حسد کی مذمّت

Akbar Aurakzai

وفقہ اللہ
رکن
الحمدُ للهِ ربِّ العالمينَ، أحمدُهُ تعالَى حَمداً طيِّباً مُباركاً فيهِ كمَا يُحبُّ ويَرضَى، وأَشهدُ أنْ لاَ إلهَ إِلاَّ اللهُ وحدَهُ لا شَريكَ لَهُ، وأَشهدُ أنَّ سيِّدَنا ومَولَانا وحَبيبَنا وقُرَّةَ أَعيُنِنا محمّداً عَبدُ اللهِ ورسولُه، وصفِيُّهُ مِنْ خَلقِهِ وخَليلُه، اللَّهُمَّ صَلِّ وسلِّمْ وبارِكْ علَى سيّدِنَا محمّدٍ وعلَى آلِهِ وصحبِهِ أجمعينَ، ومَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ.
اما بعد : عزیزانِ محترم! انسان کو عام طور پر دو طرح کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں: ایک جسمانی اور دوسرے روحانی، جسمانی اَمراض جیسے نزلہ، زکام، بخار، دردِ سر، ہائی بلڈ پریشر وغیرہ، اگر ان کا علاج بر وقت ہو جائے تو عام طور پر شفا مل جایا کرتی ہے، نیز جسمانی اَمراض میں مبتلاہونا بعض احوال میں انسان کے لیے فائدہ مند بھی ہوتا ہے، اس سے مسلمان کے گناہ دُھل جاتے ہیں، اور اگر بالفرض علاج کرانے کے باوجود شفا نصیب نہ ہوئی، اگر اسی مرض میں اس کا انتقال ہوگیا، تب بھی مسلمان فائدے ہی میں ہے؛ کہ اس مرض سےمؤمن کےگناہ دُھل جاتے ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں، اور یہ آزمائش اس کے لیے بخشش اور اللہ تعالی کی رِضا کا سبب بنتی ہے،
دوسری قسم کے اَمراض روحانی ہیں، جیسے جھوٹ، غیبت، چغلی، بدگمانی اورتکبر وغیرہ، اگر ان امراض کا علاج بھی بر وقت ہو جائے تو ان سے بھی نجات مل سکتی ہے، یہ روحانی امراض انسان کے لیے انتہائی مضر وخطرناک ہیں، ان میں مبتلا انسان کے گناہوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے، اگر اِن کے علاج کی طرف توجہ نہ دی جائے، اور ان امرض ہی میں کسی کا انتقال ہوگیا، تو اس کی آخرت خراب ہونے کا بھی شدید اندیشہ ہے، ان امرض میں مبتلاہونا اللہ تعالی کی ناراضگی اور غضب کا سبب بنتا ہے، انہی روحانی بیماریوں میں سے ایک مہلک مرض حسد بھی ہے، قرآن وحدیث میں اس مہلک مرض کی سخت مذمت فرمائی ہے، خالقِ کائنات ارشاد فرماتا ہے: ﴿يَوْمَ لاَ يَنفَعُ مَالٌ وَلاَ بَنُونَ* إِلاَّ مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾ "قيامت کے دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے، مگر وہ جو الله کے حضور دل سلامت لے کر حاضر ہوا"،
قلبِ سلیم وہ ہے جو بدعقیدگیوں سے پاک وصاف ہو، علمائے کرام فرماتے ہیں کہ قلبِ سلیم وہ ہے جو اللہ تعالی کی محبت میں گم ہو، اس کے ساتھ ساتھ روحانی اَمراض سے پاک وصاف ہو، روحانی اَمراض میں سے ایک بیماری حسد بھی ہے، جو دل کی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے، حاسد شخص دوسرے کی نعمت کے زوال کی تمنا کرتاہے، یہی وہ پہلا مرض ہے جو رب تعالی کی ناراضگی کا سبب بنا؛کہ شیطان نے حضرت سیّدنا آدم عليه السلام سے ان کے مقام ومرتبہ کی وجہ سے حسد کیا، اور اسی وجہ سے اس نے حضرت سیّدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، جب کہ اللہ تعالی نے اسے سجدہ کرنے کاحکم فرمایا، اسی طرح قابیل نے ہابیل سے حسد کیا، جس وقت اللہ تعالی نے اس کے بھائی سے قربانی قبول فرمائی اور قابیل سے قبول نہیں کی، تو حسد نے اسے اس گناہ میں مبتلا کردیاکہ اس نے اپنے بھائی تک کو قتل کر دیا، اور بالآخر اسے آخرت میں نقصان وہلاکت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حسد مسلم معاشر ے کے لیے ایک مہلک بیماری ہے، مسلم معاشرہ آج جن جن روحانی امراض کا شکار ہے، ان میں سے ایک مہلك ترین بيمارى حسد بھی ہے، یہ ايك ایسی بُری عادت ہے جس سے انسان کا جسم تو متاثر ہوتا ہى ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کا دین وایمان بھی متاثر ہوتا ہے، حسد سے عموماً حاسد کے رشتہ دار، دوست واَحباب اور ملنے جلنے والوں کا تعلق بھی متاثر ہوتا ہے، حسد معاشرے میں بغض ، نفرت وعدوات کے بیج بوتا ہے، جس سے نظر ِبد، تعویذ، گنڈا، جادو، ٹونا اور اس جیسے دیگر مکروہ اعمال کرنے کرانے کا بھی ایک دروازہ کھل جاتا ہے، حسد سے محبت، شفقت، صلہ رحمی اور اِیثار وقربانی کے بنیادی اسلامی جذبات بھی فنا ہو جاتے ہیں، اسی لئے دنيا كے تمام اَديان نے حسد کی مذمت کی ہے، اور اسے انسانیت کے لئے زہر قاتل قرار دیا ہے۔
