(76) اسمائے مشتقّہ

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلاَ اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ
رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ‏ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ‏ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ‏ يَفۡقَهُوۡا قَوۡلِى

رَبِّ يَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيْرِ
اسمائے مشتقّہ
عربی زبان میں بننے والے الفاظ خواہ وہ افعال ہوں یا اسماء ان کا ایک مادہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر الفاظ کا مادہ تین حروف پر مشتمل ہوتاہے۔
بعض مادوں سے بہت کم الفاظ بنتے ہیں اور بعض سے بہت زیادہ۔
ان الفاظ کی بناوٹ دو طرح کی ہوتی ہے۔
کچھ الفاظ ایک قاعدے اور اصول کے تحت بنتےہیں۔ یعنی وہ تمام مادوں سے ایک ہی طریقے پر یعنی ایک ہی مقررہ وزن پر بنائے جا سکتےہیں ایسے الفاظ مشتقات کہلاتے ہیں۔
کچھ الفاظ کسی قاعدے اور اصول کے تحت نہیں بنتے بلکہ اہل زبان انھیں جس طرح استعمال کرتے آئے ہیں وہ اسی طرح استعمال ہوتےہیں۔ انھیں جامد کہتے ہیں۔
افعال سب کے سب مشتقات ہیں کیونکہ ہر فعل کی بناوٹ مقررہ قواعد کے مطابق عمل میں آئی ہے۔
سینکڑوں اسماء ایسے ہیں جو کسی قاعدے کے تحت نہیں بنائے گئے بس اہل زبان ان کو اس طرح استعمال کرتے ہیں۔ جیسے عربی زبان میں ثلاثی مجرد کا "مصدر" کسی قاعدہ کے تحت نہیں بنتا مثلا:
مارنا ضرب
جانا ذھاب
طلب کرنا طلب
بخش دینا غفران
بیٹھنا قعود
اسی طرح بے شمار اشخاص، مقامات اور دیگر اشیاء کے نام بھی کسی قاعدہ اور اصول کے تحت نہیں آتے مثلا: ملک، ملک، رجل، رجل
ان تمام اسماء کا یقینا مادہ تو ہے لیکن ان کی بناوٹ کسی خاص اصول کے تحت نہیں ہے۔ ان اسماء کو جامد کہتےہیں۔ تاہم کچھ اسماء ایسے بھی ہیں جو تمام مادوں سے تقریبا ایک ہی طریقے سے بنائے جاتے ہیں ایسے اسماء کو اسماء مشتقہ کہتےہیں۔
اسمائے مشتقہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔
اسم الفاعل
اسم المفعول
اسم الظرف
اسم الصفہ
اسم الآلہ

و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الانبیاء و المرسلين سيدنا محمد و على آله وصحبه أجمعين

والسلام
30-04-2023
 
Top