حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓبھی ان صحابہ میں ہیں جن سے تفسیر میں بہت زیادہ روایتیں منقول ہیں، آپ کو علم قرأت ،علم تفسیر اور علم فقہ میں کمال حاصل تھا۔
مسروق کہتے ہے،میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب اورکہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے کسی شخص کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ تفسیر قرآن کو مجھ سے بہتر جانتا ہے اورسواری وہاں تک پہونچاسکتی ہے تو میں اس کے یہاں حاضر رہ کر اس سے استفادہ کرتا۔
(بخاری، حدیث نمبر:۵۰۰۲)
عتبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میرے علم کی حد تک ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بڑھکر قرآن کا کوئی عالم نہیں۔
(التفسیر والمفسرون:۲۲۲)
جب حضرت عثمانؓ نے مصحف عثمانی کے علاوہ باقی تمام مصاحف جلاڈالےاور حضرت ابن مسعود کو اس کی اطلاع ملی توآپ نے فرمایا:اصحاب محمد خوب جانتے ہیں کہ میں ان سب سے بڑھکر قرآن کریم کا علم رکھتا ہوں ؛مگر میں ان سے افضل نہیں، اگرمجھ کو معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہے اور اونٹ وہاں تک پہونچاسکتے ہیں تو میں اس کے یہاں ضرور حاضری دوں، ابووائل کہتے ہیں کہ میں یہ سننے کے لیے لوگوں کے حلقہ میں گھس گیا کہ وہ ان کے اس قول پر کیا تبصرہ کرتے ہیں؛ چنانچہ میں نے کسی کو بھی اس کی تردید کرتے ہوئے نہیں پایا اور ایک روایت میں اس طرح مذکور ہے شقیق فرماتے ہیں کہ میں اس حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا جس میں رسول اللہؐ کے صحابہ تھے میں نے ان میں سے کسی کو ان کے اس قول کا انکار کرتے ہوئے اوران پر رد کرتے ہوئے نہیں سنا (الاستیعاب:۱۳۰۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان بھی یہ بات مسلم تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کتاب اللہ کے بہت بڑے عالم تھے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ علم کے کس قدر حریص تھے اور کس محنت وجدوجہد سے انہوں نے یہ علم حاصل کیا تھا۔
تفسیری اقوال
(۱)"لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا" ۔
(الدھر:۱۳)

نہ وہاں گرمی اورتپش پائیں گے اورنہ ہی جاڑا
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ"زَمْھَرِیْرَ" کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "زَمْھَرِیْرَ" عذاب کی ایک قسم ہے اوریہ انتہائی درجہ کا ٹھنڈا مقام ہے حتی کہ جب جہنمیوں کو اس میں ڈالا جائے گا تو وہ اللہ تعالی سے فریاد کریں گے کہ انہیں آگ ہی کا عذاب دیدیا جائے اوراس عذاب سے نجات دیدی جائے اورآگ کے ایک ہزار سال کا عذاب بھی "زَمْھَرِیْرَ" کے ایک دن کے عذاب سے ان کو کم محسوس ہوگا۔
(تفسیر قرطبی:۱۳۸۱۹)

(۲)"قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ"۔
(آل عمران:۱۴)

بیشک تمہارے لیے بڑا نمونہ ہے دو گروہوں کے واقعہ میں جو کہ باہم ایک دوسرے سے مقابل ہوئے تھے ایک گروہ تو اللہ کے راہ میں لڑتے تھے (یعنی مسلمان) اوردوسرا گروہ کافر لوگ تھے یہ کافر اپنے کو دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں سے کئی حصہ زیادہ ہیں کھلی آنکھوں دیکھنا۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ایسا بدر کے دن ہوا کہ ہم نے مشرکین کو دیکھا تو وہ ہم کو اپنے سے دو گنے نظر آئے پھر ہم نے ان کو (جنگ کے وقت) دیکھا تو وہ ہم کو اپنے سے بالکل برابر دکھائی دے رہے تھے ان میں ایک آدمی بھی ہم سے زائد نظر نہیں آرہا تھا، یہی مطلب ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کا:
"إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ"۔
(الانفال:۴۴)

اوراس وقت کو یاد کرو جبکہ تم مقابل ہوئے ان لوگوں کو تمہاری نظر میں کم کرکے دکھلا رہا تھا اوران کی نگاہ میں تم کو کم کرکے دکھلا رہا تھا۔
(الدر المنثور:۱۸۲)

