شام کے گورنر حضر عبیدہ بن جراح اور اس کی رہائش گاہ

Akbar Aurakzai

وفقہ اللہ
رکن
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر بنا دیا گیا، اس لئے کہ شام کا اکثر علاقہ انہوں نے ہی فتح کیا تھا، اس وقت شام ایک بہت بڑا علاقہ تھا آج اس شام کے علاقے میں چار ممالک ہیں یعنی شام، اردن ، فلسطین، لبنان اور اس وقت یہ چاروں مل کر اسلامی ریاست کا ایک صوبہ تھا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اس کے گورنر تھے اور شام کا صوبہ بڑا زرخیز تھا۔ مال و دولت کی ریل پیل تھی۔ اور روم کا پسندیدہ اور چہیتا علاقہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ منورہ میں بیٹھ کر سارے عالم اسلام کی کمان کر رہے تھے، چنانچہ وہ ایک مرتبہ معائنہ کے لئے شام کے دورہ پر تشریف لائے، شام کے دورہ کے دوران ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو عبیدہ ، میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے بھائی کا گھر دیکھوں، جہاں تم رہتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ تھا کہ ابو عبیدہ اتنے بڑے صوبے کے گورنر بن گئے ہیں اور یہاں مال و دولت کی ریل پیل ہے اس لئے ان کا گھر دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے کیا کچھ جمع کیا ہے۔

شام کے گورنر کی رہائش گاہ

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ امیر المومنین! آپ میرے گھر کو دیکھ کر کیا کریں گے اس لئے کہ جب آپ میرے گھر کو دیکھیں گے تو آنکھیں نچوڑنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اصرار فرمایا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ امیر المومنین کو لے کر چلے، شہر کے اندر سے گزر رہے تھے ، جاتے جاتے جب شہر کی آبادی ختم ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کہاں لے جارہے ہو ؟ حضرت ابو عبیدہ نے جواب دیا کہ بس اب تو قریب ہے۔ چنانچہ پورا د مشق شہر جو دنیا کے مال و اسباب سے جگ مگ کر رہا تھا ، گزر گیا تو آخر میں لے جاکر کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک جھونپڑا دکھایا، اور فرمایا کہ امیر المومنین، میں اس میں رہتا ہوں ، جب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے تو چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھا تو وہاں سوائے ایک محلے کے کوئی چیز نظر نہیں آئی، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اے ابو عبیدہ ! تم اس میں رہتے ہو ؟ یہاں تو کوئی ساز و سامان ، کوئی برتن، کوئی کھانے پینے اور سونے کا انتظام کچھ بھی نہیں ہے، تم یہاں کیسے رہتے انہوں نے جواب دیا کہ امیر المومنین الحمد للہ میری ضرورت کے سارے سامان میسر ہیں یہ مصلی ہے، اس پر نماز پڑھ لیتا ہوں، اور رات کو اس پر سو جاتا ہوں اور پھر اپنا ہاتھ اوپر چھپر کی طرف بڑھایا اور وہاں سے ایک پیالہ نکالا، جو نظر نہیں آرہا تھا ، اور وہ پیالہ نکال کر دکھایا کہ امیر المومنین، برتن یہ ہے، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب اس برتن کو دیکھا تو اس میں پانی بھرا ہوا تھا اور سوکھی روٹی کے ٹکڑے بھیگے ہوئے تھے ، اور پھر حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ امیر المومنین میں دن رات تو حکومت کے سرکاری کاموں میں مصروف رہتا ہوں ، کھانے وغیرہ کے انتظام کرنے کی فرصت نہیں ہوتی ایک خاتون میرے لئے دو تین دن کی روٹی ایک وقت میں پکا دیتی ہے ، میں اس روٹی کو رکھ لیتا ہوں اور جب وہ سوکھ جاتی ہے تو میں اس کو پانی میں ڈبو دیتا ہوں اور رات کو سوتے وقت کھالیتا ہوں۔
(سیر اعلام النبلاء ج ا صفحہ ۷۔ امام ذہبی رحمہ اللہ)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ حالت دیکھی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا امیر المومنین، میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ میرا مکان دیکھنے کے بعد آپ کو آنکھیں نچوڑنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو عبیدہ ! اس دنیا کی ریل پیل نے ہم سب کو بدل دیا، مگر خدا کی قسم تم ویسے ہی ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے ، اس دنیا نے تم پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ حقیقت میں یہی لوگ اس کے مصداق ہیں کہ
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
ساری دنیا آنکھوں کے سامنے ہے، اس کی دلکشیاں بھی سامنے ہیں اور اس کی رعنائیاں بھی سامنے ہیں اور دوسرے لوگ جو دنیا کی ریل پیل میں گھرے ہوئے ہیں وہ سب سامنے ہیں لیکن آنکھوں میں کوئی بچتا نہیں ہے، اس لئے کہ اللہ جل جلالہ کی محبت اس طرح دل پر چھائی ہوئی ہے کہ ساری دنیا کے جگ مگ کرتے ہوئے مناظر دھو کہ نہیں دے سکتے ، اللہ تعالیٰ کی محبت ہر وقت دل و دماغ پر مسلط اور طاری ہے ، ہمارے حضرت مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے
تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
(مجذوب)
یہ صحابہ کرام تھے جن کے قدموں میں دنیا ذلیل ہو کر آئی۔ لیکن دنیا کی محبت کو دل میں جگہ نہیں دی۔ حقیقت میں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت تھی۔ آپ نے بار بار صحابہ کرام کو دنیا کی حقیقت کی طرف متوجہ کیا۔ اور بار بار دنیا کی بے ثباتی کی طرف اور آخرت کی ابدی اور دائمی نعمتوں اور عذابوں کی طرف متوجہ کیا جس سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں۔
( اصلاحی خطبات 117٫119/3)
 
Top