شوال کے روزے

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
شوال کے روزے
محمدداؤدالرحمن علی
رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں کے اختتام کے بعد جو پہلا دن آتا ہے یعنی عیدالفطر کا دن یہ دن یکم شوال کہلاتا ہے۔ماہِ شوال اسلامی سال کا دسواں قمری مہینہ ہے۔
ماہِ شوال کا لغوی معنی اور وجہ تسمیہ:
۱۔“شوال” عربی مصدر ’’شول‘‘ سے مشتق ہے ،اور’’شول‘‘ کے معنی’’اوپراٹھنا اوراوپر اٹھانا، بلند ہو نا اوربلند کرنا‘‘ کے آتے ہیں ۔عربی میں کہاجاتا ہے’’ شالت الإبل بأذنابها للطراق‘‘یعنی نر اونٹ نے جفتی کرنے لیے اپنی دم اوپر اٹھالی۔(قاموس الوحید، ص:۸۹۹،ط: ادارۃ اسلامیات)
’’شوال‘‘ ’’تشویل‘‘ سے مشتق ہے اور ’’تشویل‘‘کا معنی ’’اونٹ کے دودھ کاکم ہونا‘‘کے ہیں ۔ عربی میں کہاجاتا ہے’’ شوّلت الناقۃ و شوّلت المزادۃ‘‘یعنی اونٹی کا دودھ اورمشکیزےکا پانی کم ہوگیا۔(قاموس الوحید، ص: ۹۰۰،ط:ادارۃ اسلامیات)
علامہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ایک روایت نقل کی ہے ،جس میں ’’شوال‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہےکہ اس مہینے میں لوگوں کے گناہ اٹھالیے جاتے ہیں (معاف کردئیے جاتے ہیں)،اس لیے اس مہینے کو ’’شوال‘‘ کہا گیا ۔(تاریخ دمشق لابن عساکر: (335/45، ط: دار الفکر) کذا فی کنزالعمال لعلی المتقي: (رقم الحدیث: 24284، 588/8، ط: مؤسسة الرسالة)
شوال کے چھ روزے:۔
رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے۔ اس کی فضیلت احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے:
۱۔عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺ قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر‘‘. رواه الجماعة إلا البخاري والنسائي‘‘. ( اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث ۲۵۴۱- ط: ادارۃ القرآن کراچی )
”حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمار ہوں گے۔“
۲۔حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَسِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، فَکَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ کُلَّھَا“․(مسند احمد)
”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور (اس کے بعد )شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔“
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔
شوال کے چھ روزوں کا نبوی(ﷺ)حساب:۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
”اللہ تعالیٰ نے ایک نیکی کا بدلہ دس کے برابر رکھا ہے،لہذا رمضان کےایک ماہ کے روزے دس مہینوں کے برابر اور عیدالفطر کے بعد چھ دن کے روزےپورے سال کے روزوں کے برابر ہیں۔“(سنن نسائی:۲۸۶۱،صیام ستۃ ایام من شوال)
دوسری روایت میں ہے
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:رمضان کے روزے دس ماہ اور چھ روزے (شوال)کے دو ماہ ہیں، تو یہ پورے سال کے روزے ہوئے۔(صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر:2115)
تیس کو جمع کریں چھ کے ساتھ تو حساب آتا ہے چھتیس،اب چھتیس کو دس کے ساتھ ضرب دیں تو حساب آتا ہے تین سو ساٹھ۔
علماء کی تشریح:۔
علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں : ہر نیکی کاثواب دس گنا ہے ،اس حساب سے رمضان کا مہینہ دس ماہ کے قائم مقام ہوا اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے قائم مقام ہوئے،تو گویا ایک سال مکمل ہوگیا ، اس طرح پورا سال روزہ رکھنے کا اجر ملے گا۔(شرح النووي: (369/1)
علامہ ابن رجب حنبلی ؒ نے شوال کے چھ روزوں کے کئی فوائد ذکر فرمائے ہیں:
