سب سے بڑا فریضہ

ابو داؤد

طالب علم
رکن
أمُّ الفرائض
سب سے بڑا فریضہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بلاشبہ ہمارے زمانے میں جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ اُمّ الفرائض یعنی وہ سب سے بڑا فریضہ ہے کہ مسلمان جس کے روز بروز مزید محتاج ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے کہ یہ اسلام کے قلعہ اور مسلمانوں کی حرمتوں کے تحفظ کا واحد شرعی وسیلہ ہے، جس کی تائید و تاکید تمام شرعی نصوص بلکہ زمینی حقائق بھی کرتے ہیں، پس جہاد کو معطل کر دینے سے امت پر وہ ذلت و رسوائی اور انحراف و ٹوٹ پھوٹ مسلط ہو جاتی ہے جس کے بیان سے بھاری بھرکم کتابیں بھی عاجز ہیں! پس اللہ ہی سے مدد کا سوال ہے۔

دوسری طرف، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس شرمناک حالت، مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط ذلت کی حالت سے نکلنے کا حل ان کی اپنے دین حق کی طرف واپسی، اور اس کے چوٹی کے عمل جہاد فی سبیل اللہ کو بجا لانا ہے، اور یہ اس مجرب نبوی علاج کی پیروی میں ہو گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے صدیوں پہلے اس حدیث میں تجویز فرما دیا تھا جسے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إذا تبايعتُم بالعينةِ وأخذتم أذنابَ البقرِ، ورضيتُم بالزَّرعِ وترَكتمُ الجِهادَ؛ سلَّطَ اللَّهُ عليْكم ذلاًّ لاَ ينزعُهُ حتَّى ترجعوا إلى دينِكُم

جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے، گایوں کی دمیں تھام لوگے، کھیتی باڑی پر مطمئن ہو جاؤ گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالی تم پر وہ ذلت مسلط فرما دے گا جسے وہ تب تک تم سے دور نہ فرمائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہیں آؤ گے۔
[سنن ابو داود]

لہذا یہ حدیث دلیل ہے کہ جہاد کو ترک کر کے دنیا میں مشغول ہو جانا، اس ذلت کا سبب ہے جو تب تک امت سے دور نہ کی جائے گی جب تک وہ دوبارہ جہاد کے میدانوں کی طرف لوٹ نہ آئے۔

بہر حال، حل یہ نکلا کہ مسلمان اس فریضہ کو از سر نو زندہ کریں جس کو ختم کر دینے، معطل کر دینے اور لوگوں کو اس سے بد ظن کر دینے کے لیے مرتدین و منافقین نے انسانی اور جناتی شیاطین کا القاء کردہ ہر نا پاک اور گھٹیا طریقہ اور راستہ آزمایا، نتیجتاً ہر مجاہد مسلمان کو فسادی ٹھہرا دیا گیا! اور ہر فسادی منافق کو مصلح کا نام دے دیا گیا! اور اس میں کوئی تعجب نہیں کہ یہ تو ان دھوکہ دہی کے سالوں کی نمایاں ترین خاصیت ہے، یعنی:

يُصدَّقُ فيها الكاذِبُ، ويُكذَّبُ فيها الصادِقُ، ويُؤتَمَنُ فيها الخائِنُ، ويخَوَّنُ فيها الأمينُ، وينطِقُ فيها الرُّويْبِضَةُ

ان میں جھوٹے کو سچا کہا جائے گا، اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا، خیانت کار پر بھروسہ کیا جائے گا اور امانت دار کو خائن کہا جائے گا، اور ان لوگوں میں دو ٹکے کے لوگ بات کرنے لگیں گے۔ [سنن ابن ماجہ]


در حقیقت امت ہر راستہ اپنا چکی ! اور ہر وادی میں چل چکی! مگر اپنی بیماری سے شفایاب نہ ہو سکی، نہ جان لیوا امراض سے اس کی جان خلاصی ہو سکی، اور نہ ہی یہ کامیابی و کامرانی کو پا سکی، اور نہ ہی اس طرح کبھی پاسکے گی! بھلا یہ کیسے کامیابی حاصل کر سکتی ہے جب راہ نجات ہی گما بیٹھی ہو ؟ ! جب جلا بخش و عزت افزاء امر کی پکار پر لبیک کہنے کی بجائے، اس نے مہلک و رسوا کن چیزوں کی پکار پر لبیک کہا ہو !

