توکل کی حقیقت اور اس کے ثمرات

ابو داؤد

طالب علم
رکن
التوكل.. حقيقته وثماره
توکل کی حقیقت اور اس کے ثمرات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اس کے حضور عاجزی اختیار کرنے والے اس کے مؤمن بندوں کی صفات میں سے ایک صفت ہے، وہ لوگ کہ جن کی صفات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عظیم میں واضح فرمایا ہے، پس ان کے بارے میں ارشاد ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالٰی کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالٰی کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان کو اور بڑھا دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔
[الأنفال]

توکل ایک عظیم عبادت ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے، اور اللہ نے نبیوں، رسولوں اور اپنے مؤمن بندوں کو کئی مواقع پر اس کا حکم دیا ہے، جن میں اس کا یہ فرمان بھی شامل ہے جو اس نے اپنے نبی محمد ﷺ کو دیا ہے:

فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ
تو آپ اسی کی عبادت کریں اور اسی پر توکل کریں۔
[هود]

امامِ طبری رحمہ اللہ نے کہا:

"يقول: فاعبد ربك يا محمد، (وتوكل عليه): فوِّض أمرك إليه، وثِق به وبكفايته، فإنه كافي من توكل عليه"

"اس کا ارشاد ہے: پس اے محمد ﷺ!، اپنے رب کی عبادت کریں، (اور اسی پر توکل کریں): یعنی: اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دیں، اس پر اور اس کے کافی ہو جانے پر بھروسہ کریں کیونکہ جو کوئی اس پر توکل کرتا ہے وہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔"


انہی میں سے اللہ تعالی کا ایک قول یہ بھی ہے:

وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔
[التوبة]

اور اسی طرح دیگر آیات ... تو آئیں جانتے ہیں کہ توکل سے کیا مراد ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور دنیا اور آخرت میں مسلمان کے لیے اس کے کیا اثرات اور فائدے ہیں؟

توکل کی حقیقت

توکل دل کے ان عظیم ترین اعمال میں سے ایک عبادت ہے، جن کی سچائی اور حقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، جیسا کہ ابنِ رجب رحمه الله نے بیان کیا کہ توکل کی حقیقت یہ ہے کہ:

"هو صدق اعتماد القلب على الله -عز وجل- في استجلاب المصالح ودفع المضار من أمور الدنيا والآخرة كلها، وَكِلَةُ الأمورِ كلِّها إليه، وتحقيق الإيمان بأنه لا يعطي ولا يمنع ولا يضر ولا ينفع سواه"

"دنیا اور آخرت کے تمام معاملات میں نفع کے حصول اور نقصان سے بچنے کے لیے دل کے اخلاص کے ساتھ اللہ عز وجل پر انحصار کرنا، اور تمام تر معاملات اسی کے حوالے کر دینا، اور یہ ایمان رکھنا کہ اس کے سوا کوئی دوسرا نہ دے سکتا، نہ روک سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا، نہ ہی فائدہ دے سکتا ہے۔"
[جامع العلوم والحكم]

اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا، اس پاک ذات پر ایمان کی شرائط میں سے ایک شرط ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے توکل اور ایمان کو یکجا کردیا اور فرمایا:

وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ
اور اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرو۔
[المائدة]

نیز یہ بھی فرمایا:

يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ
(موسی نے کہا) اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم (واقعی) مسلمان ہو۔
[یونس]

اس بارے میں ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"هل خاطب الله بالتوكل في كتابه إلا خواصَّ خلقِه وأقربَهم إليه وأكرمَهم عليه؟ وشرط في إيمانهم أن يكونوا متوكلين، والمعلّق على الشرط يُعدم عند عدمه، وهذا يدل على انتفاء الإيمان عند انتفاء التوكل، فمن لا توكل له لا إيمان له، قال الله تعالى: {وَعَلى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} [المائدة]، وقال تعالى: {وَعَلى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ المُؤْمِنُونَ} [آل عمران]، وقال تعالى: {إنَّما المُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إذا ذُكِرَ اللَّهُ وجِلَتْ قُلُوبُهم وإذا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آياتُهُ زادَتْهم إيمانًا وعَلى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ} [الأنفال]، وهذا يدل على انحصار المؤمنين فيمن كان بهذه الصفة"

