ،جووقت آپ کے کام کا ہے اس میں صاحب عہدہ و صاحب مرتبہ ہیں ،ہر وقت اپنے آپ کو ’’صاحب ‘‘ تصور کرنے کا خبط آپ کے خبط الحواس اور بکواس ہونے کی دلیل و علامت ہے ،آپ اپنے بال بچوں کے درمیان ایک شوہر، ایک باپ، ایک دادا، ایک نانا، ایک بھائی ،ایک بزرگ اورتجربہ کار فرد ہیں ، کہیں بھی جائیں اپنے منصب اور عہدے کوظاہرکرنے سے احتراز کیجئے ،مشک بنئے جو خود بتاتا ہے کہ آپ کے اندرکتنی خوبیاں اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمائی ہیں ، چراغ بنئے جس کی روشنی سے لوگ رہنمائی حاصل کریں ،اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کوبے کار اور بے گار نہیں چھوڑا، اس نے اپنی مرضی سے بہترین مشغولی عطافرما رکھی ہے۔ ورنہ کتنے ہی لوگ آپ سے بھی زیادہ کمال اور جمال والے جوتیاں چٹخاتے پھررہے ہیں۔

حسن و جمال :

اگر آپ حسن وجمال والے ہیں، آپ کا چہرہ آفتاب نیمروز اور ماہتاب شب چہاردہم کے مانند پرکشش اور منور ہے،آپ کا بدن متناسب اور آپ کے اعضا و جوارح لوگوں کی دلچسپیوں کامرکز ہیں تو بھی شکر کا مقام ہے ،ورنہ کتنے ہی کریہہ المنظر،بھدی شکل وصورت لوگ اسی زمین پر پھر رہے ہیں اوران کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

کتنے حسین وجمیل مرد و خواتین اس دنیا میں آئے لیکن آج ان کا نام و نشان نہیں ہے،قبرکی مٹی نے ان کی ہڈیوں کوبھی نہیں چھوڑا۔

حسب نسب :

اگرآپ کا حسب ونسب عالی ہے تواس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کسی کو گالی دینے لگیں ،سبھی کوحقیرسمجھنے لگیں،اپنے آپ کو اعلیٰ و بالاسمجھنے لگیں، عالی نسبی کی وجہ سے اپنی اہلیت بتلانے اور جتلانے لگیں ،عالی ،بڑا، لائق تعظیم وتکریم صرف وہ ہے جو ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم کا مصداق ہو۔

درۃ الناصحین کے حوالے سے میں نے ایک واقعہ پڑھاہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کا جب انتقال ہوا تو حضرت علیؓ ، حسنؓ ، حسینؓ اور حضرت ابوذرؓ نے ان کا جنازہ اٹھایا، جب ان کا جنازہ قبر کے کنارے رکھا گیا تو حضرت ابو ذر غفاریؓ نے قبر سے مخاطب کیا کہ اے قبر! کیا تجھے خبر بھی ہے کہ ہم کس کے جنازے کو لائے ہیں؟ یہ فاطمہ زہراء ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں، یہ علی مرتضٰیؓ کی زوجہ ہیں، یہ حضرات حسنینؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، تو قبر نے جو جواب دیااس کو ان سب نے سنا، قبر کہہ رہی تھی :
’’ میں حسب و نسب بیان کرنے کی جگہ نہیں ہوں ، میں تو عمل صالح کی جگہ ہوں اور مجھ سے وہی نجات پائے گا، جس کی اچھائیاں زیادہ ہوں اور دل مسلمان ہو اور عمل خالص ہو‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ ان کے آباء (حالت کفرمیں مرے تھے اس لئے) جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلہ ہیں اگرانہوں نے آباء پرفخر کرنا نہ چھوڑا تواللہ تعالی کے نزدیک اس گبریلے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے جواپنی ناک سے گندگی کو دھکیل کرلے جاتاہے۔(ابوداؤد)

کامیابیاں :

اگرآپ کامیابیوں سے ہم کنار ہیں، کسی امتحان میں آپ نے اچھے نمبرات سے سلیکٹ اورمنتخب ہوچکے ہیں ،کسی مقصدمیں اللہ پاک نے کامرانی مقدر فرمادی ہے تو بھی اس کاشکر ادا کیجئے کہ اس نے ایک بڑی تعداد میں سے آپ کوچناہے ۔

دور حاضرکے سیاسی بازی گروں کی طرح نہ کریں کہ چناؤسے پہلے لوگوں کے گھرگھر جائیں ،جھولی پھیلا کر، رو رو کر،منتیں کرکے ووٹ مانگیں،نئے نئے وعدے اور ارادے ظاہرکریں اور جیتنے کے بعد اپنے گھرکے دروازے ہی بندکرلیں یہ احسان فراموشی کی سب سے اعلیٰ شکل ہے۔راہی فدائی پھریادآئے:

باندھ لے اپنی گرہ میں یہ نصیحت راہی
ضبط سے کام لے ناخن نہ بڑھا خارش میں
 
Top