فضائل اعتکاف

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
فضائل اعتکاف
از قلم:محمدداؤدالرحمن علی
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔اعتکاف کی عبادت ایک ایسی عبادت ہے کہ اس میں انسان ہمہ وقت عبادت میں شمار ہوتا ہے کواہ وہ جاگ رہاہو یا سو رہاہو۔اعتکاف اللہ رب العزت کی بندی بجا لانے کا ایک منفرد طریقہ ہے جس میں مسلمان دنیا کے ہر مشاغل،مصروفیات،کاروبار الغرض ہر معمول سے بلکل لا تعلق ہوکراللہ رب العزت کے گھر یعنی مسجدمیں گوشہ نشین ہوجاتا ہے۔دل آستانہ الہٰی پر جھک جاتا ہے اور زبان ذکرالہٰی سے تر ہوجاتی ہے ، اعتکاف ایک جامع عبادت ہے،اعتکاف کی حقیقت خالق ارض وسماء ومالک الملک کے دربار عالی میں پڑجانے کا نام ہے۔اعتکاف عاجزی ومسکنت اور تضرع وعبادت سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کابہترین کا ذریعہ ہے۔اعتکاف دراصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار و اللہ رب العزت کی کبریائی اور اس کے سامنے خود کو سپردگی کا امکان ہے۔
اعتکاف کا معنی:
اعتکاف کا لغوی معنی " رکنا اور قیام کرنا" ہے۔
شریعت کی اصطلاح میں "اعتکاف" ثواب کی نیت سے مسجد میں رکنے کا نام ہے۔(الجوھرۃ النیرۃ، 175/1 کتاب الصوم ط: قدیمی)
اعتکاف کی حقیقت:
اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یکسو ہوکراللہ جکی طرف متوجہ ہوجائےاس کے در پر(یعنی مسجد کے کسی کونے میں )بیٹھ جائےاور سب سے الگ تنہائی میں اللہ رب العزت کی عبادت و ذکرو اذکار میں مشغول ہوجائے۔(معارف الحدیث ،جلد۵ص۱۱۷)
فضائل اعتکاف:
حضورﷺنے رمضان المبارک کے شروع کے دس دن کا اعتکاف کیا، پھر فرمایا کہ میں نے شبِ قدر کی تلاش میں شروع کے دس دن کا اعتکاف کیا، پھر درمیان کے دس دن کا اعتکاف بھی اسی واسطہ کیا تھا، پھر مجھے کسی بتانے والے (فرشتے) نے بتایا کہ وہ آخری دس دن میں ہے، (اس لیے آخری دس دن کا اعتکاف کرنا ہے) جو شخص تم میں سے اعتکاف کرنا چاہے کرلے، چنانچہ آخری دس دن کا اعتکاف فرمایا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے آپ صلی الله عليه وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا۔(مسلم، 370/1، ط قدیمی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور (جن نیکیوں میں وہ اعتکاف کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکتا،جیسےکہ جنازہ،تدفین،عیادت وغیرہ)ان میں اس کے لیے اتنی ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لیے لکھی جاتی ہیں۔‘‘(ابن ماجہ،باب فی ثواب الاعتکاف:۱۷۱۸)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص ایك دن كا اعتكاف بهی الله كی رضا كے لیے كرتاہےتو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ فرمادیتے ہیں جن کی مسافت زمین و آسمان کی مسافت سے زیادہ ہے۔‘‘(طبرانی)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کے اعتکاف کرنے کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے۔‘‘(البیھقی، 220/1)