کیا اللہ نے اپنی کتاب میں توکل کا ذکر کر کے اپنی خاص، قریبی ترین اور معزز ترین مخلوق کے سوا کسی اور کو بھی مخاطب کیا ہے؟ اور ان کے ایمان کی ایک شرط یہ بتلائی ہے کہ وہ توکل کرنے والے ہیں، اور قاعدہ یہ ہے کہ اگر شرط پوری نہ ہو تو مشروط چیز کالعدم ہو جاتی ہے، پس جب توکل نہ ہو تو یہ امر ایمان کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے، سو جس کا توکل نہیں تو گویا اس کا ایمان بھی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اور اگر تم ایمان لاتے ہو تو اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرو} [المائدة]، اور اللہ تعالی نے فرمایا: {اور مومنوں کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے} [آل عمران]، مزید فرمایا: {بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالٰی کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالٰی کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں} [الأنفال]، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان صرف وہی ہیں جن میں یہ خوبی پائی جاتی ہے۔"
[مدارج السالكین]

انبیاء کا توکل

اللہ پر توکل کی حقیقت خطرات اور پریشانی کے وقت کے سوا ویسے ظاہر نہیں ہوسکتی، تمام مخلوق میں کامل ترین ایمان والے اور اللہ تعالیٰ پر سب سے زیادہ توکل کرنے والے لوگ انبیاء ہیں، اور ان کے حالات میں ہمارے لیے وعظ اور نصیحتیں ہیں، پس یہ رہے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ، اور یہ رہے ان سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کہ جنہوں نے اپنے رب کا سہارا لیا، اپنے معاملات اپنے خالق سبحانہ کے سپرد کردیے، اور سخت حالات میں اسی ذات پر بھروسہ کیا، پس یوں انہوں نے اللہ کے حضور اپنے توکل کو سچ کر دکھایا۔

فعن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: "حسبنا الله ونعم الوكيل، قالها إبراهيم -عليه السلام- حين ألْقيَ في النار، وقالها محمد -صلى الله عليه وسلم- حين قالوا: {إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ}"

ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ "حسبنا الله ونعم الوكیل" کا کلمہ ابراہیم علیہ السلام نے تب کہا جب ان کو آگ میں ڈالا گیا، اور یہی کلمہ محمد ﷺ نے اس وقت کہا {جب لوگوں نے کہا تھا کہ لوگوں (یعنی قریش) نے تمہارے خلاف بڑا سامان جنگ اکٹھا کر رکھا ہے، ان سے ڈر جاؤ، لیکن اس بات نے آپ ﷺ کا ایمان اور بڑھا دیا اور آپ ﷺ نے ارشاف فرمایا: ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔
[أخرجه البخاری]

تو ابراہیم علیہ السلام کا معاملہ آخرکار یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آگ سے بچا لیا، پس اس پاک ذات نے آگ کو ان کے لیے ٹھنڈک اور سراپا سلامتی بنا دیا، اور ان کے خلاف تدبیر کرنے والے ان کے دشمنوں کو خسارے سے دوچار کردیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَرادُوا بِهِ كَيْداً فَجَعَلْناهُمُ الْأَخْسَرِينَ
ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ چال چلنا چاہی تھی مگر ہم نے انہی کو ناکام کر دیا۔


اور جہاں تک رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کا تعلق ہے تو وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ لوٹے اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچ پایا، یہ اللہ کے فضل اور ان پر اس ذات کی مہربانی سے ہوا، جب انہوں نے اپنے رب پر ایسا توکل کیا جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے اور اپنی قوت اور اپنی قوت سے انکار کر دیا تو اللہ نے انہیں اس چیز سے بچا لیا جس سے انہیں ڈر تھا اور انہیں ان کے دشمن سے نجات دی، اسی طرح جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو نجات دی تھی جب انہوں نے فرعون اور اس کے سپاہی پیچھے لگ جانے پر اپنے رب پر کماحقہ توکل کیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ قَالَ كَلا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ

پس جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوگئیں تو موسیٰ کے ساتھیوں نے (گھبرا کر) کہا کہ بس ہم تو پکڑے گئے، موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں! یقیناً میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور میری راہنمائی کرے گا۔
[الشعراء]

پس موسیٰ علیہ السلام کے عظیم توکل کو دیکھیں اور اس توکل کا نتیجہ بھی ملاحظہ کریں، کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اس مشکل صورتحال سے نجات دے دی، چنانچہ اس نے ان کے لیے سمندر پھاڑ دیا اور اسی میں فرعون اور اس کے سپاہیوں کو غرق کر دیا، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے وہ (اللہ) اس کے لئے کافی ہے۔
[الطلاق]