(۳)اللہ تعالی کے اس قول "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ" (لقمان:۶)میں "لَهْوَ الْحَدِيثِ" کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ بخدا اس سے مراد گانابجانا ہے۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓبھی ان صحابہ میں ہیں جن سے تفسیر میں بہت زیادہ روایتیں منقول ہیں، آپ کو علم قرأت ،علم تفسیر اور علم فقہ میں کمال حاصل تھا۔
مسروق کہتے ہے،میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب اورکہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے کسی شخص کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ تفسیر قرآن کو مجھ سے بہتر جانتا ہے اورسواری وہاں تک پہونچاسکتی ہے تو میں اس کے یہاں حاضر رہ کر اس سے استفادہ کرتا۔
(بخاری، حدیث نمبر:۵۰۰۲)
عتبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میرے علم کی حد تک ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بڑھکر قرآن کا کوئی عالم نہیں۔
(التفسیر والمفسرون:۲۲۲)
جب حضرت عثمانؓ نے مصحف عثمانی کے علاوہ باقی تمام مصاحف جلاڈالےاور حضرت ابن مسعود کو اس کی اطلاع ملی توآپ نے فرمایا:اصحاب محمد خوب جانتے ہیں کہ میں ان سب سے بڑھکر قرآن کریم کا علم رکھتا ہوں ؛مگر میں ان سے افضل نہیں، اگرمجھ کو معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہے اور اونٹ وہاں تک پہونچاسکتے ہیں تو میں اس کے یہاں ضرور حاضری دوں، ابووائل کہتے ہیں کہ میں یہ سننے کے لیے لوگوں کے حلقہ میں گھس گیا کہ وہ ان کے اس قول پر کیا تبصرہ کرتے ہیں؛ چنانچہ میں نے کسی کو بھی اس کی تردید کرتے ہوئے نہیں پایا اور ایک روایت میں اس طرح مذکور ہے شقیق فرماتے ہیں کہ میں اس حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا جس میں رسول اللہؐ کے صحابہ تھے میں نے ان میں سے کسی کو ان کے اس قول کا انکار کرتے ہوئے اوران پر رد کرتے ہوئے نہیں سنا (الاستیعاب:۱۳۰۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان بھی یہ بات مسلم تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کتاب اللہ کے بہت بڑے عالم تھے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ علم کے کس قدر حریص تھے اور کس محنت وجدوجہد سے انہوں نے یہ علم حاصل کیا تھا۔
تفسیری اقوال
(۱)"لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا" ۔
(الدھر:۱۳)

نہ وہاں گرمی اورتپش پائیں گے اورنہ ہی جاڑا
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ"زَمْھَرِیْرَ" کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "زَمْھَرِیْرَ" عذاب کی ایک قسم ہے اوریہ انتہائی درجہ کا ٹھنڈا مقام ہے حتی کہ جب جہنمیوں کو اس میں ڈالا جائے گا تو وہ اللہ تعالی سے فریاد کریں گے کہ انہیں آگ ہی کا عذاب دیدیا جائے اوراس عذاب سے نجات دیدی جائے اورآگ کے ایک ہزار سال کا عذاب بھی "زَمْھَرِیْرَ" کے ایک دن کے عذاب سے ان کو کم محسوس ہوگا۔
(تفسیر قرطبی:۱۳۸۱۹)

(۲)"قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ"۔
(آل عمران:۱۴)

بیشک تمہارے لیے بڑا نمونہ ہے دو گروہوں کے واقعہ میں جو کہ باہم ایک دوسرے سے مقابل ہوئے تھے ایک گروہ تو اللہ کے راہ میں لڑتے تھے (یعنی مسلمان) اوردوسرا گروہ کافر لوگ تھے یہ کافر اپنے کو دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں سے کئی حصہ زیادہ ہیں کھلی آنکھوں دیکھنا۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ایسا بدر کے دن ہوا کہ ہم نے مشرکین کو دیکھا تو وہ ہم کو اپنے سے دو گنے نظر آئے پھر ہم نے ان کو (جنگ کے وقت) دیکھا تو وہ ہم کو اپنے سے بالکل برابر دکھائی دے رہے تھے ان میں ایک آدمی بھی ہم سے زائد نظر نہیں آرہا تھا، یہی مطلب ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کا:
"إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ"۔
(الانفال:۴۴)

