تین جگہ جھوٹ بولنے کی گنجائش

Akbar Aurakzai

وفقہ اللہ
رکن
عَنْ اُمّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ بْنِ أَبِى مُعِيطٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِى يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِىَ خَيْراً أَوْ يَقُولُ خَيْراً﴾ (متفق عليه) وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ زِيَادَةٌ: قَالَتْ وَ لَمُ أَسْمَعُهُ يُرَخّصُ فِى شَيْءٍ مِمَّا يَقُولُهُ النَّاسُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ: تَعْنِي الْحَرُبَ وَالإصْلاحَ بَيْنَ النَّاسِ وَ حَدِيثَ الرَّجُلِ اِمْرَأَتَهُ وَ حَدِيثَ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا .
ترجمہ: حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، فرماتے تھے کہ وہ انسان جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان جھوٹ بول کر صلح کرواتا ہے اور نیکی کی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔"
مسلم کی روایت میں ہے کہ اس نے بیان کیا کہ میں نے آپ سے نہیں سنا کہ (جھوٹ بولنے میں جیسا کہ عام طور پر لوگ بولتے ہیں ) اجازت دی ہو البتہ تین چیزوں میں اجازت ہے لڑائی اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے اور آدمی کا اپنی بیوی سے باتیں کرنا اور عورت کا اپنے خاوند سے گفتگو کرنے میں جھوٹ بولنا۔ لغات: يصلح: صالح، مُصَالَحةً مفاعلہ سے صلح کرنا۔ اور کرم فتح نصر سے بمعنی درست، ٹھیک ہونا۔
ينمي نَمَى يَنْمِی ضرب سے بمعنی چغلخوری کرنا۔
تشريح: جھوٹ بولنے سے کیا مراد ہے
لَيْسَ الْكَذَّابُ : وہ آدمی جھوٹا نہیں ہے۔ علامہ طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان جگہوں پر جھوٹ بولنا جائز ہے۔ مگر دوسرے بعض فرماتے ہیں کہ جھوٹ بولنا تو ہر جگہ حرام ہے جہاں پر جھوٹ بولنے کا جواز معلوم ہوتا ہے وہاں مراد تو ریہ ہے کہ متکلم معنی بعید مراد لے رہا ہو اور مخاطب معنی قریب مراد لے جیسے کہ جب آپ ﷺ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ معظمہ سے
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو راستہ میں کسی نے پوچھا (جو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جانتا تھا اور آپ کو نہیں جانتا تھا) یہ تمہارے ساتھ کون ہیں۔ تو اس پر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ مجھے راستہ بتانے والا ہے۔ مراد جنت کا راستہ ہے اور مخاطب یہ سمجھا کہ مدینہ منورہ کے راستہ کو بتانے والا ہے یہاں پر اس کی تین مثالیں دی جارہی ہیں۔
(1) يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِی خَيْرًا جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے بھلائی کی بات آگے پہنچاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب دو مسلمانوں میں لڑائی ہو جائے تو اب تیسرا آدمی ان دونوں کے باہم بغض و عناد کو دور کرنے اور ان میں صلح کروانے کے لئے ایک دوسرے کی طرف اچھی باتیں پہنچائے تا کہ وہ دونوں صلح اور دوستی پر آمادہ ہو جائیں۔
(2) الْحَرْبُ : لڑائی کے موقع پر دشمن کو اصل صورتحال سے بے خبر رکھنے کے لئے غلط بیانی سے کام لیا جائے اور دشمن کو دھوکہ میں رکھا جائے تا کہ فتح حاصل کرنا آسان ہو جائے۔
(3) وَحَدِيْتُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا: مرد کی بات اپنی بیوی ہے۔ کہ جب گھر یلو زندگی کو صحیح طرح کرنے کے لئے خاوند کو بیوی سے یا بیوی کو خاوند سے کچھ غلط بیانی کی ضرورت پڑے کہ اس کے بغیر زندگی تلخ ہونے کا خطرہ ہو تو اب اس موقع پر بھی شریعت نے بقدر ضرورت جھوٹ (توریہ) کی اجازت دی ہے۔
تخريج حديث: أخرجه البخارى فى كتاب الصلح تحت باب ليس الكذاب الذي الخ و مسلم في كتاب البر والصلة تحت باب تحريم الكذب و بيان المرأة، و أحمد ۲۷۳٤٠/١٠ - ابوداود والترمذی، عبد الرزاق ۲۰۱۹٦ - و ابن حبان ،٥٧٣٣ ، و هكذا في البيهقي ١٩٧/١٠ -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راویہ حدیث حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مختصر حالات:
ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا کنیت ہے، والد کا نام عقبہ بن ابی معیط ، والدہ کا نام اروی بنت کریز تھا۔ ان کے والد عقبہ یہ مکہ کے سخت مشرکین میں سے تھا جس کو اسلام سے سخت نفرت تھی۔
صلح حدیبیہ کے بعد حضرت ام کلثوم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی پیچھے ان کے بھائی بھی آگئے اور صلح نامہ جو مرتب ہوا تھا اس میں یہ تھا کہ قریش کا کوئی آدمی مکہ سے مدینہ آئے گا تو اس کو واپس کر دیا جائے گا۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر ہوئی تو قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَاجَاءَ كُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ الاية" کہ اس صلح میں عورتیں داخل نہیں ہیں۔
پہلا نکاح ان کا زید بن حارثہ سے پھر ان کے انتقال کے بعد زبیر بن العوام سے پھر عبد الرحمن بن عوف سے اور پھر آخری نکاح ان کا عمرو بن العاص سے ہوا۔
مرویات: ان سے تقریباً دس احادیث نقل کی جاتی ہیں، حدیث بالا صحیحین میں ہے باقی دوسری کتب احادیث میں ہیں۔
(من کتاب روضۃ الصالحین )
طالب دعاء: اکبر حسین اورکزئی
 
Top