توکل اسباب اختیار کرنے کے مخالف نہیں

سمجھا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کا مطلب ہے کہ کسی بھی معاملے میں (خواہ دینی ہو یا دنیاوی) اسے حاصل کرنے کے ذرائع کو ترک کر دیا جائے، جبکہ یہ نہ صرف اللہ کے حکم کی مخالفت ہے بلکہ توحید کے ایک پہلو میں خلل اندازی اور اس توکل کے صحیح مفہوم کی کم فہمی پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جس کا اللہ سبحانہ نے حکم دیا ہے،

اس لیے کہ اسباب کو اختیار کرنا ایک شرعی فریضہ ہے جو مقصد کو پانے کے لیے ضروری ہے، البتہ اس پر نہ بھروسہ ہونا چاہیے، نہ اس پر تکیہ کرنا چاہیے اور نہ ہی اس سے دل لگا لینا چاہیے،

شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"قال طائفة من العلماء: الالتفات إلى الأسباب شرك في التوحيد، ومحو الأسباب أن تكون أسباباً نقص في العقل، والإعراض عن الأسباب بالكلية قَدْحٌ في الشريعة، وإنما التوكل المأمور به ما اجتمع فيه مقتضى التوحيد والعقل والشرع"

"علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ: اسباب سے دل لگانا توحید میں شرک ہے اور اسباب کو سرے سے بطور اسباب ہی مٹا دینا کم عقلی ہے، اور اسباب سے کل طور پر منہ موڑ لینا شریعت پر بہتان ہے، جبکہ فرض شدہ توکل تو وہ ہے جس میں توحید، عقل اور شریعت کے تقاضے ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں۔"
[التحفة العراقیة]


ان کے شاگرد ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:

"وأجمع القومُ على أن التوكل لا ينافي القيامَ بالأسباب، فلا يصح التوكل إلا مع القيام بها، وإلا فهو بطالةٌ وتوكلٌ فاسد"

"سب علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ توکل اسباب اختیار کرنے سے متصادم نہیں، اس لیے توکل اس وقت تک درست نہیں جب تک کہ انہیں اختیار نہ کیا جائے، ورنہ یہ محض سستی اور فاسد توکل ہے۔"
[مدارج السالكین]

اور جو شخص اللہ عزوجل کی کتاب پر غور کرے اسے معلوم ہوگا کہ اسباب اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور اس کا ذکر کئی مقامات پر کیا ہے، اس پاک ذات نے اپنے مؤمن بندوں کو کافروں کی خیانت سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ خُذُواْ حِذْرَكُمْ
اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو۔
[النساء]

اور اس بلند شان والی ذات پاک نے تیاری اور کافروں سے جنگ کے حوالے سے فرمایا:

وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ ٱلْخَيْلِ
(اے مسلمانو!) تم جس قدر استطاعت رکھتے ہو ان (کفار) کے لیے قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو۔
[الأنفال]

اور اپنے بندوں کو رزق تلاش کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ ذَلُولًا فَٱمْشُواْ فِى مَنَاكِبِهَا وَكُلُواْ مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ ٱلنُّشُورُ

وہ (اللہ) وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے ہموار کر دیا تاکہ تم اس کے شانوں (راستوں) پر چلو اور اس (اللہ) کے (دیے ہوئے) رزق سے کھاؤ پھر اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔
[الملك]

اور اسی پاک ذات کا فرمان ہے:

فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ
پھر جب نماز تمام ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (یعنی روزی) تلاش کرو۔
[الجمعة]

ان آیات میں اور بہت سی دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کے ساتھ ساتھ ضروری ذرائع کو اختیار کرنے کا ثبوت موجود ہے۔

ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:

"فلا تتم حقيقة التوحيد إلا بمباشرة الأسباب التي نصبها الله تعالى، وإن تعطيلها يقدح في نفس التوكل، وإن تركها عجْزٌ ينافي التوكل الذي حقيقته اعتماد القلب على الله في حصول ما ينفع العبد في دينه ودنياه، ودفع ما يضره في دينه ودنياه، ولا بد من هذا الاعتماد من مباشرة الأسباب، وإلا كان معطلاً للحكمة والشرع، فلا يجعل العبد عجزه توكلاً ولا توكله عجزاً"

"توحید کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اسباب اختیار کیے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اور اگر اس کو نظر انداز کیا جائے تو یہ توکل کو مجروح کرتا ہے اور اسے چھوڑنا خسارہ ہے جو اس توکل کے خلاف ہے جس کی حقیقت ہی یہ ہے کہ بندہ اپنے دین و دنیا میں فائدے کے حصول کی خاطر اور نقصان دور کرنے کے لیے اللہ پر دلی بھروسہ کرے، پس اس بھروسے میں اسباب کو اپنے ساتھ لینا ناگزیر ہے ورنہ یہ حکمت اور شریعت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گا۔ اس لیے بندے پر لازم ہے کہ نہ اپنی بے بسی کو توکل جتلائے اور نہ ہی اپنے توکل کو ہی بے بسی کہے۔"
[زاد المعاد]