اوراس وقت کو یاد کرو جبکہ تم مقابل ہوئے ان لوگوں کو تمہاری نظر میں کم کرکے دکھلا رہا تھا اوران کی نگاہ میں تم کو کم کرکے دکھلا رہا تھا۔
(الدر المنثور:۱۸۲)

(۳)اللہ تعالی کے اس قول "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ" (لقمان:۶)میں "لَهْوَ الْحَدِيثِ" کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ بخدا اس سے مراد گانابجانا ہے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ترک رفع یدین کی روایت


امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں:
قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم؟ فصلیٰ فلم يرفع يديه الاّ فی اول مرة.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا! کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو آپ نے نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
ترک رفع یدین کی روایت


امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں:
قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم؟ فصلیٰ فلم يرفع يديه الاّ فی اول مرة.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا! کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو آپ نے نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سرکار دو عالمؐ کے قریبی اور پسندیدہ ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ سفر و حضر میں حضورؐ کے ساتھ رہے۔ حضورؐ نے ان سے فرما رکھا تھا کہ ’’تمہیں میرے گھر میں حاضر ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ پردہ اٹھا کر اندر آ جایا کرو اور ہماری باتیں سنا کرو،، حضور اکرمؐ کی کچھ خاص خدمتیں ابن مسعودؓ سے متعلق تھیں۔ مثلاً جوتا مبارک اٹھانا، مسواک کو اپنے اپنے پاس رکھنا، آپؐ کے آگے چلنا، نہاتے وقت پردہ کرانا،خواب سے بیدار کرنا وغیر۔ (الاستیعاب)

ابتدائے اسلام میں جب اپنے اسلام کا اظہار نہایت مشکل تھا، آپ وہ پہلے مسلمان تھے۔ جنہوں نے بیت اللہ شریف کے پاس کھڑے ہو کر مستانہ وار سورۃ الرحمٰن کی بآواز بلند تلاوت کی اور کفار مکہ کا ظلم برداشت کیا (ابن ہشام)

حضور اکرمؐ نے فرمایا: قرآن مجید کو ان چار افراد سے حاصل کرو سب سے پہلے عبداللہ ابن مسعودؓ کا نام ذکر فرمایا: بعد ازاں ابی بن کعب، سالم مولیٰ اور معاذ بن جبل ؓ کے اسمائے گرامی لئے۔ (بخاری و مسلم )

حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے عادات و اطوار میں عبداللہ بن مسعودؓ سے مشابہت رکھنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ رسول اللہؐ کے قریبی اصحاب کی نظر میں عبداللہ بن مسعودؓ درجات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔

(بخاری بتغیر الفاظ)

الاکمال فی اسماء الرجال میں ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میں اپنی امت کے واسطے وہ پسند کرتا ہوں جو ابن مسعودؓ اس کے واسطے پسند کریں اور امت کے واسطے اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں جسے ابن مسعودؓ ناپسند کریں،، اس فرمان عظمت نشان کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا سب سے پہلا اجتہاد جو نظر آتا ہے وہ خلافت صدیق اکبرؓ کے بارے میں میں ہے۔ حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے بارے میں ابن مسعودؓ نے ان خوبصورت الفاظ میں اجتہاد کیا کہ ’’ہم اپنے دنیاوی معاملات کے لئے اسی شخصیت کو پسند کرتے ہیں جسے رسول اللہؐ نے ہمارے دینی امور کے لئے پسند فرمایا ہے۔،، یعنی جس ہستی کو حضورؐ نے نماز کی امانت کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ اسی کو ہم خلافت کے لئے پسندکرتے ہیں
رسول کریمؐ کے بدترین دشمن ابوجہل کی گردن کاٹنے کا شرف بھی عبداللہ بن مسعود ؓ کو حاصل ہوا۔ دو ننھے بچے معاذؓ اور معوذؓ نے جب اپنی تلواروں سے ابوجہل کو گھائل کر دیا تو حضرت ابن مسعودؓ کا اس طرف سے گزر ہوا۔ حضرت ابن مسعودؓ کے پاس کارآمد تلوار نہ تھی۔ انہوں نے ابوجہل کی تلوار اٹھا لی۔ ابوجہل کی نظر ان پر پڑی تو وہ ان کے ارادے کو بھانپ گیا۔ اس نے کہا: اے حقیر بھیڑیں چرانے والے! تو نے مشکل کام کو ہاتھ ڈالا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے اس کے ساتھ ہی اس کی گردن کاٹ دی اور اس کا سر اور تلوار دونوں کو لا کر رسول کریمؐ کے قدموں میں ڈال دیا۔ رسول اللہؐ نے وہ تلوار آپ ہی کو عنایت فرما دی۔
حضرت ابن مسعودؓ کا قد چھوٹا تھا پنڈلیاں پتلی پتلی تھیں ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے انہیں درخت پر سے کوئی چیز اتارنے کا حکم دیا وہ درخت پر چڑھے ان کی باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر صحابہ کرام کی ہنسی چھوٹ گئی۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کیا ہنستے ہو۔ عبداللہ کی ٹانگیں میزان (اللہ کے ترازو) میں اُحد پہاڑ سے زیادہ بھاری ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے ایک روز ابن مسعودؓ کو بیٹھا دیکھا تو فرمایا: ’’یہ علم و معرفت سے بھری چھاگل ہیں۔‘‘

