لال خط

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!
لال خط
ناصرالدین مظاہری
ہمارے مفتی محب اللہ قاسمی بستوی بتاتے ہیں کہ کل ایک دعوت میں ایک بارات گھرمیںجاناہوا،وہاں پہنچ کرپتہ چلاکہ یہاں کوئی شادی وادی نہیں ہے بلکہ شادی کی تاریخ طے ہوتے وقت ’’لال خط‘‘پڑھنے کے لئے یہ محفل سجائی گئی ہے ، مردوں ،عورتوں،بچوں کاایک ہجوم بارات گھرمیں موجودتھا،طرح طرح کے خوان اورپکوان بالکل اس اندازمیں سجے ہوئے تھے گویاولیمہ کی تیاری ہے ۔
دارالافتاء دارالعلوم دیوبندچیخ چیخ کراعلان کرتاہے :
’’تاریخ کی منظوری کے لیے لال خط کی شکل میں بھیجنا یہ محض ایک رسم ہے، اسلام کسی رسم کو پسند نہیں کرتا، اسلام تو خود رسموں کو مٹانے کے لیے آیا ہے۔ ہم مسلمانوں کو رسموں سے بچنا چاہیے۔ جس شادی میں ویڈیو بنتی ہو یا فوٹو کشی ہوتی ہو، ایسی شادی میں شرکت کرنا مسلمان کے لیے درست نہیں‘‘۔
سوچیں وہ کام جوصرف فون پرہوسکتاہے ،وہ تاریخ جوطرفین ایک دومنٹ میں سادگی کے ساتھ طے کرسکتے ہیں ،وہ عمل جس کی شرعاًکوئی نظیرہی نہیں ہے اس کے لئے باقاعدہ بارات گھرکی بکنگ،طعام کانظم،مردوزن کاہجوم اوردنیابھرکے تکلفات اورتزئین ،دوسری طرف ہرشخص ٹسوے بہارہاہے کہ کاروبارصحیح نہیں ہے،مسجدوالے مسجدکے لئے،مدرسہ والے مدرسے کے لئے ،فقراء اورغرباء اپنے لئے کچھ فرمائش کردیں تواتنے بہانے اورلیت ولعل کہ پناہ بخدا۔
پہلے بھی عرض کیااورباربارعرض کرتاہوں کاروبارکی خرابی کاکوئی اثرہماری تقریبات میں نظرنہیں آتا،البتہ مسجدمیں صبح کچھ لوگ شب خوابی کے لباس میں ضروردکھ جائیں گے،پرانے اورگندے کپڑوں میں ملبوس کچھ لوگوں کوآپ نے بھی اپنے قرب وجوارمیں نمازپڑھتے ضرور دیکھاہوگا،حالانکہ یہی صاحب اگرکبھی کسی تقریب میں دکھ جائیں توآپ بالکل نہیں پہچان پائیں گے کہ یہ وہی میلے کچیلے اورگندے صاحب ہیں جومسجدمیں عمومااس حال میں دکھائی دیتے ہیںکہ ان کے جسم سے عجیب وغریب بدبومحسوس ہوتی ہے،لوگ ان کے پاس کھڑے ہوکر نمازاس لئے نہیں پڑھ پاتے کہ ان کی وجہ سے نمازکاخشوع اورخضوع سب کچھ درہم برہم ہوجاتاہے ۔
اب توشادی کارڈمیں ہی اتنے روپے خرچ کردئے جاتے ہیں کہ غریب انسان اپنی نورنظرکاعقدمسنون کرسکتاہے،اب توہرچیزمیں دکھاواہے،کچھ دن پہلے خبرملی کہ شہرکے ایک امیراوربظاہردیندارکہے جانے والے شخص نے مہنگے بارات گھرکے استقبالیہ گیٹ پرکچھ خوب رو،حسین اورنیم برہنہ دوشیزاؤں کومتعین کردیاہے جواپنی مسکراہٹوں اوردلفریب اداؤں سے آنے والے مہمانوں کااستقبال کریں گی۔
فلم سازی اتنی عام ہوچکی ہے کہ شریف انسان کوکھاناکھاناہی مشکل ہوگیا ہے،آپ کتناہی سرکوجھکالیں کیمرے کی نظروں سے بچ نہیں سکتے، اب توعلمائے کرام کوبارات گھروں میں جاکر’’دعوت‘‘کی ’’عداوت‘‘ مول لینے میں بھی ترددہونے لگاہے ۔کتنی ہی شرطیں لگائیں،کتنے ہی وعدے اورارادے کرالیں کتے کی دم کی طرح’’ بارات گھروں کی اصلاح ‘‘مشکل ہوچکی ہے ۔مرداگرشرافت کامظاہرہ کرتے بھی ہیں توکوئی نہ کوئی پری پیکردوشیزہ یاشتربے مہارخاتون میک اپ سے لدی ہوئی مردانہ علاقہ میں آدھمکتی ہے ۔لوگ بھی اتنے دیوث اوربے شرم ہوچکے ہیں کہ اپنی باپردہ خاتون کوبارات گھروں میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے بے پردہ گھومنے پھرنے پرکوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