اعتکاف کی اقسام:
اعتکاف تین قسموں کا ہوتا ہے، واجب، سنت اور نفل۔رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت ہے، باقی دنوں کا اعتکاف نفل ہے، اور اگر کچھ دنوں کے اعتکاف کی منت مان لے، تو ان دنوں کا اعتکاف واجب ہو جاتا ہے۔(ھندیۃ، 274/1، ط رشیدیہ)
اعتکاف کا مقصد:
اعتکاف کا مقصد شب قدر کی تلاش اور اس کی فضیلت کو حاصل کرنا ہے، اعتکاف کی حالت میں چونکہ پورا وقت مسجد میں گزرتا ہے، اس لیے اعتکاف کی حالت میں سونا اور آرام کرنا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے، اس لیے ہمیشہ اعتکاف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ازواجِ مطہرات کا اعتکاف:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے، وفات تک آپ صلی الله عليه وسلم کا یہ معمول رہا، آپ صلی الله عليه وسلم کے بعد آپ صلی الله عليه وسلم کی ازواجِ مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔(صحیح بخاری، 271/1، ط قدیمی)
واضح رہے کہ ازواجِ مطہرات اپنے کمروں میں اعتکاف فرماتی تھیں، مسجد میں نہیں، اور خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے، جو انہوں نے نماز کے لیے مقرر کر رکھی ہے، اگر گھر میں نماز کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہیں ہے، تو اعتکاف کرنے والی خواتین کو اعتکاف کی جگہ مقرر کر لینی چاہیے۔(مرقاۃ المفاتیح، 523/4، ط حقانیہ،الھندیہ، 211/1، ط رشیدیہ)
مسائل اعتکاف:
احاطہ مسجد اور مسجد میں فرق:

مسجد کا اطلاق صرف چار دیواری، فرش اور صحن ہی پر ہوتا ہے، اور وہی شرعاً مسجد ہوتی ہے، اس کے علاوہ جو مسجد کی زمین کا احاطہ ہوتا ہے، وہ مسجد نہیں ہوتی، اس لیے معتکف کے لیے مسجد سے نکل کر احاطہ مسجد میں جانا جائز نہیں ہے، اور اگر وہاں چلا گیا، تو اعتکاف باطل ہو جائے گا۔جب کسی مسجد میں اعتکاف کرنا ہو، تو پہلے مسجد کے متولی یا امام صاحب یا کسی عالمِ دین سے یہ معلوم کرلے کہ اصل مسجد کہاں تک ہے، کیونکہ مسجد ہمیشہ سب سے باہر کے دروازے تک ہی نہیں ہوتی ہے، مسجد اور چیز ہے، اور اس کا احاطہ اور چیز ہے، اس لیے جو حصہ شرعی مسجد کی حدود سے باہر ہو، وہاں پر اعتکاف کے دوران نہ جایا کرے۔(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، 223/5، ط وزارۃ الاوقاف الکویت)
معتکف کا تلاوت وغیرہ کے لیے وضو کرنا:
اگر معتکف کے لیے مسجد کے اندر بیٹھ کر وضو کرنے کی کوئی ایسی جگہ ہو کہ پانی مسجد سے باہر گرے، مثلا: معتکف مسجد کی حدود کے اندر رہے اور وضو کا پانی باہر زمین پر یا ندی پر گرے، یا کوئی ایسے بڑے ٹب یا برتن کی سہولت ہو کہ وضو کا پانی اس میں گرایا جائے، اور اسے وضو کے بعد کسی ذریعہ سے باہر ڈال دیا جائے، تو پھر معتکف کو وضو کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے، اور اگر ایسی جگہ نہیں ہے، تو مسجد سے باہر جا کر وضو کرنا جائز ہے، خواہ فرض نماز کے لیے ہو، یا نفل یا تلاوت کے لیے، سب کا یہی حکم ہے۔