توكل کے ثمرات

جب بندے کے دل میں اللہ پر توکل کی حقیقت قرار پا جاتی ہے تو وہ اس عظیم عبادت کے ثمرات کو پانے لگتا ہے، اور توکل کے بہترین اور عظیم ترین ثمرات میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ایسے بندے سے محبت کرتا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
پس اللہ پر توکل کرو بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
[آل عمران]

اور اگر اللہ کسی بندے سے محبت کرے تو اسے دونوں جہانوں کی سعادتیں مل جاتی ہیں۔ اللہ پر توکل کے ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ: شیطان سے اور اس کی چالوں سے حفاظت ہوجاتی ہے؛ اس لیے کہ شیطان ان مومنوں سے دور بھاگتا ہے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ پر توکل کرتے ہیں اور اس کا ان پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ان پر اس (شیطان) کا کوئی تسلط نہیں ہے۔
[النحل]

اس کے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: گمراہی سے ہدایت کی طرف راستے کھلنے لگتے ہیں، دنیاوی معاملات میں کفایت ہوجاتی ہے، اور ناگوار چیزوں سے حفاظت ہوجاتی ہے،

آپ ﷺ نے فرمایا:

من قال -يعنى إذا خرج من بيته-: "بسم الله توكلت على الله ولا حول ولا قوة إلا بالله" يقال له: "كفيت ووقيت وهُديت وتنحى عنه الشيطان"، فيقول لشيطان آخر: "كيف لك برجل قد هُدِي وكُفِي وَوُقِي"

جو آدمی اپنے گھر سے نکلتے ہوئے کہے "بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله" یعنی: میں اللہ کے نام سے نکلتا ہوں، میرا پورا پورا توکل اللہ ہی پر ہے، اور تمام طاقت و قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے، تو اس سے کہا جاتا ہے (یعنی فرشتے کہتے ہیں): اب تجھے کفایت کر دی گئی، اور تو بچا لیا گیا، اور تجھے ہدایت دے دی گئی، اور شیطان اس سے جدا ہو جاتا ہے"، پھر وہ دوسرے شیطان سے کہتا ہے: تجھے اس آدمی پر کیونکر غلبہ ہوسکے گا کہ جسے ہدایت دے دی گئی، اس کی جانب سے کفایت کر دی گئی اور جسے بچا لیا گیا۔"
[أبو داوود و ابن حبان]

ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

"والتوكل من أقوى الأسباب التي يدفع بها العبد ما لا يطيق من أذى الخلق وظلمهم وعدوانهم، وهو من أقوى الأسباب في ذلك، فإن الله حسبه أي كافيه، ومَن كان الله كافيه وواقيه فلا مطمع فيه لعدوه ولا يضره إلا أذى لا بد منه، كالحر والبرد والجوع والعطش، وأما أن يضره بما يبلغ منه مراده فلا يكون أبدا وفرق بين الأذى الذي هو في الظاهر إيذاء له وهو في الحقيقة إحسان إليه وإضرار بنفسه، وبين الضرر الذي يتشفى به منه، قال بعض السلف: "جعل الله تعالى لكل عمل جزاء من جنسه، وجعل جزاء التوكل عليه نفس كفايته لعبده فقال: {وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ} ولم يقل نؤته كذا وكذا من الأجر كما قال في الأعمال، بل جعل نفسه سبحانه كافي عبده المتوكل عليه وحسبه وواقيه، فلو توكل العبد على الله تعالى حق توكله وكادته السموات والأرض ومن فيهن لجعل له مخرجا من ذلك وكفاه ونصره"

