دہلی:دیکھتے ہی دیکھتے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
دہلی:دیکھتے ہی دیکھتے
ناصرالدین مظاہری​
سب سے پہلی بار مدرسہ کے کام سے دہلی جاناہواتودہلی کی بھیڑبھاڑ،چیختی گاڑیاں،شورمچاتی ٹرینیں،سائیں سائیں کرتی کاریں اورآسمان میں چنگھاڑتے ہوائی جہازدیکھ کرمجھے لگاکہ ہرشخص دہلی چھوڑکربھاگاجارہاہے،نفسی نفسی کاعالم تھا،دہلی کی گرمیاں خداکی پناہ اوردہلی کی سردیاں عذاب الٰہی سے کم نہیں،دہلی کی سڑکیں بھی اس زمانے میں آج کل کی طرح اتنی زبردست نہیں تھیں نہ ہی دہلی میں آج کی طرح اونچی اونچی عمارتیں تھیں بس دوچارعمارتیں کناٹ پیلیس میں اورایک بلڈنگ آئی ٹی اوکے پاس تھی جوبہت دورسے دکھائی دیتی تھی ،جمناپرپل بھی اتنے نہیں تھے جوجمناکے دونوں طرف مکینوں کوملانے میں اہم رول اداکرتے ہیں۔ابوالفضل کاعلاقہ کچھ زیادہ ہی گیاگزراتھالیکن آج یہ پہچانانہیں جاتاہے،دہلی میں نقل وحمل کے لئے جوبسیں چلتی تھیں وہ کسی امتحان اورآزمائش سے کم نہیں تھیں ،اتنی بھیڑہوتی تھی کہ اگرآپ کوسکون سے دونوں پیرزمین پرٹکانے کاموقع مل گیاتوسمجھو کہ اللہ کاشکرہی ہے ورنہ عموماً ایک پیرپرکھڑے ہوکرہی راستہ طے ہوجاتاتھا،بسوں کے کنڈیکٹراتنے ماہرہوتے تھے کہ ایک سانس میں ایک ڈیڑھ درجن مقامات کے نام لے لیتے تھے ،گرمیوں میں دہلی پانی کے معاملہ میں راجستھان بن جاتاتھا،جگہ جگہ موجودپانی کے ریڑھے اورٹھیلے والوں کے مزے آجاتے تھے جوپون گلاس پانی ایک روپیہ سے کم میں نہیں دیتے تھے ،بسوں کی ظاہری حالت بھی خراب رہتی تھی ،اگرکسی کودہلی کی بسوں کے روٹ کے اعتبارسے نمبرنہ معلوم ہوں توپورادن گمرجائے گاکھڑے کھڑے۔
بس کے اندربائیں طرف خواتین کے لئے اوردائیں جانب مختونوں کے لئے سیٹیں ہوتی تھیں ،جولوگ سیٹ پربیٹھے ہوتے تھے وہ اپنے آپ کوبہادرشاہ ظفرسے کم تصورنہیں کرتے تھے ،جولوگ بس میں گھس جاتے تھے وہ اپنے آپ کوایسے سمجھتے تھے گویانکوراکاراباخ والے جرمنی میں داخل ہوگئے ہوں۔
دہلی میں اس زمانے میں گردوغباربھی بہت تھا،آج جیسی ہریالی ،آج جیساحسن،آج جیسے کشادہ راستے،آج کیسے بل کھاتے خوبصورت پل اورپلوں پربنے خوبصورت ڈیزائن کاتصوراس زمانے میں تھاہی نہیں،صاحب سنگھ ورمااورشسماسوراج کانام بطوروزیراعلی کبھی کبھی کانوں میں پڑجاتاتھالیکن کچھ دن کے بعدمحترمہ شیلادکشت کانام وزیراعلیٰ کی حیثیت سے سنتے سنتے سن ہوگئے تھے ،جہاں کہیں اچھاکام ہوتاشیلادکشت،جہاں کہیں براہوجاتاشیلادکشت،گویاشیلادکشت ہی کانام دہلی اوردہلی کانام شیلادکشت ہوگیاتھا،شیلادکشت نے زیادہ کام تونہیں کیابس دہلی کوبدل کررکھ دیا،خشک دکھنے والی دلی کوسبزہ زاربنادیا،سڑکوں کی حالت تبدیل کردی،بس اڈے کی شکل بدل گئی،ریلوے اسٹیشن کاگیٹ اپ اورہوائی اڈے کاسیٹ اپ تبدیل ہوگیا۔لیکن جامع مسجدکے قرب وجوارمیں جوبدنظمی پہلے تھی وہ باقی رہی،مینابازارمیں ناجائزدکانیں جوں کی توں رہیں،پرانی دلی پرکوئی فرق نہیں پرا،بھیڑبھاڑپرکوئی قابونہیں پاسکی،صدربازارسے گزرناپہلے بھی مشکل تھا،اب بھی مشکل ہے ،لگتاہے یہ بدنظمی اس کامقدرہے۔
جگہ جگہ پیشاب کرنے والوں نے دلی کوبدبوداربنادیاتھااس پرکافی کنٹرول ہوگیاہے ،محترمہ شیلادکشت کے بعدتودہلی میں مزیدبہارآگئی ،بجلی توخیرپہلے چلی بھی جاتی تھی اب جاناہی بھول گئی،پانی پہلے کم یاب تھااب ہرجگہ ملتاہے،دوااورعلاج کے باب میں دہلی نے بقیہ ملک کوپیچھے چھوڑدیاہے،البتہ اوقاف سے ناجائزقبضے نہ پہلے ہٹے تھے نہ اب ہٹے ہیں اورلگتاہے اس کاحال بھی صدربازارکی طرح ہی رہے گا۔ (جاری)
 
Last edited by a moderator:
Top