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (اے ایمان والو ! جب اللہ اور اس کا رسول تمہیں جلا بخش چیز کی طرف بلائیں تو ان کی پکار پر لبیک کہو۔)

اس آیت کی تفسیر میں امام طبری رحمہ اللہ نے فرمایا:

أي: "للحرب التي أعزكم الله تعالى بها بعد الذل، وقواكم بها بعد الضعف، ومنعكم من عدوكم بعد القهر منهم لكم"

یعنی: "یہ وہ جنگ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی تمہیں ذلت کے بعد عزت بخشتا ہے، کمزوری کے بعد طاقت بخشتا ہے، اور تم پر تمہارے دشمن کے غلبہ پاجانے کے بعد اسے تم سے ہٹا دیتا ہے۔" [جامع البیان]


اللہ سبحانہ و تعالی کے کامل عدل و رحمت میں سے ہے کہ اس نے اپنا دین مکمل فرما دیا، اور جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض ہوئی تو آپ اپنی امت کو ایک روشن واضح چیز پر چھوڑ کر گئے جس کی رات اس کے دن جیسی ہے اور اس سے صرف وہی گمراہ ہو سکتا ہے کہ ہلاکت جس کا مقدر ہو چکی ہو،

پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خیر ایسی نہ چھوڑی کہ جس کے متعلق اپنی امت کو بتا نہ دیا ہو، نہ کوئی شر ایسا چھوڑا کہ جس سے خبردار نہ کیا ہو، اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں ہمارے لیے مؤمنوں کا راستہ اور مجرموں کا راستہ متعدد نصوص میں واضح فرما دیا ہے،

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے:

كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ (اسی طرح ہم آیات بیان کرتے ہیں اور تاکہ مجرموں کی راہ واضح ہو جائے۔)

امام طبری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:

"كذلك نفصِّل لك أعلامنا وأدلتنا في كل حقّ ينكره أهل الباطل -من سائر أهل الملل غيرهم- فنبيّنها لك، حتى تبين حقه من باطله، وصحيحهُ من سقيمه"

"اسی طرح ہم آپ کے لیے حق کے ہر معاملے میں اپنی نشانیاں اور دلائل بیان کرتے ہیں، جسے ہر ملت کے اہل باطل جھٹلاتے ہیں، پس ہم اسے آپ کے لیے واضح کر دیتے ہیں، تاکہ آپ حق کو باطل سے اور ٹھیک کو غلط سے جدا جدا کر کے بیان کر سکیں۔"


اور ہم ایمان لاتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حق اور باطل میں، گمراہی اور ہدایت میں فرق واضح فرما دیا، اور اسلام و کفر میں، شرک و توحید میں فرق صاف صاف بتلا دیا، اور امت کے لیے دنیا و آخرت میں راہ نجات کی طرف رہنمائی کر دی، اور اسے شیطان کی راہوں اور نقصان سے خبر دار بھی کر دیا،

مگر اس کے باوجود آج بہت سے لوگ گمراہ ہو گئے، کیونکہ انہوں نے صراط مستقیم کی پیروی نہیں کی نہ ہی سیدھے نبوی منہج پر چلے، یوں انہوں نے مؤمنوں کی راہ اپنانے کی بجائے دوسری راہیں اختیار کر لیں، جبکہ اللہ تعالی نے انہیں واضح صریح حکم دیا تھا، اس کی تاکید فرمائی تھی اور اس حکم کی مخالفت کی سزا بھی بتا دی تھی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے پس اسی کی پیروی کرو اور باقی راستوں کی پیروی مت کرو کہ وہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کر دیں گے، اسی کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔


ابو جعفر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"يقول تعالى ذكره: وهذا الذي وصّاكم به ربكم أيها الناس.. وأمركم بالوفاء به هو (صراطه) يعني: طريقه ودينه الذي ارتضاه لعباده، (مستقيمًا) يعني: قويمًا لا اعوجاج به عن الحق، (فاتبعوه): فاعملوا به، واجعلوه لأنفسكم منهاجًا تسلكونه، (ولا تتبعوا السبل): ولا تسلكوا طريقًا سواه، ولا تركبوا منهجًا غيره، ولا تبغوا دينًا خلافه.. (فتفرق بكم عن سبيله): فيشتّت بكم، إن اتبعتم السبل المحدثة التي ليست لله بسبل.."

"اللہ تعالی فرماتے ہیں: اے لوگو! یہی ہے وہ راستہ جس کی تمہارے رب نے تمہیں تاکید کی ہے، اور تمہیں اس کو نبھانے کا حکم فرمایا ہے، صراطه (اس کی راہ) یعنی : وہ دین اور راستہ جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا، مستقيمًا (سیدھا) یعنی : مضبوط جس میں حق سے کوئی کجی نہیں، فاتبعوه (پس اس کی پیروی کرو) : یعنی اس پر عمل کرو، اور اسے اپنے لیے چلنے کا منہج بنالو، ولا تتبعوا السبل (اور دیگر راستوں کی پیروی نہ کرو) : یعنی اس کے سوا دیگر راستوں پر مت چلو، اس کے سوا دیگر کسی منہج کو نہ اپناؤ، نہ اس کے علاوہ کوئی دین تلاشو.. فتفرق بكم عن سبيله(کہ وہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کر دیں گے)، یعنی اگر تم نے ان نئی راہوں کی پیروی کی جو اللہ کی راہیں نہیں ہیں .. (تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے)۔"
[جامع البیان]

آج کے زیادہ تر لوگوں کے حالات پر غور و فکر کرنے والا آدمی انہیں کمزوری اور ضعف کے شکوے کرتا ہوا، اس کی آگ میں جلتا ہوا اور اس کے بوجھ تلے کراہتا ہوا پاتا ہے، پھر جب انبیاء کے پیروکار انہیں اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں سے اس کا حل اور علاج بتاتے ہیں تو وہ زمین سے چپک جاتے ہیں اور دنیا میں ہمیشگی چاہنے لگتے ہیں!