۱۔ پورے سال کے روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے۔
۲۔قیامت کے دن فرائض میں نقص اور کمی کو نوافل سے پورا کیا جائے گا ،جیسا کہ حدیث میں آتا ہےکہ قیامت کے دن تمام اعمال میں سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا ،تو ہمارا پروردگار فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے، دیکھو! میرے بندہ کی نماز کامل ہے یا ناقص؟ اگر وہ کامل ہوگی تو کامل ہی لکھ دی جائے گی۔ (یعنی اس کا ثواب پورا لکھا جائے گا) اگر اس میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی، تو اللہ فرشتوں سے فرمائے گا، دیکھو! میرے بندہ کے پاس کچھ نفل بھی ہیں؟ اگر نفل ہوں، تو میرے بندہ کے فرائض کی کمی اس کے نوافل سے پوری کر دو۔ پھر تمام اعمال کا حساب اسی طرح لیا جائے گا۔ (یعنی فرض کی کوتاہی کو نفل سے پورا کر لیا جائے گا) (سنن أبي داؤد: (رقم الحدیث:766، 229/1، ط: المکبة العصریة)
لہذا شوال کےچھ روزے بھی نماز سے پہلے اور بعد کی سنتوں اور نوافل کی طرح ہیں،ان کے ذریعے اللہ تعالی رمضان المبارک کے روزوں کےنقص اور کمی کو پورا کردیں گے ۔
۳۔رمضان کے بعد شوال کےروزے رکھنا ،اس بات کی دلیل اور علامت ہےکہ رمضان کے فرض روزے قبول کرلیے گئے۔احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے کے نیک عمل کو قبول فرماتے ہیں ،تو اس کو مزید نیک عمل کی توفیق عطا فرماتے ہیں ۔ اس لیے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کرنا ،پہلی نیکی کے قبولیت کی علامت ہے۔
۴۔اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صومِ رمضان کی ادائیگی کی نعمت وتوفیق پالینے پر ذکرِ الٰہی وتکبیر وتسبیح وغیرہ سے اپنی شکرگزاری کا حکم فرمایا ہے۔
’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اورحق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں، لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا، اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو او شکرگزار بنو۔ ‘‘ (بقرہ، آیت نمبر:185)
لہٰذا رمضان کی توفیق پالینے، اورگناہوں کی مغفرت پر شکرگزاری میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد چند روزے رکھے جائیں۔ حضرت وہیب بن الوردرحمہ اللہ سے اگر کسی نیکی پر مرتب ہونے والے ثواب کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو فرماتے: نیک عمل کے اجر وثواب کے بارے میں مت پوچھو، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ اس عمل کی ادائیگی پر شکریہ کیسے ادا کیا جائے کہ رحمن ورحیم رب نے تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائی۔(لطائف المعارف لابن رجب الحنبلي، ط: دار ابن کثیر)
چھ روزے کس ترتیب سے رکھیں:۔
شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کرکے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
متفرق مسائل:۔
۱۔یاد ركهیں!عید الفطر کے بعد شوال کے یہ چھ روزے فرض، یا واجب نہیں ہیں۔ بلکہ مستحب ومسنون ہیں۔
۲۔شوال کے مہینے میں یہ چھ روزے رکھتے ہوئے قضاء اور ان روزوں کی نیت جمع کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ جدا جدا ہی رکھنا ضروری ہے۔
۳۔اگر ان روزوں میں سے کوئی روزہ رکھ کر کسی وجہ سے توڑنا پڑ جائے تو اس کی صرف قضاء لازم ہو گی، کفارہ نہیں
۴۔اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر اس سال نہ رکھ سکا تو وہ گناہگار نہیں ہو گا اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہو گی ۔

الله پاك ہم سب کو یہ روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
 