شادیوں کی فلمیں جگہ جگہ بڑی بڑی اسکرینوں پردکھائی جاتی ہیں ،اسی میں وہ دلہن بھی باربارکیمرہ مین کی ’’بدمعاشی‘‘ یا’’شرارت‘‘یالوگوں کے’’ مطالبے‘‘ کے باعث دکھائی جاتی ہے جواگرچہ زنان خانے میں ہے لیکن یہاں مردانے میں اس کودنیادیکھ رہی ہے۔
کس قدرافسوس کی بات ہے کہ وہ بچی جس کوکئی دن آپ نے ’’مائیوں‘‘ بٹھارکھاتھا،وہ بچی جس کے لئے آپ کے گھرکے دروازے پردے کی وجہ سے چوبیس گھنٹہ بندرہتے تھے ،وہ بچی جس کے کپڑے بھی اندرون خانہ دھلے جاتے تھے کیاہوگیاکہ آج شادی والے دن آپ کی نظرہی نہیں نظریہ بھی بدل گیا؟کیاہواکہ آپ کی دینداری کاجنازہ ہی نکل گیا؟۔
دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کافتویٰ ہے کہ
’’مایوں بٹھانے‘‘ کی رسم کی کوئی شرعی اصل نہیں، اس میں دلہن کو علیحدہ بٹھایا جاتا ہے اور کسی کو اس سے ملاقات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔لہٰذا اس کو ضروری سمجھنا اور محارِمِ شرعی تک سے پردہ کرادینا نہایت بے ہودہ بات ہے۔اسی طرح لڑکی کو مہندی لگانا تو برائی نہیں، لیکن اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوتیں دینا، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ اور بھڑکیلے لباس پہن کر بے محابا ایک دوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی کا مرقع ہے۔ مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی غیر شرعی رسم ہے، نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے‘‘۔
لیکن اسی ملک میں مہندی کی رسم اتنے تزک واحتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔
گزشتہ دنوں ایک صاحب دعوت نامہ لے کرحاضرہوئے ،نہایت ہی شاندار کارڈتھا،کارڈکئی خوبصورت لفافوں کے اندرمحفوظ تھا،اس کے شاندارلفافے اورجاندارکارڈ کودیکھ کرمیں کہنے لگاماشاء اللہ آپ نے کارڈکواتنے پردوں میں رکھاہے توظاہرہے کھانے پینے کے باب میں آپ کے یہاں پردے کامعقول نظم ہوگا، کہنے لگے جی بالکل ،میں نے کہاکہ مردوں اورعورتوں کے لئے داخلی گیٹ بھی الگ الگ ہوں گے بولے بالکل،میں نے کہاکہ عورتوں کوکھاناکھلانے کے لئے بھی عورتیں متعین ہوں گی؟کہنے لگے اجی عورتوں کے بس کاکام نہیں ہے وہاں توسروس پرمردہی متعین ہوتے ہیں،میں نے کہاکہ مردبھی ایسے جونوجوان ، پھرتیلے، بانکے ،سجیلے اورخوبصورت لڑکے ہوں گے۔آپ لوگ شادی نہیں کرتے بربادی کرتے ہیں ،عام دنوں میں کوئی آپ کے گھرمیں بلااجازت گھس جائے تواس کوجیل ہوجائے گی اورشادی والے دن کوئی بھی آپ کی عورتوں کودیکھے کھلی اجازت ہے۔
دورحاضرکے بارات گھر’’فرارکے راستے ‘‘ہیں،نظاروں کے مراکزہیں، بدنظری اور بدنگاہی کے بازارہیں،عیاشوں اوربدمعاشوں کے لئے ’’اڈے‘‘ ہیں، کتنے ہی واقعات ’’تانک جھانک‘‘کے بارات گھروں سے شروع کر’’کورٹ میرج ‘‘پرختم ہوتے ہیں، موبائل نمبروں کے تبادلے یہیں سے ہوتے ہیں،فرارکے تانے بانے یہیں بنے جاتے ہیں اورقرارتب ملتا ہے جب عزت دار والدین اورنیک نام خاندانی بزرگوں کی’’ ناک کٹ ‘‘چکی ہوتی ہے۔
 
Top