گویا کہ وہ بغیر قربانی دیے اور قیمت چکائے ہی فتح و نصرت اور بغیر جہاد کے ہی عزت چاہتے ہیں! وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حالات بدل جائیں جبکہ وہ خود اسی حالت پر رہیں، یوں وہ مخلوق کے متعلق اللہ کی سنت کی مخالفت کرتے ہیں، جس نے فرمایا ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ
بلاشبہ اللہ کسی قوم کے حالات تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔


یقیناً اللہ تعالی کی سنت اس کی مخلوق میں سے کسی سے رعایت نہیں کرتی، حتی کہ اس کے انبیاء و رسل سے بھی نہیں، جن میں سے ایک نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، جنہوں نے اللہ کی راہ میں کماحقہ جہاد کیا یہاں تک کہ انہیں یقین (یعنی موت) نے آ لیا،

پس یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف بلایا تو اس دعوت کی راہ میں اذیتیں جھیلیں اور ہر اپنے و پرائے کی بے رخی سہی، اور دنیا بھر نے یکجا ہو کر آپ سے دشمنی پر کمر کس لی، آپ کی قوم نے آپ کو جلا وطن کیا، جنگیں کیں اور چھاپے مارے، آپ کے صحابہ کے ساتھ قسما قسم جرائم کیے یہاں تک کہ ان کی پیٹھوں پر جلادوں کے کوڑے چھپ گئے !

لیکن پھر جب جہاد کا ربانی حکم آیا؛ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ کے صحابہ نے جہاد کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے مسلمانوں کو عزت بخشی، شریعت کی حکمرانی ہو گئی، ان کی دعوت ہر سو جا پہنچی، عرب و عجم ان سے ڈرنے لگے، اور یہ سب ایمان کی قوت کے بعد جہاد کی قوت سے ہی ممکن ہوسکا۔

پس یہی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رب العزت نے سات آسمانوں کے اوپر سے پسند فرما لیا، تو بھلا لوگ اس کے بغیر نجات کیسے چاہ سکتے ہیں؟! جب کہ وہ پاک ذات فرماتی ہے:

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا
اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم ضرور بالضرور انہیں اپنی راہیں دکھلا دیں گے۔


امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"لنوفقنهم لإصابة الطريق المستقيمة، وذلك إصابة دين الله الذي هو الإسلام الذي بعث الله به محمدا -صلى الله عليه وسلم-، {وَإنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ} يقول: وإن الله لمع من أحسن من خلقه، فجاهد فيه أهل الشرك، مُصَدّقا رسوله فيما جاء به من عند الله بالعون له، والنصرة على من جاهد من أعدائه"

ہم انہیں سیدھے راستے کو پانے کے لیے اس طرف لے جائیں گے، اور یہی اللہ کے دین اسلام کو پانا ہے جس کے ساتھ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، {وَإنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ} اور بے شک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ کہتے ہیں: یعنی بلاشبہ اللہ اپنی مخلوق میں سے ہر نیکوکار کے ہمراہ ہے، جو اللہ کی راہ میں اہل شرک سے جہاد کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے جہاد کے ذریعے آپ کی مدد و نصرت کر کے اس چیز کی تصدیق کرے جو اللہ کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔"
[جامع البیان]

اب کیا اس واضح بیان کے بعد بھی مزید کسی وضاحت کی ضرورت رہتی ہے؟

بے شک گزشتہ تمام شرعی نصوص اور ان کی مستند تفاسیر واضح کرتی ہیں کہ جہاد ہی مسلمانوں کی نجات کا اکلوتا رستہ ہے، اور اس کی راہ ان کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ ہے جنہوں نے اس کے سوا کوئی راہ نہیں اپنائی، اور اگر آپ کوئی اور راہ پاتے تو ضرور اس کی طرف ہماری رہنمائی فرما دیتے۔

پس جہاد کا فریضہ ام الفرائض ہے اسی سے مسلمانوں کی شانِ رفتہ لوٹے گی، اور یہی باذن اللہ تعالی انہیں دونوں جہانوں میں عزت اور نجات کی طرف لے کر جائے گا، لیکن اکثر لوگ عقل نہیں رکھتے۔​
 
Top