Akbar Aurakzai

وفقہ اللہ
رکن
شوال کے روزے
محمدداؤدالرحمن علی
رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں کے اختتام کے بعد جو پہلا دن آتا ہے یعنی عیدالفطر کا دن یہ دن یکم شوال کہلاتا ہے۔ماہِ شوال اسلامی سال کا دسواں قمری مہینہ ہے۔
ماہِ شوال کا لغوی معنی اور وجہ تسمیہ:
۱۔“شوال” عربی مصدر ’’شول‘‘ سے مشتق ہے ،اور’’شول‘‘ کے معنی’’اوپراٹھنا اوراوپر اٹھانا، بلند ہو نا اوربلند کرنا‘‘ کے آتے ہیں ۔عربی میں کہاجاتا ہے’’ شالت الإبل بأذنابها للطراق‘‘یعنی نر اونٹ نے جفتی کرنے لیے اپنی دم اوپر اٹھالی۔(قاموس الوحید، ص:۸۹۹،ط: ادارۃ اسلامیات)
’’شوال‘‘ ’’تشویل‘‘ سے مشتق ہے اور ’’تشویل‘‘کا معنی ’’اونٹ کے دودھ کاکم ہونا‘‘کے ہیں ۔ عربی میں کہاجاتا ہے’’ شوّلت الناقۃ و شوّلت المزادۃ‘‘یعنی اونٹی کا دودھ اورمشکیزےکا پانی کم ہوگیا۔(قاموس الوحید، ص: ۹۰۰،ط:ادارۃ اسلامیات)
علامہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ایک روایت نقل کی ہے ،جس میں ’’شوال‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہےکہ اس مہینے میں لوگوں کے گناہ اٹھالیے جاتے ہیں (معاف کردئیے جاتے ہیں)،اس لیے اس مہینے کو ’’شوال‘‘ کہا گیا ۔(تاریخ دمشق لابن عساکر: (335/45، ط: دار الفکر) کذا فی کنزالعمال لعلی المتقي: (رقم الحدیث: 24284، 588/8، ط: مؤسسة الرسالة)
شوال کے چھ روزے:۔
رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے۔ اس کی فضیلت احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے:
۱۔عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺ قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر‘‘. رواه الجماعة إلا البخاري والنسائي‘‘. ( اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث ۲۵۴۱- ط: ادارۃ القرآن کراچی )
”حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمار ہوں گے۔“
۲۔حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَسِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، فَکَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ کُلَّھَا“․(مسند احمد)
”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور (اس کے بعد )شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔“
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔
شوال کے چھ روزوں کا نبوی(ﷺ)حساب:۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
”اللہ تعالیٰ نے ایک نیکی کا بدلہ دس کے برابر رکھا ہے،لہذا رمضان کےایک ماہ کے روزے دس مہینوں کے برابر اور عیدالفطر کے بعد چھ دن کے روزےپورے سال کے روزوں کے برابر ہیں۔“(سنن نسائی:۲۸۶۱،صیام ستۃ ایام من شوال)
دوسری روایت میں ہے
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:رمضان کے روزے دس ماہ اور چھ روزے (شوال)کے دو ماہ ہیں، تو یہ پورے سال کے روزے ہوئے۔(صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر:2115)
تیس کو جمع کریں چھ کے ساتھ تو حساب آتا ہے چھتیس،اب چھتیس کو دس کے ساتھ ضرب دیں تو حساب آتا ہے تین سو ساٹھ۔
علماء کی تشریح:۔
علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں : ہر نیکی کاثواب دس گنا ہے ،اس حساب سے رمضان کا مہینہ دس ماہ کے قائم مقام ہوا اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے قائم مقام ہوئے،تو گویا ایک سال مکمل ہوگیا ، اس طرح پورا سال روزہ رکھنے کا اجر ملے گا۔(شرح النووي: (369/1)
علامہ ابن رجب حنبلی ؒ نے شوال کے چھ روزوں کے کئی فوائد ذکر فرمائے ہیں:
۱۔ پورے سال کے روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے۔
۲۔قیامت کے دن فرائض میں نقص اور کمی کو نوافل سے پورا کیا جائے گا ،جیسا کہ حدیث میں آتا ہےکہ قیامت کے دن تمام اعمال میں سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا ،تو ہمارا پروردگار فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے، دیکھو! میرے بندہ کی نماز کامل ہے یا ناقص؟ اگر وہ کامل ہوگی تو کامل ہی لکھ دی جائے گی۔ (یعنی اس کا ثواب پورا لکھا جائے گا) اگر اس میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی، تو اللہ فرشتوں سے فرمائے گا، دیکھو! میرے بندہ کے پاس کچھ نفل بھی ہیں؟ اگر نفل ہوں، تو میرے بندہ کے فرائض کی کمی اس کے نوافل سے پوری کر دو۔ پھر تمام اعمال کا حساب اسی طرح لیا جائے گا۔ (یعنی فرض کی کوتاہی کو نفل سے پورا کر لیا جائے گا) (سنن أبي داؤد: (رقم الحدیث:766، 229/1، ط: المکبة العصریة)
لہذا شوال کےچھ روزے بھی نماز سے پہلے اور بعد کی سنتوں اور نوافل کی طرح ہیں،ان کے ذریعے اللہ تعالی رمضان المبارک کے روزوں کےنقص اور کمی کو پورا کردیں گے ۔
۳۔رمضان کے بعد شوال کےروزے رکھنا ،اس بات کی دلیل اور علامت ہےکہ رمضان کے فرض روزے قبول کرلیے گئے۔احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے کے نیک عمل کو قبول فرماتے ہیں ،تو اس کو مزید نیک عمل کی توفیق عطا فرماتے ہیں ۔ اس لیے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کرنا ،پہلی نیکی کے قبولیت کی علامت ہے۔
۴۔اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صومِ رمضان کی ادائیگی کی نعمت وتوفیق پالینے پر ذکرِ الٰہی وتکبیر وتسبیح وغیرہ سے اپنی شکرگزاری کا حکم فرمایا ہے۔
’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اورحق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں، لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا، اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو او شکرگزار بنو۔ ‘‘ (بقرہ، آیت نمبر:185)
لہٰذا رمضان کی توفیق پالینے، اورگناہوں کی مغفرت پر شکرگزاری میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد چند روزے رکھے جائیں۔ حضرت وہیب بن الوردرحمہ اللہ سے اگر کسی نیکی پر مرتب ہونے والے ثواب کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو فرماتے: نیک عمل کے اجر وثواب کے بارے میں مت پوچھو، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ اس عمل کی ادائیگی پر شکریہ کیسے ادا کیا جائے کہ رحمن ورحیم رب نے تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائی۔(لطائف المعارف لابن رجب الحنبلي، ط: دار ابن کثیر)
چھ روزے کس ترتیب سے رکھیں:۔
شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کرکے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
متفرق مسائل:۔
۱۔یاد ركهیں!عید الفطر کے بعد شوال کے یہ چھ روزے فرض، یا واجب نہیں ہیں۔ بلکہ مستحب ومسنون ہیں۔
۲۔شوال کے مہینے میں یہ چھ روزے رکھتے ہوئے قضاء اور ان روزوں کی نیت جمع کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ جدا جدا ہی رکھنا ضروری ہے۔
۳۔اگر ان روزوں میں سے کوئی روزہ رکھ کر کسی وجہ سے توڑنا پڑ جائے تو اس کی صرف قضاء لازم ہو گی، کفارہ نہیں
۴۔اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر اس سال نہ رکھ سکا تو وہ گناہگار نہیں ہو گا اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہو گی ۔

الله پاك ہم سب کو یہ روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
جزاک اللہ خیرا
 
Top