اگر مسجد سے متصل کوئی نالی ہو، یا پانی مسجد سے باہر جا کر گرنے کا راستہ ہو، مثلا: مسجد کی حد کے اندر بیسن لگا ہوا ہو اور پانی نالی کے ذریعہ مسجد سے باہر چلا جاتا ہو، تو اس طرح وضو کرے کہ پانی مسجد میں نہ گرے، بلکہ نالی کے ذریعہ مسجد سے باہر گرے، تو یہ جائز ہے۔یاد رہے کہ مسجد میں پانی گرانا جائز نہیں ہے، اور غیر معتکف کے لیے کسی صورت میں مسجد میں وضو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔(الھندیۃ، 213/1، ط رشیدیہ البحر الرائق،303/2،ط سعید)
مسجد میں پانی ختم ہوجائے:
مسجد میں وضو کا پانی ختم ہوگیا، تو جہاں سے جلدی لا سکتا ہو، وہاں جا کر پانی لا سکتا ہے، اور اگر گھر جانا پڑے، تو گھر بھی جانا جائز ہے، خواہ وہیں وضو کر کے آجائے یا مسجد میں آکر وضو خانے پر بیٹھ کر وضو کر لے، درمیان میں کہیں بلا ضرورت نہ ٹہرے۔(البحر الرائق، 301/2، ط سعید)
معتکف کو احتلام ہو جائے تو کیا کرے؟
معتکف کو اگر احتلام ہو جائے، تو اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا، معتکف کو چاہیے کہ آنکھ کھلتے ہی تیمم کرے، جس کے لیے یا تو پہلے ہی سے ایک کچی یا پکی اینٹ رکھ لی جائے، ورنہ مجبوری کی وجہ سے مسجد کے صحن یا دیوار پر ہاتھ مار کر مسنون طریقہ کے مطابق تیمم کرے، پھر غسل کا انتظام کرے۔(البحرالرائق، 195/1، ط سعید)
سردیوں میں احتلام ہوجائے اور ٹھنڈے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو،اور مسجد میں گرم پانی کا انتظام نہ ہو، تو معتکف تیمم کر کے مسجد میں ہی رہے اور اپنے گھر اطلاع کردے، تاکہ گرم پانی کا انتظام ہو جائے، اگر قرب و جوار میں کوئی گرم حمام ہو، تو قریب والی دکان پر غسل کر کے آسکتا ہے، اگر ہو سکے تو حمام والے کو اپنے آنے کی اطلاع کردے اور غسل کر کے فورا ًواپس آجائے۔(الھندیۃ، 28/1، ط رشیدیہ)
اعتکاف میں نہانے کا حکم:
اعتکافِ مسنون میں غسلِ واجب کے علاوہ کسی اور غسل کے لیے مسجد سے نکلنا درست نہیں ہے۔ٹھنڈک کے لئے غسل کی نیت سے جانا معتکف کے لئے جائز نہیں، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ جب پیشاب کا تقاضا ہو تو پیشاب سے فارغ ہوکر غسل خانے میں دو چار لوٹے بدن پر ڈال لیا کریں، جتنی دیر میں وضو ہوتا ہے، اس سے بھی کم وقت میں بدن پر پانی ڈال کر آجایا کریں، الغرض غسل کی نیت سے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں، طبعی ضرورت کے لئے جائیں تو بدن پر پانی ڈال سکتے ہیں۔
اسی طرح اگر گرمی کی وجہ سے غسل کی شدید ضرورت ہو تو مسجد میں بڑا برتن رکھ کر اس میں بیٹھ کر اس طرح غسل کر لے کہ استعمال کیا ہوا پانی مسجد میں نہ گرے، یا تولیہ بھگو کر نچوڑ کر بدن پر مل لے، اس سے بھی ٹھنڈک حاصل ہوجائے گی۔(کذا فی فتاوی عثمانی،196/2ردالمحتار،446/2، ط سعید)
تیمار داری کے لیے جانا:
معتکف کی بیوی، والدین یا اولاد سخت بیمار ہوگئے، ان کی تیمارداری کے لیے کوئی نہیں، اور معتکف مجبور ہو کر ان کی تیمارداری کے لیے مسجد سے باہر نکلا، تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا، اگرچہ گنہگار نہیں ہوگا، لیکن قضا لازم ہوگی۔(الھندیہ، 212/1، ط رشیدیہ)
معتکفہ عورت کا کھانا بنانا اور گھر والوں کے ساتھ سحری اور افطاری کرنا:
عورت اپنے گھر والوں کے لیے اعتکاف کی جگہ میں رہتے ہوئے کھانا بھی پکا سکتی ہے اور ان کے ساتھ مل کر اعتکاف کی جگہ پر سحری اور افطاری بھی کر سکتی ہے، لیکن اپنے اعتکاف کی جگہ سے باہر نکل کر گھر والوں کے لیےسحری اور کھانا وغیرہ نہیں بنا سکتی، اور نہ ہی اعتکاف کی جگہ سے باہر نکل کر گھر والوں کے ساتھ سحری و افطاری کرسکتی ہے۔اگر عورت اکیلی ہو، اور اس کے لیے کوئی کھانا بنانے والا موجود نہ ہو، تو ایسی صورت میں اعتکاف سے باہر نکل کر اپنے لئے کھانا بنانے کی گنجائش ہے، لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی جگہ ہی پر کھانے پکانے کا نظم بنائے اور مجبوری کی صورت میں اگر نکلنا پڑے تو جلد از جلد کام کو نمٹا کر اپنے اعتکاف کی جگہ پر پہنچنے کی کوشش کرے۔(الهندية،1/ 211)
اعتکاف کے دوران عورت کا حیض شروع ہوجائے، تو کیا کرے؟
اگر کوئی عورت اعتکاف میں بیٹھے، اور اعتکاف کے دنوں میں اس کے حیض کے دن شروع ہوجائیں، تو اعتکاف ختم ہوجائے گا، کیونکہ اعتکاف کے لئے حیض وغیرہ سے پاک ہونا ضروری ہے، البتہ جس دن حیض آیا ہے، اس ایک دن اور ایک رات کے اعتکاف کی قضا کرنا لازم ہوگا۔(ھندیۃ، 211/1، ط رشیدیہ)
معتکف کا ڈاکٹر کے پاس جانا:
اگر معتکف اس قدر بیمار ہو کہ ڈاکٹر کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، اور وہ مسجد سے نکل کر ڈاکٹر کے پاس چلا جائے، تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا، قضا لازم ہوگی، البتہ گناہ نہیں ہوگا۔(البحر الرائق، 302/2- 303 ط: سعید)
معتکف کا جمعہ کے غسل کے لئے نکلنا:
رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، اس میں واجب غسل کے علاوہ جمعہ وغیرہ کے غسل کے لئے نکلنے کی اجازت نہیں ہے، اگر نکلے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا، ایک دن ایک رات اعتکاف کی قضا روزے کے ساتھ کرنا لازم ہوگا۔(الدر المختار، 444/2- 445، ط: سعید)
اعتکاف ٹوٹنے پر قضا کا حکم:
اگر کوئی شخص رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھے اور اس کا اعتکاف کسی عذر کی وجہ سے ٹوٹ جائے، تو جس دن کا اعتکاف فاسد ہوا ہو، اسی روز کی قضا واجب ہوگی، پھر اگر رمضان کے کچھ ایام باقی ہوں، تو ان میں وہ قضا کی نیت کرکے ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف کر سکتا ہے، ورنہ جب موقع ہو، ایک نفلی روزہ رکھ کر اس ایک دن ایک رات کے اعتکاف کی قضا کرلے۔(الشامی، 444/2، ط سعید)
نفل اعتکاف کی قضا واجب نہیں، کیونکہ نفل اعتکاف مسجد سے نکلنے سے نہیں ٹوٹتا، بلکہ ختم ہو جاتا ہے اور اعتکاف ختم ہونے کی صورت میں قضا لازم نہیں ہوتی۔(الھندیۃ، 214/1، ط رشیدیہ)