حضرت عمرؓ نے 20 ھ میں حضرت عمار بن یاسرؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ کو کوفہ بھیجا اور اہل کوفہ کو لکھا: میں نے عمار بن یاسر کو امیر اور عبداللہ بن مسعودؓ کو معلم بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ یہ دونوں ہستیاں رسول اللہؐ کے برگزیدہ اصحاب اور اصحاب بدر میں سے ہیں۔ تم ان دونوں کی پیروی اور اطاعت کرو اور ان کے ارشادات عالیہ کو دھیان سے سنو۔ عبداللہ بن مسعود ؓ کو تو میں نے اپنے نفس پر ایثار کر کے تمہارے پاس بھیجا ہے۔،،

یوں حضور اکرمؐ کی بشارت پوری ہو گئی کہ ’’تم خود علم سکھانے والے پیارے بچے ہو،، شقیق ابووائل بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہؐ کے صحابہ کرام کے حلقے میں بیٹھا ہوں۔ میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کی بات سے انکار کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا اور نہ کسی صحابی نے آپ کا رد کیا۔ یعنی آپ فقاہت کے اس مقام پر فائز تھے کہ آپ کی رائے کے سامنے کسی کو صحابی کو کبھی رائے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔(طبقات ابن سعد)

یہی وہ مناقب و فضائل ہیں جن کے پیش نظر امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اپنی فقہ کے سلسلے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی پیروی کی ہے۔ آپ کے احوال مبارکہ ابن عبدالبر کی الاستیعاب، امام یافعی کی مرآۃ الجنان، ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ ابن قیم کی اعلام الموقعین، ابن حجر کی الاصابہ اور صاحب مشکوٰۃ کی الاکمال میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سرکار دو عالمؐ کے قریبی اور پسندیدہ ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ سفر و حضر میں حضورؐ کے ساتھ رہے۔ حضورؐ نے ان سے فرما رکھا تھا کہ ’’تمہیں میرے گھر میں حاضر ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ پردہ اٹھا کر اندر آ جایا کرو اور ہماری باتیں سنا کرو،، حضور اکرمؐ کی کچھ خاص خدمتیں ابن مسعودؓ سے متعلق تھیں۔ مثلاً جوتا مبارک اٹھانا، مسواک کو اپنے اپنے پاس رکھنا، آپؐ کے آگے چلنا، نہاتے وقت پردہ کرانا،خواب سے بیدار کرنا وغیر۔ (الاستیعاب)

ابتدائے اسلام میں جب اپنے اسلام کا اظہار نہایت مشکل تھا، آپ وہ پہلے مسلمان تھے۔ جنہوں نے بیت اللہ شریف کے پاس کھڑے ہو کر مستانہ وار سورۃ الرحمٰن کی بآواز بلند تلاوت کی اور کفار مکہ کا ظلم برداشت کیا (ابن ہشام)

حضور اکرمؐ نے فرمایا: قرآن مجید کو ان چار افراد سے حاصل کرو سب سے پہلے عبداللہ ابن مسعودؓ کا نام ذکر فرمایا: بعد ازاں ابی بن کعب، سالم مولیٰ اور معاذ بن جبل ؓ کے اسمائے گرامی لئے۔ (بخاری و مسلم )

حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے عادات و اطوار میں عبداللہ بن مسعودؓ سے مشابہت رکھنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ رسول اللہؐ کے قریبی اصحاب کی نظر میں عبداللہ بن مسعودؓ درجات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔

(بخاری بتغیر الفاظ)