گرامی قدر! حسد کے انہی خطرات ومضرات کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالی نے حکم فرمایا کہ ہم حاسد کے شر سے حفاظتی تدبیر کریں، اس سے اللہ کی پناہ مانگیں، اللہ تعالى فرماتا ہے: ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ* مِن شَرِّ مَا خَلَقَ * وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ * وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي العُقَدِ* وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ﴾ "تم فرماؤ: میں اُس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے، اس کی سب مخلوق کے شر سے، اور اندھیری ڈالنے والے (سورج) کے شر سے جب وہ ڈوبے، اور اُن (جادوگر) عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں، اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جَلے"، یعنی بعض لوگ ایسے تنگ دل ہوتے ہیں جو دوسروں کی بھلائی اور بہتری کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ سکتے، خاص طور پر اپنے رشتہ داروں، عزیزوں، دوستوں اور ہم پیشہ اَفراد کو جب اچھی اور آسودہ حالت میں دیکھتے ہیں تو ان کے سینوں میں حسد کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے، اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ خوشحال لوگوں کی نعمتیں اور آسودگی ان سے چِھن کر مجھے مل جائے۔
میرے عزیز دوستو! حاسد وہ ہے جو دوسرے کی نعمت کا زوال چاہے، حسد ہی وہ پہلا گناہ ہےجو آسمان میں ابلیس سے ہوا اور زمین میں ہابیل کے بھائی قابیل سے ہوا،اس سے معلوم ہوا کہ حسد بدترین جرم ہے جس سے ہر مسلمان کو بچنا بے حد ضروری ہے۔ حسد ایک ایسی برائی ہے جو کبھی کسی امت کے لئےجائز نہیں ہوئی، جب بھی کوئی قوم اس میں مبتلا ہوئی وہ ہلاکت میں پڑی، نیزحسد ایمان کے بھی منافی ہے، مصطفی جانِ رحمت ﷺ نے فرمایا: «لاَ يَجْتَمِعُ فِي جَوْفِ عَبْدٍ الإِيمَانُ وَالْحَسَد» "کسی کے سینے میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے"، معاشرے کے اَفراد کا آپس میں حسد نہ کرنا اُس معاشرے کی بھلائی کی علامت ہے، مسلمان کے سچے ایمان کی ایک دلیل ہے، سرکارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا: «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ» "تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے"۔
محترم بھائیو! حسدکی کئی صورتیں ہیں، وہ سب کی سب قابل مذمت ہیں، سوائے یہ کہ جس میں بھلائی ہو، اور وہ صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے لئے اس نعمت کی تمنا کرے اور اس میں دوسروں سے اس نعمت کے چِھن جانے کی آرزو نہ ہو، بلکہ ان کے پاس اس نعمت کی بقا کے لیے دعا کرے، اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ہمارے آقا ومولا جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالاً فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْحِكْمَةَ، فَهْوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا» "حسد صرف دو چیزوں میں جائز ہے: ایک یہ کہ اللہ تعالی کسی کو مال دے اور اسے راہِ حق میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دے، دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کسی کو دین کا علم عطا فرمائے، پھر وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتا رہے"۔
دوستو! حسد کے کئی اسباب ہیں: ان میں سے ایک اہم سبب دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی مذموم کوشش بھی ہے؛ کہ انسان اپنے معاملات کو ایسے ذرائع سے درست کرنے کی کوشش کرتا ہے جو شریعت کی نظر میں جائز نہیں، اس طرح حسد کی ابتداء ہوتی ہے، پھر یہی حسد بڑھتے بڑھتے دشمنی وبغض وعداوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: «وَاللهِ! مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ» "
خدا کی قسم! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم لوگ فقر وفاقہ میں مبتلا ہو جاؤ گے، ہاں مجھے تم پر خوف اس بات کا ہے کہ تم پر دنیا اس طرح کشادہ ہو جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ ہوگئی تھی، پھر تم بھی اُن کی طرح دنیا کی محبت میں پڑ جاؤ گے، اور یہ دنیا تمہیں بھی اسی طرح ہلاک وبرباد کردے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر چکی ہے"۔