نذر کا اعتکاف خواہ معین ہو یا معین نہ ہو، ٹوٹ جانے کی صورت میں نئے سرے سے تمام دنوں کی قضا روزے کے ساتھ لازم ہوگی، کیونکہ نذر کے اعتکاف میں تسلسل لازم ہے۔(البحر الرائق، 306/2، ط سعید)
اعتکاف کے فوائد:
اعتکاف کرنے والے کے لیے شب قدر کو تلاش کرنا آسان ہے۔
اعتکاف کرنے والے کو مسجد سے اُنسیت پیدا ہوتی ہے اور اس کا دل مسجد میں اٹکنے لگ جاتا ہے جو روز محشر عرش کا سایہ پانے کاذریعہ ہے۔
اعتکاف کرنے والے کو شب بیداری،تہجد ،نوافل کی عادت ہوجاتی ہے
اعتکاف کرنے والے کو دنیا سے بے رغبتی ،اللہ کی طرف توجہ اور ذکراللہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے
اعتکاف کرنے والےکو فضول گویائی،نفسانی خواہشات اور گناہ سے بچنے کی توفیق ہوجاتی ہے
اعتکاف کرنے والے کوخلوت و تنہائی میسر آجاتی ہے جس میں وہ ندامت کےآنسو بہاکر توبہ کرنے کےمواقع میسر ہوجاتے ہیں
اعتکاف کرنے والے کو جائز دُنیاوی اُمور اور مرغوب چیزیں چھوڑنے کی بناپر دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوجاتی ہے۔
اعتکاف کرنے والےکے دل کی اصلاح اور اس کے دل میں فکر آخرت پیدا ہوتی ہے۔
سنت سمجھ کر اعتکاف میں بیٹھنے والے کے دل میں محبت اور عشق رسولﷺکے جزبات پیدا ہوتے ہیں۔
اعتکاف کرنے والےمیں زندگی تبدیل کرنے اور اپنے آپ کو شریعت مطہرہ کے سانچے میں ڈھالنے کا جزبہ پیدا ہوتا ہے۔
معتکف سے چند گزارشات:
ہمہ وقت اللہ کی طرف رجوع رکھیں،اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں،اللہ رب العزت کے سامنے دست بازو پھلائیں،گڑگڑائیں،تلاوت قرآن کریں،ذکر اللہ میں مشغول ہوجائیں ۔
یہ وقت ہوتا ہے اللہ کو راضی کرنے کا،اپنے گناہ بخشوانے کا،اللہ کی طرف لو لگانے گا،اللہ سے مانگنے کا،اللہ کا منانے کا ،رب کے سامنے سربسجود ہوجانے کا
اس وقت کو غنیمت جانیں،سُوکر،دوستوں کو بلاکر گپ شپ لگاکر،یا موبائل پر وقت کو گزارنے کا موقع نہیں اگر یہ قیمتی موقع ان فضول کاموں میں ضائع کردیا تو یاد رکھیے گا کہ رمضان آجائے گا پر شاید ہم نہ ہونگے،یہ موقع نہ ہوگا،یہ لمحات نہ ہونگے
جو وقت ملا اس کو غنیمت جان کر اس سے مکمل استفادہ ھاصل کرنے کی کوشش کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ معتکف مسجد کے آداب کا مکمل خیال کرے
مسجد میں فضول بحث و مباحثہ سے اجتناب کرے۔
مسجد میں سیاسی گفتگو سے پرہیز کرے۔
مسجد میں عبادات اور اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرے۔
مسجد میں دوست احباب کی مجلس سجاکر گپ شپ لگانے سے مکمل اجتناب کرے۔
مسجد کی صاف ستھرائی کا ضرور خیال رکھے۔
مسجد میں ضرورت کے علاوہ موبائل فون کے استعمال سے اجتناب کرے۔
مسجد میں بوقت نماز ،نماز تراویح میں خیمہ میں بستر لگاکر سونے سے مکمل پرہیز کرے۔
دعا ہے اللہ پاک ہم سب کو سنت کے مطابق اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اور ان لمحات سے مکمل استفادہ ھاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
 
Top