الاکمال فی اسماء الرجال میں ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میں اپنی امت کے واسطے وہ پسند کرتا ہوں جو ابن مسعودؓ اس کے واسطے پسند کریں اور امت کے واسطے اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں جسے ابن مسعودؓ ناپسند کریں،، اس فرمان عظمت نشان کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا سب سے پہلا اجتہاد جو نظر آتا ہے وہ خلافت صدیق اکبرؓ کے بارے میں میں ہے۔ حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے بارے میں ابن مسعودؓ نے ان خوبصورت الفاظ میں اجتہاد کیا کہ ’’ہم اپنے دنیاوی معاملات کے لئے اسی شخصیت کو پسند کرتے ہیں جسے رسول اللہؐ نے ہمارے دینی امور کے لئے پسند فرمایا ہے۔،، یعنی جس ہستی کو حضورؐ نے نماز کی امانت کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ اسی کو ہم خلافت کے لئے پسندکرتے ہیں
رسول کریمؐ کے بدترین دشمن ابوجہل کی گردن کاٹنے کا شرف بھی عبداللہ بن مسعود ؓ کو حاصل ہوا۔ دو ننھے بچے معاذؓ اور معوذؓ نے جب اپنی تلواروں سے ابوجہل کو گھائل کر دیا تو حضرت ابن مسعودؓ کا اس طرف سے گزر ہوا۔ حضرت ابن مسعودؓ کے پاس کارآمد تلوار نہ تھی۔ انہوں نے ابوجہل کی تلوار اٹھا لی۔ ابوجہل کی نظر ان پر پڑی تو وہ ان کے ارادے کو بھانپ گیا۔ اس نے کہا: اے حقیر بھیڑیں چرانے والے! تو نے مشکل کام کو ہاتھ ڈالا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے اس کے ساتھ ہی اس کی گردن کاٹ دی اور اس کا سر اور تلوار دونوں کو لا کر رسول کریمؐ کے قدموں میں ڈال دیا۔ رسول اللہؐ نے وہ تلوار آپ ہی کو عنایت فرما دی۔
حضرت ابن مسعودؓ کا قد چھوٹا تھا پنڈلیاں پتلی پتلی تھیں ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے انہیں درخت پر سے کوئی چیز اتارنے کا حکم دیا وہ درخت پر چڑھے ان کی باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر صحابہ کرام کی ہنسی چھوٹ گئی۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کیا ہنستے ہو۔ عبداللہ کی ٹانگیں میزان (اللہ کے ترازو) میں اُحد پہاڑ سے زیادہ بھاری ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے ایک روز ابن مسعودؓ کو بیٹھا دیکھا تو فرمایا: ’’یہ علم و معرفت سے بھری چھاگل ہیں۔‘‘

حضرت عمرؓ نے 20 ھ میں حضرت عمار بن یاسرؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ کو کوفہ بھیجا اور اہل کوفہ کو لکھا: میں نے عمار بن یاسر کو امیر اور عبداللہ بن مسعودؓ کو معلم بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ یہ دونوں ہستیاں رسول اللہؐ کے برگزیدہ اصحاب اور اصحاب بدر میں سے ہیں۔ تم ان دونوں کی پیروی اور اطاعت کرو اور ان کے ارشادات عالیہ کو دھیان سے سنو۔ عبداللہ بن مسعود ؓ کو تو میں نے اپنے نفس پر ایثار کر کے تمہارے پاس بھیجا ہے۔،،

یوں حضور اکرمؐ کی بشارت پوری ہو گئی کہ ’’تم خود علم سکھانے والے پیارے بچے ہو،، شقیق ابووائل بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہؐ کے صحابہ کرام کے حلقے میں بیٹھا ہوں۔ میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کی بات سے انکار کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا اور نہ کسی صحابی نے آپ کا رد کیا۔ یعنی آپ فقاہت کے اس مقام پر فائز تھے کہ آپ کی رائے کے سامنے کسی کو صحابی کو کبھی رائے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔(طبقات ابن سعد)

یہی وہ مناقب و فضائل ہیں جن کے پیش نظر امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اپنی فقہ کے سلسلے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی پیروی کی ہے۔ آپ کے احوال مبارکہ ابن عبدالبر کی الاستیعاب، امام یافعی کی مرآۃ الجنان، ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ ابن قیم کی اعلام الموقعین، ابن حجر کی الاصابہ اور صاحب مشکوٰۃ کی الاکمال میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
Top