حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں موئے مبارک کی روایت کی تحقیق

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
کیا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں موئے مبارک موجود تھے؟؟ یہ روایت زبان زد عوام ہے؟ کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان موئے مبارک کی برکت سے فتح و نصرت سے ہمکنار کرتا ہے۔
 

منگول

وفقہ اللہ
رکن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک
از: مولانا مفتی عمر فاروق لوہاروی

حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے عمرہ کے موقع پر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے حاصل ہونے والے موئے مبارک اپنی ٹوپی میں سی کر رکھ دئیے تھے، ان کی برکت سے جنگ میں کامیابی ان کے قدم چومتی تھی، علامہ عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قد ذَکَرَ غیرُ واحدٍ أن خالدَ بنَ الولیدِ رضی اللہ عنہ کانَ في قلنسوتہ شعراتٌ من شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم فلذلک کان لا یقدم علٰی وجہ الّا فتح لہ. (عمدة القاري، ص:۶۳، ج:۱۰)

’’کئی حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے، اسی وجہ سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ جس جانب پیش قدمی فرماتے تھے، اُنھیں کامیابی حاصل ہوتی تھی۔‘‘

’’مجمع الزوائد‘‘ میں ہے:

عن جعفر بن عبد اللہ بن الحکم؛ أن خالدَ بنَ الولیدِ فَقَدَ قلنسوةً لہ یومَ الیرموکِ. فقال: اُطْلُبوھا، فلم یَجِدُوھا. فقال: اُطْلُبوھا، فوَجَدُوھا، فاذا ھي قلنسوةٌ خَلِقَةً، فقال خالد: اعتمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحَلَقَ رأسَہ، فابتدَرَ الناسُ جوانبَ شعرہ، فسبقتُم الٰی ناصِیَتہ، فجعلتُھا في ھذہ القلنسوةِ، فلم أشْھَدْ قتالا وھي معي الاّ رُزقتُ النصرةَ.

قال الحافظ الھیثميُّ: رواہ الطبراني وأبو یعلٰی بنحوہ، ورجالُھما رجالُ الصحیح، وجعفر سَمِعَ من جماعةٍ من الصحابةِ، فلا أدري سمع من خالدٍ أم لا. (مجمع الزوائد، ص:۴۳۰، ۴۳۱، ج:۹، حدیث: ۱۵۸۸۲)

’’جعفر بن عبداللہ بن الحکم سے مروی ہے، کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی، اُنھوں نے لوگوں سے فرمایا: اسے تلاش کرو! لوگوں نے تلاش کرنے پرنہیں پائی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دوبارہ تلاش کرنے کا حکم فرمایا، اب کی بار لوگوں نے پالی، لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک بوسیدہ ٹوپی ہے۔ (اس کے باوجود جس اہتمام سے اسے تلاش کیا، کروایا، اس پر لوگوں کو تعجب ہوا، تو ان کے تعجب وحیرت کو ختم کرنے کے لیے) حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے عمرہ ادا فرمایا، اس کے بعد اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، تو لوگ آپ کے سرمبارک کی مختلف جانبوں کے موئے مبارک کی طرف سبقت کی غرض سے بڑھے، پس میں نے آپ کے سرمبارک کے سامنے کی جانب کے بالوں کے لیے ان سب سے سبقت حاصل کرلی۔ پھر میں نے وہ موئے مبارک اس ٹوپی میں رکھ دیے، اس ٹوپی کے ساتھ جس جنگ میں شریک ہوا، اس میں مجھے کامیابی ہی ملی۔‘‘

قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ، الشفاء میں فرماتے ہیں:

کانتْ في قلنسوةِ خالد بنِ الولیدِ شعراتٌ من شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم، فسقطَتْ قلنسوتُہ فی بعض حروبہ، فشدَّ علیھا شدةً انکر علیہ أصحابُ النبي صلی اللہ علیہ وسلم لکثرةٍ من قتلٍ فیھا، فقال: لم اَفْعَلْھا بسببِ القلنسوة بل لما تضمنتہ من شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم، لئلا اسلب (وفی نسخة: تسلب) برکتَھا وتقع في أیدی المشرکین. (الشفاء مع شرحہ نسیم الریاض، ص:۴۳۴، ج:۳)

’’حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے۔ ایک جنگ میں آ پ کی ٹوپی گرگئی، تو اس کے لیے انھوں نے سخت حملہ کیا، (جو) نبی صلى الله علیہ وسلم کے اصحاب (کو غیرمعمولی معلوم ہوا، اس لیے انھوں) نے ان پر نکیر کی؛ کیوں کہ اس حملہ میں بہت آدمی قتل ہوئے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کہ میں نے یہ حملہ ٹوپی کی وجہ سے نہیں کیا؛ بلکہ اس میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے، ان کی وجہ سے کیاتھا، کہ مبادا کہیں میں ان کی برکت سے محروم نہ ہوجاؤں اور یہ مبارک بال مشرکین کے ہاتھ میں پہنچ جائیں۔‘‘
 

ابو داؤد

طالب علم
رکن
عن جعفر بن عبد اللہ بن الحکم؛ أن خالدَ بنَ الولیدِ
اسکی سند منقطع ہے ۔ راوی جعفر بن عبد اللہ بن الحکم کا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔

شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں :

سكت عنه الحاكم ، وأعله الذهبي بالانقطاع ، وهو الصحيح ؛ فإن جعفرا هذا ، وهو ابن عبد الله بن الحكم بن رافع ، إنما يروي عن صغار الصحابة كأنس ، ومحمود بن لبيد ، كما في "التهذيب" (2/99) ، وخالد بن الوليد رضي الله عنه قديم الوفاة ، فقد توفي في خلافة عمر رضي الله عنه - كما في "طبقات ابن سعد" (7/ 279) ، و "أسد الغابة" (2/140) ، فلا يتهيأ لجعفر إدراكه والسماع منه ؛ ولذلك قال البخاري في " التاريخ الكبير" (2/195) في ترجمة جعفر هذا : " رأى أنسا " ، وهذا مشعر أنه لم يدرك كبار الصحابة ومتقدمي الوفاة منهم .

اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد حاکم نے سکوت اختیار کیا ہے، جبکہ ذہبی نے اسے منقطع قرار دیا ہے، اور یہی بات درست ہے، کیونکہ سند میں مذکور جعفر وہ جعفر بن عبد اللہ بن الحکم بن رافع ہے، اور یہ صغار صحابہ کرام سے روایت کرتا ہے، جیسے انس اور محمود بن لبید وغیرہ ، "التهذيب" (2/99)
جبکہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات بہت پہلے کی ہے، کہ آپ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وفات پا گئے تھے، جیسے کہ "طبقات ابن سعد" (7/ 279) ، اور"أسد الغابة" (2/140) میں ہے، چنانچہ جعفر کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ خالد کے زمانے کو پا لے اور ان سے سماع بھی کرسکے، اسی لئے امام بخاری نے " التاريخ الكبير" (2/195) میں اسی جعفر کے حالات کے تحت لکھا: "جعفر نے انس کو دیکھا ہے"، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ جعفر کبار اور متقدم الوفاۃ صحابہ کرام کو نہیں پاسکا۔


حافظ زبیر علی زئی صاحب کی تحقیق کے مطابق بھی یہ قصہ صحیح متصل سند سے ثابت نہیں ہے چنانچہ حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں :

یہ قصہ درج ذیل کتابوں میں ”عبدالحمید بن جعفر بن عبدالله بن الحکم بن رافع عن أبیہ“ کی سند سے مروی ہے۔ ( معجم الكبير للطبرانی (۱۰۴/۴، ۱۰۵ ح ۳۸۰۴) مسند ابی یعلی الموصلی (۱۳۹/۱۳ ح ۷۱۸۳) المستدرک للحاکم (۲۹۹/۳ ح ۵۲۹۹ وقال الذہبی : "منقطع") دلائل النبوة (۲۴۹/۶) أسد الغابة لابن الاثیر (۹۵/۲ من طریق ابی یعلی ) سیر اعلام النبلاء (۳۷۵،۳۷۴/۱) المطالب العالیہ ( المسندة ۴۲۱/۸ ح ۴۰۱۱، غیر المسند ۹۰/۴ ح ۴۰۴۴ عن ابی یعلی ) اتحاف المهرة ( ۴۰۶/۴ ،۴۰۷ ۴۴۵۱) اتحاف الخيرة المهرة للبوصیری ( ۶۷/۷ ح ۸۶۶۹، ۳۱۲/۷ ح ۹۱۴۱ وقال البوصیری : ” بسند صحیح ! ) المقصد العلی (۲۳۳/۳ ۱۴۳۲) مجمع الزوائد (۳۴۹/۹ وقال: "رواه الطبرانی و ابو یعلی بنحوه ورجالہما رجال الصحيح و جعفر سمع من جماعة من الصحابة فلا أدرى سمع من خالد أم لا ) الاصابه (۴۱۴/۱ ت ۲۲۰۱) اس قصے کے بنیادی راوی جعفر بن عبداللہ بن الحکم ثقہ ہیں ( تقریب التہذیب: ۹۴۴) لیکن سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ ( متوفی ۲۲ھ) سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔ حافظ ذہبی نے اس سند کو منقطع قرار دیا ہے لہذا بوصیری کا اسے "بسند صحیح" کہنا غلط ہے۔ ہیشمی نے بھی یہ کہہ کر سند کے منقطع ہونے کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ”مجھے معلوم نہیں کہ اس نے خالد سے سنا ہے یا نہیں" ، عرض ہے کہ سنا تو در کنار سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جعفر بن عبد اللہ بن الحکم کا پیدا ہو جانا بھی ثابت نہیں ہے۔ رافع بن سنان رضی اللہ عنہ تو صحابی ہیں لیکن الحکم بن رافع والی روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے الاصابہ (طبعه جدیده ص ۲۸۸ت ۲۰۰۲)

خلاصة التحقیق: یہ قصہ صحیح متصل سند سے ثابت نہیں ہے۔

جعفر بن عبد اللہ بن الحکم کا ایک دو متاخر الوفاۃ صحابہ سے ( مثلاً سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ) ایک دو حدیثیں سن لینا اس کی دلیل نہیں ہے کہ سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فوت ہونے والے صحابی سیننا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ضرور بالضرور ان
کی ملاقات ثابت ہے۔

[ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ ۲۵، صفحہ ۴۷]
 
Top