بہر حال اچھی باتوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا جائز ودرست ذرائع سے ہو تو یہ مسابقت شریعت میں جائز ومطلوب ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ المتَنَافِسُونَ﴾ "اسی پر چاہیے کہ تمنا كريں تمناكرنے والے"۔
اسی طرح تکبر اور خود پسندی بھی کبھی حسد میں مبتلا ہونے کے اسباب بن جایا کرتے ہیں، وہ اس طرح کہ انسان کبھی اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمت صرف میرے پاس رہے، میرے سوا کسی دوسرے کے پاس نہ ہو، اور دوسروں کے یہاں سے اس نعمت کے چِھن جانے کی تمنا کرتا ہے، جبکہ یہ تو ابلیس کا وہ قول ہے کہ جب اس نے کہا: ﴿أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ﴾ "میں اس (آدم) سے بہتر ہوں، مجھے تُو نے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا"۔
محترم دوستو ! كامل مسلمان وہ ہے جو اپنے دل کو اِن امراض سے پاک کرلے، اور اگر کبھی حسد کے مرض میں مبتلا ہو بھی جائےتو اپنا علاج کرے، اس مہلک بیماری سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے، انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ حکمتِ عملی سے حسد سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے، لوگوں سے محبت کرے، ان سے اچھی طرح بھائی چارہ قائم کرے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَاناً» "كسی سے حسد نہ کرو، کسی سے بغض نہ رکھو، کسی کی غیبت نہ کرو اور الله کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو"۔
محترم دوستو ! حسد سے نجات وچھٹکارا پانے کی طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالى کی تقسیم پر راضی رہے، اللہ تعالی کی جو جو نعمتیں اسے حاصل ہیں ان پر قناعت کرے، اللہ کا شکر ادا کرے، جب آدمی قناعت اختیار کرتا ہے، اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی رہتا ہے، تو لوگوں کے پاس موجود نعمتوں کی تمنا وآرزو سے آزاد ہو جاتا ہے، رسول اللھ ﷺ نے فرمایا: «ارْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَكَ، تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ» "الله تعالی كی تقسیم پر راضی رہو، امیر ترین ہو جاؤ گے"، جو کچھ موجود ہے اس پرقناعت ورضا آدمی میں راحت وسکون پیدا کرتا ہے، اور یہ چیز کامیابی کے اَسباب میں سے ایک اہم ترين سبب ہے، آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا: «قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافاً، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ» "جس نے اسلام قبول کرلیا، اور جسے ضرورت کے مطابق روزی مل گئی، اور جسے اللہ نے قناعت کی توفیق دے دی، اس نے فلاح پالی"۔
دوستو ! یاد رکھنا چاہیے کہ دل کی سلامتی ان اہم چیزوں میں سے ہے جن پر مسلمان کو خاص توجہ کرنا انتہائی ضروری ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: «أَلاَ وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ» "خبر دار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے کہ جب وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے، سُن لو! وہ گوشت کا ٹکڑا انسان کا دل ہے"۔
اچھا مسلمان اپنے دل کو ان روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے، جیسے حسد، کینہ وبغض، حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عمرو رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی: لوگوں میں سے افضل کون ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: «كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ، صَدُوقِ اللِّسَانِ» "صاف دل اور زبان کا سچا"، صحابۂ کرام علیهم الرضوان نے عرض کی: زبان کا سچّا تو ہم سمجھ گئے، مگر صاف دل سے کیا مراد ہے؟، فرمایا: «هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ، لاَ إِثْمَ فِيهِ، وَلاَ بَغْيَ، وَلاَ غِلَّ، وَلاَ حَسَدَ» "وہ پاک باز وپرہیزگار، جس کا دل اتنا پاکیزہ ہو جس میں نہ کوئی گناہ کا خیال ہو، نہ بغاوت، نہ کینہ، نہ حسد"، اللہ تعالی اپنی محبت ورضا سے ہم پر کرم فرمائے، ہمارے دلوں کو ان امراض سے پاک فرمائے۔ أمين ثم أمين
طلب دعاء : اكبر حسين اوركزئي دوحه قطر
 
Top