"توکل ان مضبوط ترین اسباب میں سے ایک ہے جن کے ذریعے بندہ مخلوق کی ایذاء رسانی، ظلم اور زیادتی جیسی نا قابل برداشت چیزوں کو دفع کرسکتا ہے، اور یقینا یہ اس کے مضبوط ترین اسباب میں سے ایک ہے، کیونکہ اللہ اس کے لیے کافی و شافی ہو جاتا ہے، اور جس شخص کے لیے اللہ کافی ہوجائے اور اس کا محافظ ہوجائے تو اس کے خلاف اس کے دشمن کا کچھ بس نہیں چل سکتا، نہ ہی وہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے، سوائے ناگزیر معمولی اذیت کے جیسے گرمی، سردی، بھوک اور پیاس؛ مگر جہاں تک اس نقصان کا تعلق ہے جو وہ پہچانا چاہتا ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اور اس معمولی اذیت میں کہ جس سے اسے ظاہری طور پر اذیت محسوس ہوتی ہے جبکہ درحقیقت اس کے حق میں احسان اور دشمن کے حق میں نقصان ہے، اور اس نقصان میں جی جس کے ذریعے اسے دشمن سے تسکین ملے، بڑا فرق ہے، بعض سلف کا کہنا ہے: اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کے لیے اس کی اپنی نوعیت کا اجر مقرر کیا ہے، اور اللہ پر توکل کرنے کی جزاء اپنے بندے کے لیے خود اپنی جناب سے کفایت کو مقرر فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: {اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے وہ (اللہ) اس کے لیے کافی ہے} یہ نہیں فرمایا کہ ہم اسے فلاں فلاں اجر دیں گے جیسا کہ باقی اعمال کے بارے میں فرمایا ہے، بلکہ اس پاک ذات نے اپنے آپ کو اپنے اس متوکل بندے کے لیے کفایت کرجانے والا، اور اس کی حفاظت کرنے والا قرار دیا ہے، اس لیے کہ اگر بندہ اپنے رب تعالیٰ پر اس طرح توکل کرے جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو پھر چاہے آسمان و زمین اور جو ان میں ہیں سب اس کے خلاف چالیں چلنے لگیں تو بھی وہ اس کے لیے اس سب سے نکلنے کا راستہ نکال دے گا، اس کے لیے کافی ہو جائے گا اور اس کی مدد کرے گا۔"
[بدائع الفوائد]

نیز اس کے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رزق کی فراوانی اور اس تک رسائی میں آسانی ہوجاتی ہے؛ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

لو أنكم تَتَوَكَّلون على الله حق توكله، لَرَزَقَكُم كما يرزق الطير، تغدو خماصًا، وتروح بطانًا

اگر تم اللہ پر اس طرح توکل كرو جس طرح اس پر توکل كرنے كا حق ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں كو رزق دیتا ہے، وہ صبح كے وقت بھوكے پیٹ جاتے ہیں اور شام كے وقت پیٹ بھرے ہوئے واپس پلٹتے ہیں۔
[أحمد والتِّرمذی]

امام ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وهذا الحديث أصلٌ في التوكل، وأنه من أعظم الأسباب التي يُستجلب بها الرزق، قال الله -عزّ وجل-: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ}، وقد قرأ النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- هذه الآية على أبي ذر وقال له: (لو أن الناس كلهم أخذوا بها لكفتهم) يعني: لو أنهم حققوا التقوى والتوكل؛ لاكتفوا بذلك في مصالح دينهم ودنياهم"

"یہ حدیث توکل کی بنیاد ہے، اور یہ رزق کی تلاش کے عظیم ترین اسباب میں سے ایک ہے، الله عزّ وجل فرماتا ہے: {اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے راستہ بنا دیتا ہے۔ اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے وہ (اللہ) اس کے لیے کافی ہے}، نبی ﷺ نے یہ آیت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو پڑھ کر سنائی اور فرمایا کہ: (اگر تمام لوگ بھی اس کو تھام لیں تو یہ ان سب کے لیے کافی ہو جائے) یعنی: اگر وہ تقویٰ اور توکل کو بجا لائیں؛ تو وہ اپنے دینی اور دنیاوی مفادات میں اس پر قانع ہو جائیں گے۔"
[جامع العلوم و الحکم]

اور اس کے ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ: دشمنوں کے خلاف مدد اور ان پر فتحیابی ملتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلا غالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا، اور اگر وہ تمہیں تنہا چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے، اور اہل ِایمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔
[آل عمران]

مذکورہ بالا گفتگو سے یہ ثابت ہوا کہ بندے کے لیے اپنے تمام معاملات میں اللہ سبحانہ پر توکل کرنا اور اپنے تمام معاملات اپنے خالق کو سونپ دینا ناگزیر ہے۔ تمام طاقت و قوت اس پاک ذات ہی کی طرف سے ہے، اے اللہ ہم تجھ ہی پر توکل کرتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔​
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہت عمدہ تحریر
اشتراک کا بہت بہت شکریہ
اللہ تعالیٰ پر توکل یعنی بھروسہ کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے۔ قرآن وحدیث میں توکل علیٰ اللہ کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔
صرف قرآن کریم میں سات مرتبہ ’’وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ فرماکر مؤمنوں کو صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تاکید کی گئی ہے،
یعنی حکم خداوندی ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو صرف اللہ ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
 
Top