غمگساروں میں

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
تُمہاری یاد کی مہکار سی ہے یادگاروں میں
کہِیں جا کر بسے ہو تُم گگن کے چاند تاروں میں

خزائیں بھی بہاروں سی تُمہارے دم قدم سے تِھیں
خزاں سی رقص کرتی ہے تُمہارے بِن بہاروں میں

ہمارے دیس میں افلاس کا طُوفان آیا ہے
کھڑے ہیں لوگ آٹے کے لیے دیکھو قطاروں میں

گُزاری زندگی اپنی نوالہ ڈُھونڈتے یارو
تمنّا تھی کہ جا بیٹھیں گے پھر بچپن کے یاروں میں

سُنا ہے تُم محبّت کی نظر کرنے پہ مائل ہو
ہمارا نام بھی شامل رکھو عرضی گزاروں میں

چراغِ شب کے بُجھتے ہی بدل لیتے ہیں خیمہ ہی
بہُت سے لوگ ایسے بھی تو ہوں گے غمگُساروں میں

کناروں پر پہنچ کر دل کی ناؤ ڈُوب جاتی ہے
یقینأ ہے کوئی آسیب سا دریا کے دھاروں میں

اُسے آسائشیں جِتنی بھی مُمکن تِھیں مُہیّا کِیں
گِھسِٹتے ہم نے کاٹی زِندگانی ریگزاروں میں

تُمہارے دِلنشیں ہونٹوں پہ بجتی ہے ہنسی ایسے
کہ جیسے جلترنگیں اُٹھ رہی ہوں آبشاروں میں

ہمی تو تھے کہ جِس نے گُلستاں کی آبیاری کی
ہمارا نام ہی شامِل نہِیں ہے آبیاروں میں

رشِیدؔ اپنی حقِیقت جان لو، دولت اپھارا ہے
اکڑ ایسی بھی کیا، پُھولے ہوا جیسے غُباروں میں



رشِید حسرتؔ
 
Top